وقت کو اگر آپ نہیں گزاریں گے تو یہ آپ کو گزار دیگا، اس بات کا مطلب وقت پر سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ جب یہ بات خود سمجھ آتی ہے اس وقت، وقت اپنی قدر و منزلت بہت حد تک کھو چکا ہوتا ہے۔ دور جدید میں وقت کو بڑی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ گوکہ وقت کی اہمیت سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن اس اہمیت کو حقیقی معنوں میں بہت ہی کم لوگ سمجھ پائے شائد یہی وجہ رہی ہوگی کہ بہت ہی کم لوگ دنیا کی نظروں اپنا خاص مقام بنا سکے ہیں۔ یوں قدرت نے وقت کی اہمیت کو مسلمہ قراد دیا جس کا منہ بولتا ثبوت نمازوں کی پابندی، سحر خیزی کی افادیت اور وقت پر سوجانے کے فائدے۔ وقت کی اہمیت کو سمجھنا بھی ہر ایک کا فن نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کی کامیابی وقت پر کئے گئے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہے لیکن یہ امر بھی خاطر میں رکھا جائے کہ یہ لوگ اللہ کے مقرب ہوتے ہیں یا قربت تلاش میں ڈھکے چھپے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ نامعلوم کلیئے کامیاب زندگی گزارنے کے بنائے جا چکے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ماہر ان کلیات کی بھرپور نشر و اشاعت اپنا دائمی حق سمجھ کر کر رہا ہے۔ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی نجی زندگیاں انکے گفتار سے مختلف تصور کی جاتی ہیں اور اس حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں جو وہ دوسروں کو دیکھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں سے اکثریت وہ ہوتی ہیں جن کا وجود اگر روئے زمین پر ہوتا بھی ہے تو کہیں انتہائی پوشیدہ۔ خود کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی کہیں کی بہادری یا انسان ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن ہر انسان کی زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے جب وہ سب کچھ جو کچھ ہورہا ہوتا ہے ہونے کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔
کرونا وائرس نے دنیا کو جیسے قید کر لیا ہے، بڑی بڑی معیشتیں بحران کا شکار ہوگئی ہیں اور دنیا اس شش و پنج میں مبتلاء ہے کہ وہ معیشت کو بچائے یا پھر انسانی زندگیوں کو محفوظ بنائے، دوسری سب سے بڑی پریشانی جو دنیا کو یکساں لاحق ہونے جا رہی ہے وہ ہے بھوک کی جس کا براہ راست تعلق معیشت سے ہے۔ آج یہ کہنا بجا ہے کہ دنیا نے اپنی کرکے دیکھ لی لیکن وہ اس حد تک اپنی کر گئی کہ کائنات کے خالق و مالک کو اپنی سمجھ کیمطابق کہیں پیچھے چھوڑ گئی، شائد کائنات کو چپکے چپکے اپنے بس میں کرنے کی سازش کے قریب پہنچ رہا ہو۔ ہم سب نے اس قوم کا واقعہ بھی پڑھ یا سن رکھا ہے کہ وہ علم کی یعنی جاننے کی حدوں کو چھو چکے تھے جب اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل کوساحل سمندر پر کھیلتے ہوئے ایک بچے کہ پاس بھیجا اور اس سے سوال کرنے کو کہا کہ بتاءو جبرائیل اس وقت کہاں ہیں اس کم عمر بچے نے ریت پر حساب کتاب لگایاپھر کھڑا ہوا اپنے اطراف میں دیکھا آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور گویا ہوا کہ جبرائیل یا تو آپ ہیں یا پھر میں، رب کائنات نے زمین کو پلٹنے کا حکم دیا اور اس قوم کو نیست و نابود کر دیا۔ اس واقعے کی مطابقت رکھنے والی جھلکیاں ہم دور حاضر میں دیکھ رہے ہیں اور گمان کیا جاسکتا ہے کہ علم کی بھلے ہی وہ معراج نا ہو وہ زاویا نا ہو لیکن عداد و شمار کا علم ایسے ہی کسی مقام پر پہنچا ہوا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہوئی کہ زمین کو پلٹنے کا حکم نہیں دیا گیا جبکہ ایسی جھلکیاں تو دیکھائی جاتی رہی ہیں جسے ہم زلزلوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں اور کتنے ہی خوفناک زلزلے روئے زمین کو قریب تھے کہ پلٹ دیتے، سونامی جیسے طوفانوں نے زندگیوں کو بلکل تہس نہس کر کے رکھ دیا لیکن ابھی تک دنیا کو اس طرح سے مکمل ختم نہیں کیا گیا ہے جس طرح سے دیگر اقوام کو کیا گیا۔ دو باتیں سمجھ میں آرہی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ رب العزت کی قدرت کو تسلیم کر لو اور دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ ہمیں امت ِ محمدی ﷺ ہونے کی وجہ سے حاصل مرتبہ بھی رکاوٹ بنا ہوا ہے انشاء اللہ یہ رکاوٹ بنے رہے گی اللہ کے مقرب بندے زمین کے اناج پیدا کرنے کا سبب بنے رہینگے، بارشیں برستی رہینگی، مدنیات ملتے رہینگے غرض یہ کہ زندگی گزارنے کی قدرتی اشیاء کا تسلسل کچھ کمی کیساتھ جاری رہیگایہاں تک کہ وہ آخری وقت آن پہنچے گا جسکا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔
دنیا مسلسل ہاتھ پیر مار رہی ہے، اپنی جدیدیت سے کام لینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس کرونا نامی وائرس کی حقیقت جاننے کی کوشش کر رہی ہے، دنیا تو اسی شش وپنج سے باہر نہیں نکل پارہی کہ یہ سیاسی وائرس ہے، دہشت گرد وائرس ہے یا پھر خدا کا بھیجا گیا کوئی خاص آلہ کارہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا کہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
حضرت انسان نے سمجھ لیا ہے کہ اس نے بہت کچھ جان لیا بلکہ شائد قریب وہ سب کچھ جان لیا جو کائنات میں پوشیدہ رکھا گیا تھا، انسان نے اپنے گمان کی بنیاد پر ایسی میکانکی تخلیق بھی کرڈالی جس کے وجود کہ کوئی اثار بھی نہیں ملتے جیسے کہ ڈائنوسارس۔ انسان یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ چاند پر پہنچ گیا ہے، سیاروں تک رسائی حاصل کرلی ہے اور تو اور ان سیاروں پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کی بھی کوششوں میں مصروف ہے۔ انسان اپنی تلاش کی جستجو میں مسلسل لگا ہوا ہے، کہاں سے کس راز سے پردہ اٹھ جاتا ہے یہ اسے بھی نہیں پتہ ہوتا لیکن اس کوششیں کسی نا کسی سمت لے جاتی ہیں اور قدرت کا کوئی کرشمہ رونماء ہوجاتا ہے۔ کرونا وائرس نے انسانوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ تم ایک ایسے خالق کی تخلیق ہو جسے نا نیند آتی ہے اور نا اونگ، تو پھر کن فیکون کی صداءوں سے تخلیق کا عمل تو جاری و ساری ہے، تو پھر تم نے یہ کیسے سمجھ لیا ہے کہ تم نے اسکی کائنات کو تسخیر کر لیا۔
انسان آج پھر اپنی بنیاد پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے، وقت اسے یہ سبق دے رہا ہے کہ دولت، شہرت، تکنیک، یا جدت کچھ بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ رب کائنات کے کن فیکون کو روک سکے یا پھر سمجھ سکے۔ ہم تو فقط اس نقطے پر پہنچ پائے ہیں کہ اللہ نے جب سے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر روئے زمین پر بھیجا ہے حالات قابو میں نہیں ہیں اور یہ حالات قابو میں تب ہی آئینگے جب یقینی انصاف کا دن آئے گا۔