دنیا کے تمام انسان کسی نا کسی صورت قیدی ہیں۔ ہر معاشرہ اپنے افراد کو طے شدہ حدود سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا، ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو اپنی حدود سے باہر نہیں جانے دیتا۔ ایک معاشرہ دوسرے معاشرے سے آنے والے کو محدودرابطے کی اجازت دیتا ہے ایسے ہی ہر مذہب میں دوسرے مذہب کیلئے محدود جگہ رکھی گئی ہے۔ یعنی انسان حد بندیوں میں ہی رہتا ہے تو قیدی ہی ہوا۔ ان حد بندیوں کی وضاحت کو سمجھنے کیلئے اگر ہم مختلف براعظموں کا یا پھر ملکوں کا جن کی تقسیم علاقائی سطح پر ہوئی ہو، جائزہ لیں تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کس قسم کے قیدی ہیں۔ دوسری طرف انسان اپنی خواہشات اپنی سوچ کا بھی قیدی ہے۔ اخلاقیات کی قید تو مذہب اور معاشرے دونوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ معاشروں کو منظم کرنے میں بھی حدود کا کردار سب سے اہم ہے اور ان حدود پر کاربند کرانے والے اداروں کا کردار اس سے بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ قیدی کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے انسان نما اکثریت کو اس بات کا علم نہیں کہ وہ کس حاکم کا قیدی ہے۔ عام آدمی معاشرے اور مذہب کے خوف میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ وہ تعین شدہ حدود کی حد تک پہنچتا ہی نہیں، اسلئے اسے اپنے قیدی ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ہم سڑک پر لگی لال بتی پر نا رکیں تو ہم پر جرمانہ لگا دیا جاتا ہے اور ہم ایک جرم کے مرتکب ٹہرتے ہیں۔ ہم معاشرتی حدود کو پار کرتے ہیں تو قانون کی گرفت ہمیں پکڑ لیتی ہے اور ہم مذہب کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو مولوی ہمیں سیدھا کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ جیلوں میں رہنے والے قیدی جیل اور جیلر کے قوانین جنہیں حدود بھی کہا جاسکتا ہے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے اور اگر کوئی قیدی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسکی قید کی شدت میں اضافہ کردیا جاتا ہے جیسے کہ کال کوٹھری وغیرہ وغیرہ کی نظر کردیا جاتا ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ انسان کبھی آزاد تھا ہی نہیں۔ لیکن معلوم نہیں کیوں ہر طرف سے آزادی کی جدوجہد کی صدائیں گونجتی سنائی دیتی ہیں اور معلوم نہیں کس آزادی کیلئے زندگی جیسی نایاب چیز قربان کردی جاتی ہے۔ آدم ؑ کی آزادی جنت میں بھی نہیں تھی جبھی تو راندھائے درگاہ ہوئے اور زمین پر بھیج دیئے گئے۔ کیا انسان زمین پر بطور سزا بھیجا گیا؟
مختصراً تاریخ سے آگے بڑھتے ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے کون واقف نہیں یہ وہ کمپنی تھی جس نے برصغیر پر قبضہ کرنا تھا اور یقینا یہ اپنی ایک منظم حکمت عملی کے تحت تجارت کے بہانے برصغیر کے حکمرانوں تک پہنچے جیسا کہ انہیں پہنچنا تھا۔ تجارت کی اجازت تو ملنی ہی تھی پھر گوری چمڑی کی بے دریغ دید نی چمک سے کس کا نفس بے قابو نہیں ہوتا۔ کیا تجارت ہوئی کہ برصغیر کی حکومت ہی ہاتھوں سے نکل گئی اور جو بادشاہ بنے بیٹھے تھی سب کے سب غلام ہوگئے۔ ایک طویل اقتدار کا جاہ و جلال ایک تابناک دور حکومت کاسورج غروب ہوا اور ایک نیا غلامی کا طوق ہمارے گلے کی زینت بنا۔ ہم تب سے تاج برطانیہ کی غلامی میں غرق ہوگئے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے اس غلامی کے طوق کو اپنے گلے میں گوروں کا پٹہ سمجھ کر انکے پیچھے دم ہلاتے رہنا سمجھ لیا اور کچھ نے اس غلامی سے ٹکرانے کیلئے کچھ نظریاتی حکمت عملی ترتیب دی اور کچھ لوگوں نے اسلحہ کی زور پر ان سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ ہندوؤں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی سال ہا سال غلامی کا بدلہ لینے کیلئے انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور پسِ پردہ انگریزوں سے مل کر ہمیں ہر میدان میں پیچھے کرتے چلے گئے۔ آخر کار تین مختلف قسم کی جدوجہداپنی اپنی جگہ پر کام کرتی رہیں اور ایک طویل صبر آزما کوجہد مسلسل کے نتیجے میں بر صغیر کے ٹکڑے ہوگئے اور مسلمانو ں کی ایک بہت بڑی تعداد اس فیصلے سے ناخوش تھے کیونکہ انکا سمجھنا تھا کہ یہاں سے انگریزوں اور ہندؤں کو جانا چاہئے کیونکہ ہندوستان ہمارے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے اور انگریز نے قبضہ بھی ہمارے بادشاہوں کی حکومت پر کیا تھا لیکن وقت بدل چکا سوچ تقسیم ہو چکی تھی۔ انگریز اپنے نظرئیے تقسیم کرو اور حکومت کرو میں کامیاب ہوچکا تھا۔ پاکستان بن گیا۔ جن لوگوں نے انگریزوں کی غلامی کے طوق کو خود اٹھا کر اپنے گلے میں ڈالا تھا انکی وفاداریوں کے بدلے میں انہیں انگریز سرکار نے بھرپور طریقے سے نوازااور جو لوگ نظریاتی تھے انہیں پاکستان کی بقاء اور سالمیت سے زیادہ کچھ نہیں چاہئے تھا اور جولوگ عسکری جدوجہد میں مصروف تھے اور آج تک مصروف ہیں۔ نوازے ہوئے لوگوں نے اپنی اپنی جادائیدیں کیا چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنالیں اور ان میں کچھ بنایا یا نہیں نجی جیلیں ضرور بنائیں اور ہر اس ظلم اور ناانصافی کو ساتھ لائے جو انہوں نے انگریز سرکار کو کرتے دیکھا تھایہاں تک کے وہ کچھ ایسی برائیوں کو بھی ساتھ لئے پھر رہے ہیں جن کا نا تو ہمارا معاشرہ ساتھ دیتا ہے اور مذہب تو شدید مخالفت کرتا ہے۔ یہ لوگ نسل در نسل ذہنی غلامی پال رہے ہیں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھے ہیں۔ ہم زبان اور لباس کے بھی غلام ہوگئے اور اس غلامی کی سوچ نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان کی آزادی آج تک بھارت نے ہضم نہیں کی ہے۔ بھارت نے کشمیر کیساتھ جو کچھ کیا وہ ہمارے کشمیری بھائی آج تک جھیل رہے ہیں، اسکے بعد ۵۶ کی جنگ، پھر ۱۷ میں پاکستان کو دو لخت کرنے کی کامیاب سازش اور پھر گاہے بگاہے پاکستان کی سرحدوں پر رہنے والے نہتے شہریوں پر گولہ باری اور گولیوں کی بوچھاڑ معمول بنا ہوا ہے۔ ابھی فروری میں ہونے والے انتہائی کشیدہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان آج تک بھارت کو ہضم نہیں ہوا ہے۔ بھارت نے اپنی سازشوں میں افغانستان کو بھی شامل کررکھا ہے اور آس پاس کے دیگر ممالک بھی اس کا حصہ بنتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ہم خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں جس کی اہم ترین وجہ چین ہے۔
پاکستان چین کی مثالی دوستی رہی ہے، ان جیسی دوستی کی مثال دنیا میں شائد ہی کہیں نہیں ملتی۔ یہ ایسا تعلق ہے جو کہ امریکہ سمیت بھارت اور اسرائیل کیلئے انتہائی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس تشویش کا اظہار کبھی بھی واضح انداز میں نہیں کیا گیا ہے بلکہ امریکہ کی مختلف واضح ہوتی حکمت عملیوں سے نظر آرہی ہیں۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور باہمی اشتراک سے ایسی ایسی چیزیں بناڈالیں ہیں کہ دنیا حیرت ذدہ دیکھائی دیتی ہے۔ دور حاضر میں پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) نے ساری دنیا میں بھونچال پیدا کیا ہوا ہے دوسری طرف چین پاکستان کی معیشت کو ہر ممکن سہارا دینے کی کوشش کرتا دیکھائی دے رہا ہے بات یہاں بس نہیں ہوجاتی بلکہ پاکستان کیخلا ف جس کسی نے بھی غلط زبان استعمال کی ہے تو چین نے پاکستان سے بھی پہلے اسکا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا ہے۔ چین کو پاکستان کی کیا ضرورت ہے ہمیں ابھی اس بات کا صحیح سے علم نہیں ہے لیکن ہمیں چین کی ضرورت بہت سارے میدانوں میں ہے اور ہم یہ مدد لے رہے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں اور وہ یہ کہ چین کہ کچھ علاقوں میں مسلمانوں کیخلاف ہونے والے انتہائی تلخ اور سنگین واقعات باقاعدہ طور پررونما ہونے لگے ہیں جنہیں کسی بھی قسم کے میڈیا پر خاص جگہ نہیں دی جاتی اور ناہی سماجی میڈیا اس بات پر خاص رد عمل دیکھاتا نہیں دیتا۔ تازہ ترین واقعات میں آجکل چینی افراد کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی کا معاملہ بھرپور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ چینی افراد ہماری غربت کا بھرپور فائدہ اٹھانے ہمارے دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئے ہیں جن کی رہنمائی ایک نئی غلام نسل کر رہی ہے جن کو سوائے روپے پیسے کے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر ہمارے یہ چینی دوست ہماری پیٹھ میں چھرا کیوں گھونپ رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ انکے پس پشت وہ غلامی کا طوق اپنے مفادات کے حصول کیلئے اپنے گلے میں ڈالنے والے لوگ ہوں جنہوں نے یہ کام کروانا شروع کررکھا ہے جو پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
چین میں اسلام دشمنی کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ اب یہ لڑکیوں کی غیر قانونی درآمد کا معاملہ جو یقینا کئی وقت سے سماجی میڈیا پر تو دیکھائی دے رہا تھا لیکن اس پر کوئی خاطر خواہ کاروائی ہوتی نہیں دیکھائی دے رہی تھی لیکن اب جبکہ یہ معاملہ انتہائی سگین نوعیت کو پہنچ چکا ہے اور پیسے کی خاطر لوگ اس کام کو قانونی شکل دے کر کروارہے ہیں قانون کے شکنجے میں آچکے ہیں تو پتہ چل رہا ہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔
ہمیں اپنے اداروں پر اپنے موجودہ حکمرانوں پر پورا یقین ہے کہ وہ سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کو کاروباری ہی رکھینگے اور یہ کسی نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کا دوسرا حصہ نہیں ہوگا اور ہم جیسی بھی ہے اپنی آزادی کا سودا نہیں ہونے دینگے۔ ہم عادتاً کہیں پھر سے اپنے لئے ان چینیوں کی شکل میں نئے آقا تو نہیں ڈھونڈ لائے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو دوست ہی رکھینگے، ہم انکے غلام کبھی بھی نہیں بنیں گے۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مشن ہے کہ وہ پاکستان کا نام دنیا کے بڑے ناموں میں شامل کرائینگے وہ کبھی بھی اب کسی کو آقا تسلیم نہیں کرینگے۔ ہم جیسے بھی ہیں ہم آزاد ہیں اور ہم اپنی آزادی کی جنگ زمانوں سے لڑ تے آرہے ہیں، ہم اب اپنی آزادی پر کوئی سودے بازی نہیں کرینگے۔