نئی نسل کی آگاہی کیلئے کچھ تاریخی حوالہ :کشمیر، برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست، جسکا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے۔ 1947ء کے بعد ریاست جمو ں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اسوقت بھارت 39102 مربع میل پر اپنا ناجائز قبضہ جمائے ہوئے ہے جسکی وجہ سے اسے مقبوضہ کشمیر کہا جاتا ہے، اسکا دارالحکومت سری نگر ہے۔ بقیہ آزاد کشمیر 25000مربع میل پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کڑوڑ کے قریب ہے۔ 25 لاکھ کی آبادی آزاد کشمیر میں ہے۔ ہندو راجائوں نے تقریباً چار ہزار سال اس خطے پر حکومت کی۔ 1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا۔ کشمیر کی آبادی کا 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہندو راجائوں نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔ جسکی وجہ سے عسکری جدوجہد کا آغاز ہوا اورپاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی ہوگئی۔ سلامتی کونسل نے 1948ء میں پاکستان اور بھارت کو کشمیر سے فوجیں نکالنے اور وادی میں رائے شماری کروانے کیلئے کہا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کرلیا مگر بعد ازاں اس سے ایسے منحرف ہوئے کہ آج تک رائے شماری نہیں کرائی گئی۔
کشمیر کی سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کشمیر کوپاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔ پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کردی۔ کشمیر، آج تک تقسیم ہند کا غیر حل شدہ مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں کاہر ممکن ساتھ نبہا رہے ہیں یقینا انکے لئے اپنی جانیں بھی پیش کر رہے ہیں۔ 1990ء میں جماعت اسلامی کے امیر محترم جناب قاضی حسین احمد صاحب نے 5 فروری کو باقائدہ یوم یکجہتی کشمیر بنانے کا اعلان کیا، جوکہ ملک کی تعطیلات میں ایک اہم دن قرار پایا۔ اس دن پاکستانی ساری دنیا میں جہاں جہاں موجود ہے بھرپور طریقہ سے ساری دنیا کو اپنے جذبات سے آگاہ کرتے ہیں اور کشمیر سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
کشمیرکی آزادی قید ہوئے ستر سال سے زیادہ ہوچکے ہیں، تیسری نسل اپنی آزادی کی جنگ میں بر سر پیکار ہے، ایک طرف بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے اپنی بے حسی کی مثالیں قائم کرتا جا رہا ہے تو دوسری طرف دنیا کے منصف بھی آنکھوں پر پٹی باندھے اپنے ہی فیصلوں کو عملی جامع پہنانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ 1948ء میں کئے گئے فیصلے پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ جنت نظیر وادی اپنے جوانوں کے خون سے سرخ ہوچکی ہے، یہ وہ وادی ہے جہاں زندگی کپکپاتی گھبراتی ہوئی گزرتی ہے لیکن موت بہت بھرپور طریقے سے گھومتی پھرتی ہے۔ یوں تو کشمیر آزاد ہے لیکن اسکی آزادی پر جو ناجائز قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں انہیں شکست فاش دینی ہے۔ کشمیری بچے، عورت، بوڑھے اور جوان ہر لمحہ جام شھادت نوش کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن وقت اور حالات معاملہ فہمی کا تقاضہ ہے شائد کہ جان دیتے رہو اور کسی سے کہو بھی نہیں، تکلیفیں مصیبتیں جھیلتے رہو اور کسی سے کہو بھی نہیں کسی سے سوال بھی نا کرو۔ کشمیر کی تحریک کو جوان خون دے رہے ہیں اسکے ختم ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جیساکہ کشمیری کہتے ہیں کہ جب تک ایک کشمیری بھی زندہ جدوجہد آزادی جاری رہے گی، یہ عزم اور یہ حوصلہ ابھی مزید ریگزاروں سے گزرے گا۔ بھارت نے صرف پاکستان دشمنی میں مسلمانوں کیساتھ کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے ہیں۔ جدید دنیا میں ظلم اور بربریت کی تاریخ رقم کرتا ہوا بھارت اور اسکے حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر کو حقیقی معنوں میں مقبوضہ بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور دنیا سوائے مذمت کے اور کچھ نہیں کرسکی۔
تقریباً چار سال قبل 2016ء میں برھان مظفر وانی نامی نوجوان کی شھادت نے کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک نہیں روح پھونک دی۔ اس نوجوان نے سماجی میڈیا کے توسط سے دنیا کو اپنی جدوجہد کے حوالے سے ناصرف آگاہ کیا بلکہ اس نے حق کیلئے لڑنے اور دہشت گردی میں فرق سے بھی آگاہ کیا۔ جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں اس بات احاطہ کیا گیا ہے کہ کشمیر کی تحریک میں سب سے زیادہ جوان خون دوڑ رہا ہے اور جوانوں کو انکی طلب تک پہنچنے سے روکنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور پھرجب تو بلکل بھی نہیں روکا جاسکتا جب طلب آزادی ہو۔ اکیس سالہ برہان وانی کی شھادت نے تو وادی میں جیسے آگ لگا دی ہو، وادی ایک نئے جذبے کیساتھ ایک نئے ولولے کیساتھ دوبارہ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس بارشدت کی حدت بھارتی سرکار سے برداشت کرنا محال ہوگیا جسکے نتیجے میں 5 اگست 2019 سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے اسے اپنی ریاست میں تبدیل کردیا گیا اور اس دن سے تاحکم ثانی کرفیو لگادیا گیا جوکہ آج تک لگا ہواہے۔ زندگی کی بے بسی کا رونے والوں کوکشمیر بھیج دیا جائے تو وہ شکر کرتے نہیں تھکیں گے۔ اکیسویں صدی جسے جدیدیت کی صدی کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی نوعیت کی معلومات کا حصول آسان ترین ہوچکا ہے، دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں بیٹھ کر ایسے گفتگو کی جارہی ہے جیسے آمنے سامنے بیٹھے ہوں۔ لیکن قدامت پسندوں نے یہ سب رد کردیا ہے، مفاد پرست ان سب باتوں سے مبرا ہیں، طاقت کے نشے میں دھت اپنی طاقت سے سب ختم کرنے کے درپہ ہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے پہلے دن سے کشمیر کی جدوجہد کا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ ہی نہیں کیا بلکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے خود کو کشمیر کا سفیر کہا ہے جوکہ دنیا کہ ہر بڑے ایوان میں کشمیر پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا پردہ چاک کرتے دیکھائی دے رہے ہیں ان کے ساتھ ہمارے وزیر خارجہ بھارت کے ہر ظلم کو بروقت دنیا کو بتانے میں دیر نہیں لگا رہے۔ سفارتی سطح پر پاکستان نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں گوکہ حکومت وقت کو اس بات پر بھی تنقید کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے کہ تقریروں سے کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ، اور یہ وہ لوگ کہہ رہے ہیں جنہوں نے کبھی اس موضوع کو اس حد تک تقریر کے ذرئیعے بھی نہیں پہنچایا۔ بہرکیف دنیا کبھی بھی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر زبان بندی نہیں توڑے گی، اتنا ضرور ہوا ہے کہ حکومت کی سفارتی کوششوں کی بدولت ہمارے ساتھ معاشی دوستیاں رکھنے والے ممالک نے اور کچھ بڑے مسلم ممالک نے سوائے عرب ممالک کے بھارت کی موجودہ حکومت کو ناصرف آڑے ہاتھو ں لیا ہے بلکہ دنیا کے امن کیلئے خطرہ بھی قرار دیا ہے۔ ابھی ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی کو لیکر ساری دنیا پریشان ہوگئی تھی کہ کہیں تیسری عالمی جنگ نا چھڑجائے اور ہر ممکن کوششیں کرکے اس کشیدگی کو معمول پر لایا گیا جب کہ اس کی بھینٹ ایک دوسرے ملک کا طیارہ چڑھ گیا۔
کیاہم یوم یکجہتی کشمیرمناتے رہینگے، کیا ہم فلسطینیوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر افسوس کرتے رہینگے اور کیا ہم شام کے پناہ گزینوں سے آنے والی تصویروں پر نوحے لکھتے رہینگے اور ہم اس وقت کا انتظار کرتے رہینگے کہ کب ایسی مصیبتیں ہم پر مسلط ہوں اور پھر ہم کسی عملی جدوجہد کیلئے کھڑے ہوں، خاکم بدہن کے اس وقت کھڑے ہونے کی سکت ہی نا رہے۔ یہ شعر مکمل کرکے اپنے حصے کا نوحہ مکمل کرنے لگا ہوں کہ
دنیا کہ منصفو، سلامتی کے ضامنو!کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے لہو کا شور سنو