ایمان کی بنیاد صبر و تحمل پر رکھی گئی۔ اسلام کی اعلانیہ دعوت کے بعدمکے والوں کا آپ ﷺ کے اصحاب کے ساتھ برتاو کسی سے ڈھکا چھپانہیں۔ ہم آج جس اسلام کے نام لیوا ہیں یہ ان اصحاب کے صبر و تحمل اور شدید ترین برداشت کی بدولت ہم تک پہنچا اور یہ سبق ہے کہ مسلمان آزمائش کی گھڑی میں اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہوئے بھرپور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آزمائش کی گھڑی سے سرخ رو ہوکر نکلتا ہے۔ اسلام کا سورج بھی ہمارے پیارے نبی ﷺ اور انکے اصحاب کے صبر و تحمل و برداشت کی بدولت رہتی دنیا تک کیلئے چمکتا دمکتا رہنے والا ہے۔ نماز صبر و تحمل کا ایک عملی مظاہرہ ہے جب آپ اپنے اہم ترین کاموں کو چھوڑ کر اپنے رب کے حکم کے آگے سربسجود ہونے کیلئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ طلوعِ اسلام نے بہت کڑا وقت دیکھا، دنیا کی طاقتوں سے ٹکرایا اور اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور کو زیر کیا ان سب حالات کا مقابلہ مسلمانوں نے اپنے رب پر مکمل اعتماد اور اپنے رہنماء حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر حاصل کیا۔ اسلام نے انسان کو اسکے ہونے کے رازوں کو جاننے کیلئے تحیقیق و تشخص کے راستے بتائے۔ سب سے بڑھ کر رہتی دنیا تک کیلئے قرآن پاک کی صورت میں راہ نجات انسانوں کیلئے چھوڑی اور اسی میں بتایا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلمانوں نے اس راہ نجات سے کتنا فائدہ اٹھایا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی تو دور تھامنے کی کوشش کہا ں تک کی۔ یہ اور بات کہ حالات کی سنگینی گاہے بگاہے سجدوں میں خشوع و خضوع لاتی رہی، اسلام اجتماعیت کا دین ہے لیکن اسے انفرادی حدوں میں مقید کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے اسلام کے ماننے والے آج ساری دنیا میں مار کھاتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
دنیا جدیدیت کی حدوں کو چھو رہی تھی یہاں تک کہ مصنوعی طریقے سے انسانی تخلیق کا عمل کرڈالا، کائناتوں تک رسائی حاصل کررہی تھی، زمین کی تہہ میں پوشیدہ رازوں کو افشاں کر رہی تھی لیکن اچانک سے دنیا کی ساری کی ساری جدیدیت صفر ہو کر رہ گئی جب ہر فرد کو اسکے دائرہ کار میں محدود کردیا گیا، ساری دنیا تاریخ کی بدترین آزمائش سے گزر رہی ہے، بدترین کا لفظ یہاں اس لئے استعمال کیا ہے کیوں کہ دنیا اس وقت جدیدیت کی حدوں کو چھو رہی ہے جب کرونا نامی ایک وائرس نے دنیا کا نظام دھرم بھرم کر کے رکھ دیا ہے، خلاوں میں اڑنے والوں کو پیروں سے گھسیٹ کر زمین پر لاکھڑا کردیا۔ یہاں جو بات سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ کہ دنیا کی مضبوط ترین معیشت تو کیا سپر پاور اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جن میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو دنیا میں طبی سہولیات یعنی علاج معالجے میں کوئی اپنا ثانی نہیں رکھتے، منہ کے بل گرا دیا۔ دنیانے اس وباء کو بہت ہی معمولی سمجھا اور حفاظتی اسباب کرنے سے گریزاں رہے (یقینا اپنی دنیاوی علمی طاقت کی وجہ سے) اگر ہمیں یاد ہو توسپر پاور دنیا پر اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑنے کا خواب دیکھنے والے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم یعنی امریکی محفوظ ہیں اور آج امریکہ اس وباء سے متاثر ہونے والے ممالک کے فہرست میں اول نمبر پر پہنچ چکا ہے اور غالب گمان ہے کہ صدر ٹرمپ صاحب بھی اس وباء کی زد میں ہیں۔ وباء کی تشخیص بھی ہورہی ہے اور مریض صحتیاب بھی ہورہے ہیں لیکن ساری دنیا کسی جیل کی مانند دیکھائی دے رہی ہے۔
جدید دور کے انسان نے باقائدہ خدائی دعوے کرنا چھوڑ دیا، اب وہ اپنی جدیدیت، تکنیک پر عبور اور دیگر ایسے عمور پر دسترس دیکھا کر دنیا کو اپنے بس میں کرنے کا دعویدار بن بیٹھتا ہے، اور اپنی ان دنیاوی خصوصیات کی بدولت دنیا کو اپنے آگے جھکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ نافرمانی کرنے والوں کو یا پھر آنکھوں میں آنکھیں دیکھانے والوں کو کبھی معاشی پابندیوں سے ڈراتے ہیں تو کبھی ہتھیاروں سے ڈراتے ہیں۔ یہاں کشمیر اور فلسطین کا ذکر لازمی بنتا ہے یہاں ملک شام کا ذکر لازمی بنتا ہے جہاں زندگی کو طاقت کے بل بوتے پر روندا جا رہا ہے، یہ وہ ممالک ہیں جہاں زندگیاں کئی دہائیوں سے مفلوج ہیں، یہاں کے لوگ زندگی کی بقاء کیلئے لڑ رہے ہیں اور مررہے ہیں، یہاں بچے بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں اور مرتے مرتے دنیا کو دہائیاں بھی دیتے جا رہے ہیں، یہاں عورت کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے لیکن دنیا میں عورتوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والوں کی آنکھوں پر جیسے پٹیاں بندھی ہوں۔ دنیا انکے ساتھ ہونے والے برتاو پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی، دنیا نے ان پر ہونے والے ظلم و بربریت پر آواز نہیں اٹھائی۔ اپنی مستی میں مست دنیا جیتی رہی۔ آج دنیا بھوک کی لپیٹ میں آتی محسوس کی جارہی ہے انسان انسان کیلئے بیکار ثابت ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں، محدود روابط اور کہیں کہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت تو نہیں آن پہنچا جب کسی کو اپنے سوا کسی کی فکر نہیں ہوگی۔ دنیا جسے لامحدود کہا جانے لگا تھا ایک ایک کمرے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے بیخوف و خطر معاشرے خوف کی اندھیری چادر تان کر سہم کر بیٹھ گئے ہیں۔
سماجی ذراع ابلاغ پر بہت واویلا کیا گیا لیکن پھر بھی دنیا کا ضمیر نہیں جاگا، دنیا کے منصف بھی آنکھ، کان اور زبان بند کئے بیٹھے رہے۔ اللہ تعالی نے ہر فرعون کیلئے ایک موسی کو پیدا کیا ہے جو مظلوم کو ظالم کے چنگل سے نا صرف نکالتا ہے بلکہ ظالم کو اسکے کئے گئے مظالم کی سزا بھی دیتا ہے۔ توعین ممکن ہے وہ وقت آن پہنچا کہ دنیا کے فراعین کو انکے کرتوتوں کا سبق سیکھایا جائے۔ آج دنیا کی جدیدیت گھٹنے ہی نہیں ٹیک چکی بلکہ بغیر مذہب کی تفریق کہ سجدے کرنے والوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوتی بھی دیکھائی دے رہی ہے۔ دنیا اپنی بقاء کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیارہے لیکن کیا خالق ِ کائنات کو راضی کرنے کا سوچ رہی ہے۔ ایک ملک کے صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم دنیا کے تمام وسائل بروئے کار لا چکے لیکن اس وباء کو نہیں روک پائے، اب ہم صرف آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہاں سے نجات کا پروانہ آئے گا۔
دنیا میں بسنے والے سارے کے سارے انسان اپنی حاکمیت مسلط نہیں کرنا چاہتے لیکن جو کرنا چاہتے ہیں انکو روکنے کیلئے سامنے نا والوں کو بھی انکے ساتھ ہی تصور کیا جاتا ہے اس طرح سے جب قدرت کی جانب سے انتقام لیا جائے گا تو اس میں تفریق مشکل ہوجائے گی اور جیسا کہ عام فہم میں کہا جاتا ہے کہ گیہوں کےساتھ گہن بھی پس جاتا ہے۔ ہم لاکھ چھپنے کی کوشش کریں لیکن اگر ہم ساتھ دینے والے ثابت ہوگئے جیسا کہ ہے تو پھرہمیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، یہ بات ہم سے بہتر اور شائد ہی کوئی جانتا ہو۔ لیکن کیا واقعی دنیا نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے یا پھر وقتی ٹہراو کیبعد یہ گزشتہ کی گئی نافرمانیوں سے کہیں آگے تو نہیں بڑھ جائیگی۔ دنیا ابھی بھی ہوش کے ناخن لینے سے قاصر ہے یہ وقتی ہیجان جان کر وقت گزاری سے کام لے رہی ہے، کیونکہ عملی طور پر لیا جانے والے اقدامات میں فلسطین، کشمیر اور شام کے مسائل کا فوری حل ضروری ہے۔ دنیا کو رہنے کے قابل بنانے کیلئے ضروری ہے کہ برابری کی بنیاد پر رہا جائے کسی کو کسی پر حق جتانے کی زور زبردستی کرنے کا حق حاصل نا ہو، صبر و تحمل اور برداشت کیساتھ دنیا عہد کرے کہ امن کو امن سے ہی قائم کرے گی۔