لکھے بغیر گزارا نہیں اور دور حاضر میں لکھنے بیٹھوں تو گھوما پھرا کر سوچ کے سارے زاوئیے کرونا کے ارد گرد لا کھڑا کرتے ہیں۔ انسان اپنی فطرت سے لڑ نہیں سکتا لیکن اپنی ہمت سے اختلاف کی فقط کوشش کر سکتاہے، آخر کارکرنا وہی پڑے گا جو فطرت کروائے گی، آج فطرت نے دنیا کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کے ذہن میں کرونا نامی وائرس لفظ گھونپ دیا ہے۔ مذہبی رہنماء ہوں، روحانی پیشوا ہوں، سیاسی بازیگر ہوں یا پھر کاروبار کا بادشاہ سب کے سب کرونا کی جکڑ میں ہیں۔ جس طرح سے اس وائرس نے دنیا کو خوفزدہ کر رکھا ہے، اسے وائرس کہنا بہت عجیب سا لگنے لگا ہے کیونکہ ابتک وائرس ایک معمولی سا ایسی انسانی تخلیق سمجھی جاتی رہے جو آلات کی خرابی کا سبب بنتا رہا ہے لیکن اس کرونا نامی وائرس کی تباہی کسی مافوق الفطرت بلا کی جیسی ہے جو انسانی آنکھ سے تو دیکھی نہیں جاسکتی لیکن انسان کے خاتمے پر قدرت سے حاصل کی گئی قدرت رکھتی ہے۔ یقینا جن لوگوں نے ہالی وڈ کی فل میں دیکھی ہوں جن میں اینا کونڈا، گوڈ ذیلا، جراسک پارک وغیرہ وغیرہ جن کی مدد سے نا صرف املاک، معیشت اور انسانی زندگیاں یکساں اثر انداز ہوتی دیکھائی جاتی رہی ہیں، گوکہ کانٹاجین نامی ایک فلم کرونا وائرس پر بھی بنائی جا چکی ہے۔ ابھی دنیا بہت بری طرح سے اس وائرس سے متاثر ہوچکی ہے، اللہ رب العزت نے چاہ تو جلد ہی اس سے نجات کے اسباب پیدا ہوتے دیکھائی دینگے۔ پھر دنیا ان باتوں پر دھیان دینے کے قابل بچے گی یا نہیں کہ یہ سب کس کا کیا دھراہے۔ کرونا وائرس سے بچاو کیلئے جو ابتدائی احتیاطیں چین نے اخذ کی تھیں تاحال ساری دنیا انہی کی پیروی کرنے پر مجبور ہے، مجبور کا لفظ اسلئے استعمال کر رہا ہوں کیونکہ دنیا میں وہ ممالک بھی آجاتے ہیں جو کرونا سے پہلے تک دیگر ممالک کو مختلف امور کیلئے مجبور کرتے رہے ہیں۔
انسان اپنی میں (انا) کی بھینٹ کیا کچھ چڑھا دیتا ہے اس سے اگر طاقت اور اختیار نا لیا جائے تو اسے علم ہی نہیں ہوتا، دیگر یہ کہ دنیا کے ظالم جابر اور بے رحم لوگ دنیا کے سامنے اپنے پچھتاوے نہیں لا سکے جس کی وجہ انکے اعمال تھے، خلقت نے ایسے لوگوں کو دیکھنا تو دور سننا گوارا نہیں کیا۔ آج لامحدود دنیا کو محدود کیا جا چکا ہے۔ امریکہ وہ واحد ملک ہے جو کہ انسانوں کی زندگیوں سے کہیں زیادہ اپنی معیشت کے تباہ ہونے سے سب سے زیادہ پریشان ہے اور امریکی صدر بارہا اپنے ملک کو مکمل بند کرنے کو ابتک تیار نہیں ہیں جب کہ کرونا وائرس سے ہونے والی اموات میں اب امریکہ، چین، اٹلی، اسپین سے بہت آگے نکل چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر نئے مریضوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔ آج ساری دنیا خصوصی طور پر آمریکہ ہالی وڈ کا اسٹوڈیو بنا ہوا ہے، ہر جگہ فوجی گاڑیاں ہیں، ہر جگہ انسان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، بھوک و افلاس آہستہ آہستہ کسی آژدھے کی شکل اختیار کرتی دیکھائی دے رہی ہے، دولت کسی کام کی نہیں رہنے والی (تاریخی بٹوارے کئے جا رہے ہیں شائد دنیا کے خزانوں پر غاصبوں نے کبھی اتنی دولت تقسیم یا کسی فلاحی کام کیلئے نہیں دی ہوگی جتنی آج دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں) حکومتیں سفید اور کالے پیسے کے فرق کو نظر انداز کرنے پر مجبور دیکھائی دے رہی ہیں۔ آج اس وائرس کی سب سے بڑی ڈھال جسم میں موجود قوت مدافعت ہے جو کہ بڑے لوگوں میں کم اور غریب میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یوں تو احتیاطیں واضح کی جاچکی ہیں لیکن کچھ احتیاط کر کے مر رہے ہیں تو اکثریت انکی ہے جو احتیاط کو خاطر میں لانے کی کوشش ہی نہیں کررہے۔ انسان جسے معاشرتی جانور کہا جاتا رہا ہے، آج جنگلی جانوروں کی طرح قید کئے جا چکے ہیں۔
دنیا جہان میں ہر مذہب کی مرکزی عبادت گاہیں بند کردی گئی ہیں، خوف کی نوعیت کا اندازہ لگائیں کہ جس نے انسان جیسی نادر و نایاب تخلیق کی ہے، جس کے قبضے میں ہر ذی روح کی جان ہے، جو کائناتوں کاخالق ہے، جو ہر شے پر قادر ہے اور جس کے فقط کن کہنے سے تخلیق ہوجاتی ہے اس رب کی عبادت یعنی اسکو کیا جانے والا سجدہ شکر اسکے گھروں میں موقوف کر دیا گیا ہے۔ جسے اس بات کی گواہی سمجھیں یا کچھ اور کہ ستر ماءوں سے زیادہ محبت کرنے والے رب کے سوا بھی کوئی ہے جو ہماری مدد کر سکتا ہے۔ یا پھر اللہ رب العزت نے آج دنیا کواپنے اپنے مذاہب کی حقیقت جاننے کا موقع فراہم کیا ہے جیساکہ سب ماننے والے اپنے اپنے مذاہب کی اصلیت کی تلاش میں سرگرداں دیکھائی دے رہے ہیں، اپنے اپنے مذاہب کی بنیادی تعلیمات کی تلاش میں کتابیں کھنگال رہے ہیں۔
آج دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کسی بہت بڑے فلم ساز نے کسی بہت پائے کہ مصنف کی لکھی ہوئی تحریر کو کسی بہت بڑے ہدایت کار سے حقیقت پر مبنی فلم بنا کر پیش کیا ہو، اور اب اس حقیتقت کے انجام سے قبل مصنف کا ذہن ماءوف ہوچکا ہو اور ہدایت کار مصنف کی حواس باختگی کی نظر ہوگیا ہو فلم ساز سر پکڑے کسی کمرے میں اپنے آپ کو قید کر بیٹھا ہو کہ جیسے یہی ایک طریقہ زندگی کو موت کے آنے تک سنبھالنے کا وقت ہو۔ دنیا اس فلم میں ایسی محو ہوئی کہ فلم کا بنیادی کردار ہی بھول گئی یعنی چین سے شروع ہونے والی اس فلم کو دنیا نے بہت مزے سے دیکھنا شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چین نے اس وائرس سے جان چھڑا لی لیکن پھر کیا ہوا فلم میں اٹلی، اسپین اور امریکہ اس وائرس سے بری طرح متاثر ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں ساتھ ہی ساری دنیا اس وائرس میں مبتلاء ہورہے ہیں۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مصنف نے اس وائرس کے علاج کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا ہے وہ بھی کسی عام سے آدمی کی طرح موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ انسانی تخلیق انسان کو ہی چاٹے جا رہی ہے اور انسان اپنے تخلیق کار سے ناطہ توڑکر اپنی تخلیق سے لڑنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ دنیا گھور اندھیرے کی زد میں ہے، ہر طرف ایسی تاریکی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا لیکن ہر رات کی صبح ضرور ہوتی ہے اور صبح ہی یقینا اس فلم کا اختتام لے کر آئے گی۔ اب یہ فلم کسی خودکار ہتھیار کی صورت اختیار کر چکی ہے جو معلوم نہیں کب تھک کر بند ہوسکے گا۔