کروونا وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا دیکھتے ہی دیکھتے بلکہ سنتے ہی سنتے ساری دنیا میں پھیل گیا، یہ قدرت کا شاہکار کب کہاں اور کیسے پہنچا، دنیا نے اپنے دنیاوی طریقوں سے اخذ کرلیا، یقینا حقیقت سے کوئی پردہ نہیں اٹھاسکے گا۔ اس وقت ساری دنیا شدید بحران کا شکار ہے اور بتدریج اس بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی طرح سے اس کی روک تھام کی تیاریاں بھی تیز تر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مختلف مکتبہ فکر کا اسکے حوالے سے مختلف زاویہ نگاہ ہے۔ دوطریقوں سے کروونا پر کام کیا جارہا ہے ایک طرف تو متاثرین کو طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جیسا کہ دنیاکے مصروف ترین شہر شاہراہیں ذرائع ابلاغ کے توسط سے سنسان ہی نہیں ویران دیکھائی دے رہی ہیں دوسری طرف کوشش یہ کی جارہی ہے کہ لوگ جو ابھی تک اس سے کسی بھی طرح سے متاثر نہیں ہیں اپنے اپنے گھروں میں قید ہوجائیں اور اسوقت تک اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو قید کرلیں جب تک کہ صورتحال پر قابو نا پالیا جائے۔ تیسری صورت پر ساری جدیدیت پر مبنی دنیا کام کر رہی ہے یعنی اس وائرس کیخلا ف ویکسین یا دوا کی تیاری ہے۔ یہاں یہ کہنا مشکل ہے کہ ملکوں نے فوری طور پر کیا اقدامات کئے کیونکہ تقریباً ممالک میں ایک دم سے ہی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا، بظاہر پاکستان میں معاملات کسی حد تک قابو میں ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں، کچھ بروقت اقدامات، آگہی کا بھرپورپرچار، معاملے کی سنگینی تک رسائی، ہمارے لئے یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ چین ہمارا سب سے بہترین دوست ہے (بظاہر تو وہی ایک دوست ہے) جس نے بروقت صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمیں تیار رکھا۔
چین کے بعد اٹلی وہ ملک ہے جہاں اموات کی تعداد بہت زیادہ ہے جسکی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ وہاں زیادہ عمر کے افراد کی تعداد زیادہ ہے لیکن دوسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ اٹلی کی عوام نے معاملے کی سنگینی کو ناسمجھتے ہوئے اقدامات سے گریز کیا۔ ایک بات یہاں انتہائی قابل ذکر ہے کہ اٹلی میں تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح تقریباً ننانوے فیصد ہے، اتنی تعلیم یافتہ قوم کا اتنا غیرذمہ دارانہ رویہ انتہائی تشویشناک ہے یا پھر وہی انسان کا اپنے آپ کو اشر ف المخلوقات ہونے کا زعم بھی ہوسکتا ہے۔ اٹلی میں لوگوں کا اس وائرس کو اہمیت نا دینے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان ابھی وہ ملک ہے جس کا کرونا سے متاثر ہونے والے ممالک میں اٹھائیسواں نمبر ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں جو وقت کی نزاکت کے حساب سے امڈ آتے ہیں ہمارے یہاں لوگ حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، یہ سیاسی ہوں یا مذہبی ہوں یا پیشہ ورانہ ماہریں ہوں، سماجی و دیگر ذرائع ابلاغ سے وابسطہ ہوں، یعنی تبدیل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ مشکلات کو بھی خوب للکارتے ہیں کسی بھی مشکل میں پیچھے نہیں ہٹتے اور ڈٹ جاتے ہیں ہمیں یاد ہے گزشتہ دنوں ایک سمندری طوفان کی پیشنگوئی تھی جو ہمیشہ کی طرح اپنا رخ بدل گیا تھا دیکھنے کیلئے یہ قوم ساحل سمندر پر پہنچ گئی تھی۔ ان ہی خامیوں یا صلاحیتوں کی وجہ سے خوف آتا ہے کہ پاکستانی قوم بھی اٹلی والوں کی طرح اس وائرس کو اب تک اہمیت دینے سے قاصر ہیں۔
انسان اپنی تخلیق سے آج تک اللہ کی قدرت کو للکارتا (چیلنج) دیکھائی دیتا ہے۔ جہاں قدرت اس مٹی کے پتلے کی للکار کو نظر انداز کرنے سے کام لیتی ہے، وہیں جب انسان کو قدرت للکارتی ہے تو انسانوں کی چیخیں آسمانوں تک گونج جاتی ہیں، جیساکہ ہم موجودہ صورتحال میں دیکھ رہے ہیں۔ اس وائرس سے پھیلنے والی تباہی کی سب سے بڑی وجہ انسان کی لاپرواہی ہے اور دوسری وجہ قدرت اورجدید تکنیک کے درمیان فرق سے نا آشنائی ہے۔ اگر سرسری سا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کتنے اسلامی ممالک کس حد تک متاثر ہوئے ہیں اور کتنے غیر اسلامی ممالک میں اس وائر س نے تقریباً تباہی پھیر دی ہے۔
ہم نے رہتی دنیا تک کیلئے ہدایت کے سر چشمہ قران کریم کو صرف ثواب کیلئے رکھا ہوا ہے جو کسی کی فوتگی یا پھرماہ رمضان میں کھلتا ہے اور اتنی تیزی سے پڑھا جاتا ہے کہ پڑھنے والے کو بھی سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور ویسے بھی ثواب کی غرض سے پڑھا جانے کیلئے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ دنیا نے کتنی ترقی کرلی یہ بنا لیا وہ بنا لیا اور معلوم نہیں کیا کچھ بنا لیا لیکن جیسے ہی کوئی نئی ایجاد منظر عام پر آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو قرآن 1400 سال پہلے ہی بتا چکا ہے کوئی مشکل آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو آنی ہی تھی پھر قرآن میں تلاش کیا جانے لگتاہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کیسے نجات حاصل کی جائے جس کا جوا ب تو صر ف اور صرف ایک ہے کہ اپنے رب کو راضی کرلو کر لیا ہے تو راضی رکھو رب کو راضی رکھنے کیلئے نبی پاک ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے آپ ﷺ کے حسن اخلاق کی طرز پر زندگی کی ترتیب دینا ہوگی۔ ہم ہمیشہ وقت اور ضرورت کے تحت مواد قرآن کریم فرقان حمید سے نکال لیتے ہیں اور اس کا خوب چرچا بھی کرتے ہیں پھر وقت گزر جانے کیبعد واپس اپنی پرانی حالت میں آجاتے ہیں۔ کیا ہم اللہ رب العزت کو بھی نعوذ باللہ دھوکے دیتے رہے ہیں؟ ناپ تول ہم ٹھیک نہیں کرتے، ذخیرہ اندوزی ہم کرتے ہیں اور منافع خوری کیلئے ہم کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، کمزور کا حق مارتے ہیں ایسی تمام روحانی بیماریاں ہمارے اندر موجود ہیں جن کے علاج کی اشد ضرورت ہے۔
مضمون کے عنوان کی طرف آجاتے ہیں، خدشات ہیں کہ حالات بہت سنگین ہوجائینگے، جہاں چند ممالک بھوک و افلاس کی زد میں تھے آنے والے دنوں میں بہت سارے ممالک اس کا شکار ہوجائینگے، جہاں چند ممالک خانہ جنگی کی زد میں تھے اب لوٹ کھسوٹ بہت سارے ملکوں میں شروع ہونے کا خدشہ ہے، جہاں صرف کشمیر میں گزشتہ سات ماہ سے کرفیو ہے اب تقریباً دنیا کرفیوزدہ ہوچکی ہے، کچھ ماہ قبل تک کچھ ممالک خوف میں مبتلاء تھے اور آج ساری دنیا خوفزدہ سہمی ہوئی ہے اور آخر میں ایک خدشہ جس کا ذکر اپنے مضامین میں اکثر کرتا رہتا ہوں کہ اب ہم بہت تیزی سے دنیا کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں دنیا مذاہب کی بنیادپر تقسیم ہونے جارہی ہے۔ کوئی ان مادہ پرستوں سے پوچھے کے کرونا وائرس سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ اب صرف اور صرف اطاعت کا وقت ہے اپنے رب کی جی حضوری کا وقت ہے گھروں میں بیٹھنے کے جو اسباب پیدا کئے ہیں خالق کائنات نے وہ اپنی وحدانیت و حقانیت کی پہچان کرانے کیلئے کئے ہیں اب ہی ہمارے خوش قسمتی یا بد قسمتی ہے کہ ہم اس وقت میں بھی رابطہ بحال نا کرسکیں تو پھر کوئی بھی رات طویل ترین ہوسکتی ہے جسکے بعد کہا جاتا ہے کہ توبہ کہ دروازے بند ہوجائینگے۔ توپھر اس بھاگ دوڑ کی زندگی سے باز آجائیں اور ٹہر جائیے، اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹ آئیں۔