1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. کرونا وائرس: پاکستان نے دنیاسے کیا سیکھا

کرونا وائرس: پاکستان نے دنیاسے کیا سیکھا

ایک یاد دہانی کراتے ہوئے آگے چلیں گے کہ ہم جس میں ہیں یا جس دور سے گزر رہے ہیں اس دور کے حوالے سے اسلامی تاریخ خاموش ہے، یہ ضرور ہے کہ جن عوامل کا تذکرہ کیا گیا تھا یا قیامت کے قریب کی نشانیاں بتائی گئی تھی وہ تقریباً ظہور پذیر ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ مسلمانوں کو تو چھوڑ دیں کیا دنیا کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے کبھی سوچا ہوگا کہ کعبتہ اللہ کے طواف پر پابندی لگائی جاسکتی ہے اور ایسا ہوگیا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے 1400 ہجری تک کے حوالے سے آگاہی فراہم کی اور اس سے آگے خاموشی اختیار کی۔ اکیسویں صدی، تکینکی مہارت میں دنیا چاند سے ہوتی ہوئی مریخ اورنامعلوم کی حدود کو چھوتی ہوئی، معلوم نہیں کہاں کہاں پہنچنے کے دعوے کرتی ناصرف سنائی دے رہی ہے بلکہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے ہر خاص و عام کو مطلع بھی کر رہی ہے، انسان نے ایسی ایسی معلومات کا کھوج لگا کر انبار لگادئیے ہیں کہ عقل بھی دنگ ہونے سے قاصر ہوچکی ہے۔ ایٹم بم جیسی خطرناک ترین شے بھی بناڈالی جس کی مدد سے جب چاہیں دنیا کو نیست و نابود کردینے کے دعوے بھی سنائی دیتے رہتے ہیں (نعوذ باللہ)۔ گویا انسان نے زمین کو اور اس پر جو کچھ بھی ہورہا ہے سب کچھ اپنے قبضے میں کرنے کا دعوا کردیا ہے۔ جب چاہے یوں کردے اور جب چاہے یوں کردے۔ قرآن سے تعلق رکھنے والے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں کہ اللہ رب العزت نے قوموں کو انکی خدائی سوچ پر انہیں کیسی کیسی عبرت ناک سزائیں دیں۔ قوم لوط، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم نوح کی مثالیں ساری دنیا کہ سامنے ہیں پھرفرعون اور قارون کیساتھ ہونے والا برتاءو بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حضرت انسان اشرف المخلوقات کی تختی کی وجہ سے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے سے قاصر رہا ہے، بارہا نشان عبرت بنائے جانے کے باوجود غلطیوں کو دہراتا ہی رہتا ہے بلکہ پچھلے سے زیادہ بڑی کرنے کا حدف طے کرلیتا ہے۔ ہر بار بھول جاتا ہے کہ قادر مطلق بھی کوئی ہے۔

2019 کے دسمبر میں چین کے صوبے ووہان میں ایک تہلکہ مچ گیا جب ایک کرونانامی وائرس نے ایسی خاموشی سے حملہ کیا جیسی کے چین نے دنیا کی معیشت پر کیا تھا اوراس وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں زندگیوں کو نگل لیا۔ ابھی چین اس بات کو طے بھی نہیں کرپایا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے انہوں نے بھرپور احتیاطی تدابیر شروع کردیں۔ لوگوں کی انتہائی ضروری چہل قدمی کے علاوہ گھروں میں رہنے کا سختی سے اعلان کردیا۔ چین کے مختلف علاقوں سے طبی امداد کا عملہ متاثرہ علاقوں میں پہنچنا شروع ہوا۔ سماجی ذرائع ابلاغ نے لوگوں میں بچاو کی تدابیر پہنچانا شروع کیں۔ چین نے بہت ہی قلیل وقت میں تقریباً دس دنوں میں ایک بہت بڑا ہسپتال تعمیر کیا جہاں صرف کورونا سے متاثرہ افراد کو رکھا گیا جسکا مقصد یہ تھا کہ اس وائرس کو جتنی جلدی ہوسکے قید کرلیا جائے۔ چین نے جنگی بنیادوں پر کروناوائرس سے نمٹنے کہ عملی اقدامات کئے اور پوری قوم ایک مقصد پر کرونا وائرس کے سامنے حقیقت میں سیسہ پلائی دیوار بن گئی گوکہ چین میں تقریباً ساڑے تین ہزار افراد سے زیادہ اس وائرس کا لقمہ بنے۔ چین کی بروقت حکمت عملی نے محدود علاقے میں ہی کرونا کو زیر کرلیا۔ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ چین دنیا کے کاروبار کا مرکز بنا ہوا ہے اس دوران میں مال برداری بھی ہوتی رہی اور کاروباری لوگ چین آتے جاتے بھی رہی قبل اسکے کہ کرونا کے اتنے شدید ہونے کا علم ہوتا، چین نے تو کیا باقی دنیا نے چین سے ہر قسم کے رابطے منقطع کردئیے۔ لیکن کرونا چین سے نکل چکا تھا۔ یوں تو کرونا وائرس پاکستان سمیت دنیا کے سو (100) سے زائد ممالک میں خوف پھیلاتا پہنچ چکا ہے۔ اس وائرس نے ساری دنیا کو ہیبت زدہ کررکھاہے، بلکل کسی ہالی وڈ کی فلم کی طرح کہ جس میں کسی ایسے وائرس نے ساری دنیا کو خوف و ذہنی کوفت میں مبتلاء کردیا ہو(جیسا کہ حقیقت میں ہورہا ہے )، جبکہ مکمل احتیاط سے اور خصوصی طور پر صفائی ستھرائی سے اسے شکست فاش دی جاسکتی ہے۔ آج کرونا وائرس اٹلی جیسے ملک میں تباہی مچارہاہے جہاں دنیا کی بہترین طبی سہولیات دستیاب ہیں، اسکے علاوہ امریکہ میں بھی اس نے قدم جمانا شروع کردئے ہیں ساتھ ہی برطانیہ بھی متاثر ہورہا، جرمنی بھی محفوظ نہیں اور ایران بھی سرفہرست متاثرین میں سے ایک ہے۔ کچھ ملکوں کے تو اعلی عہدےدار بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ آخر کار عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔ شائد ہی تاریخ میں ایسا ہوا ہو کہ مملکت یا ریاست نے حکم صادر کیا ہو کہ تمام کاروباری، امور سلطنت، تعلیمی ادارے، کھیلوں کی سرگرمیاں اور دیگر تقاریب مکمل طور پر بند کردی جائیں، سفری پابندیوں کیساتھ ساتھ سرحدیں بھی ایک دوسرے کے لئے بند کردی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہورہا ہے جہاں دنیا کی سب سے بہترین طبی سہولیات موجود ہیں۔

اپنے ملک پاکستان میں آجائیں، یہاں آجکل پاکستان سپرلیگ چل رہی ہے یہ وہ کرکٹ کی لیگ ہے جو اب تک پاکستان سے باہر عرب امارات میں کھیلی جاتی رہی ہے۔ پاکستان میں ابتک سرکاری طور پر کرونا وائرس کہ تقریبا ً بائیس کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور یہ تمام وہ لوگ ہیں جو ایران یا پھر برطانیہ سے آئے ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سب خطرے سے باہر ہیں۔ ہم اللہ رب العزت سے دعا گوہیں کہ بلکل ایسا ہی ہو کہ جیسا حکومتی ذمہ دار بتا رہے ہیں۔ یہاں حکومت سندھ کے اقدامات انتہائی قابل تحسین ہیں انہوں نے بروقت خطرے کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے اسکولوں کو چھٹیاں دیں اور پھر مجمع والی تقریبات پر پابندی بھی لگا دی۔ اب ایک اور بروقت قدم اٹھایا گیا ہے کہ کراچی میں ہونے والے پاکستان سپر لیگ کے مقابلے دیکھنے لوگ اسٹیڈیم نہیں جاسکینگے اور لوگ اپنے گھروں پر بیٹھ کر ان مقابلوں سے لطف اندوز ہونگے۔ لیکن اہم ترین نقطہ جو اس وائرس پر نظر رکھنے والوں کیلئے وہ یہ ہے کہ کیا واقعی صورتحال اتنی ہی قابو میں ہے کہ جتنی بتائی اور دیکھائی جا رہی ہے کیونکہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے، صوبہ پنجاب میں ابھی تک کسی قسم کے اقدامات ہوتے دیکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ہم تو دنیا میں طبی سہولیات تو بہت دور جانکاری کے معاملے میں میں بہت پیچھے ہیں، کیا ہم یقین رکھیں کہ پاکستان سپر لیگ کے بعد بھی صورتحال بلکل اسی طرح سے قابو میں رہے گی اور کسی قسم کی ہنگامی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ پیشہ امور کو بہت اچھی طرح سے سمجھنے والے لوگ اقتدار میں ہیں وہ اس عالمی وباء سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقدامات کر کہ بیٹھے ہونگے۔ اور ہم جس طرح سے پاکستان سپر لیگ کیلئے تیار تھے اسی طرح ہم بطور قوم (جیسا کہ چین نے کر کے دیکھایا) کرونا وائرس سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار ہیں۔ جہاں عملی اقدامات اپنی اہمیت رکھتے ہیں وہیں اللہ تعالی کے حضور کثرت سے استغفار کیا جائے اور اس وائرس سے نجات کیلئے خصوصی دعائیں کی جائیں صدقات دیئے جائیں کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ صدقہ بلاءوں کو ٹالتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب رب کو راضی کرلینے میں عافیت ہے کیونکہ سب کچھ بس ایک کن کا محتاج ہے۔