ہم سب یہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کسی بھی مقام پر پہنچنا اتنا مشکل نہیں، جتنا اس مقام پر مستقل کھڑے رہنا مشکل ہوتا ہے۔ بات کر رہے ہیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی جوکہ کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں شرکت کیلئے برطانیہ میں موجود ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں 2017 میں جون (اتفاق سے جون ہی ہے)کے مہینے میں پاکستان نے انڈیا کو چیمپینز ٹرافی کے فائنل میں بری طرح سے شکست سے دوچار کیا تھا، پھر بھارت کو ایک بدترین شکست 27 فروری 2018 کو بھی ہوئی اسطرح سے انڈیا زخمی حالت میں ہے اور بھرپور بدلا لینے کی کوشش کریگا۔ کیا یہ پاکستان اور انڈیا کا یہ میچ بارش کی نظر ہوجائے گا؟ کیونکہ دونوں ممالک کیلئے یہ میچ صرف عام میچ نہیں ہے بلکہ دونوں کیلئے فائنل سے قبل یہی فائنل ہے۔
گوکہ پاکستانی ٹیم کی ابتک کی صورتحال کوئی خاص نہیں دیکھائی دے رہی، سوائے انگلینڈ کیخالف کھیلے جانے والے میچ کے، پاکستان کی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کو شکست دے کر یہ ثابت کر چکی ہے کہ وہ کسی بھی ٹیم کیخلاف اچھی کارگردگی دیکھانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ بدقسمتی کہا جارہا ہے کہ سری لنکا سے کھیلا جانے والا میچ بارش کی نظر ہوگیا۔ پاکستان نے آخری میچ آسٹریلیا کی ٹیم سے کھیلا اور سارا میچ ایسے کھیلتے رہے کہ جیسے جیتنا ہی نہیں ہے۔ اس میچ سے قبل کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ ہم جارحانہ کرکٹ کھیلیں گے لیکن ایک اضافی تیز گیند باز شاہین شاہ آفریدی کو کھلا کر آپ نے دفاعی کھیل کا ماحول بنایا اور یقنا ً آپ کا یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ شاداب ایک انتہائی کارگر ہتھیا ر ہے جوکہ کرکٹ کے ہر شعبے میں اپنا حصہ ڈالنا جانتا ہے۔ ہم اگر آسٹریلیا کہ میچ پر نظر ڈالیں توسب سے پہلے پاکستان کے کپتان نے پچ کو سمجھنے میں غلطی کی جسکی وجہ سے شاداب کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو کھیلنے کا موقع دیااور پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔ پہلے گیند بازی کا فیصلہ کس حد تک غلط تھا اس کا پتہ آسٹریلیا کہ فارم میں نا ہونے والے بلے باز ڈیوڈ وارنرکے سو رنز کی شاندار انگز سے لگایا جاسکتا ہے جن کا ساتھ کپتان ایرون فنچ نے خوب جارحانہ انداز سے دیا۔ سوائے محمد عامر اور وہاب ریاض، دونوں کو منتخب کرنا بھی چناؤ کمیٹی کا ایک بہت بڑا فیصلہ تھا کسی حد تک آسٹریلیوی بلے بازوں کو تھاما جبکہ ناقص فیلڈنگ ہمیں ہار کی جانب دھکیلنے میں بہت بڑی محرک بنی۔ جس حساب سے انگلینڈ کے میدانوں میں رنز بن رہے ہیں، اسٹریلیا نے اس حساب سے پھر بھی کم رنز بنائے جس کا سحرا محمد عامر کی تاریخی بولنگ کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے دس اوور میں صرف تیس رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو میدان بدر کیا۔ کرکٹ کے شائقین اس بات پر اکثر حیران و پریشان نظر آتے ہیں کہ ہمارے ساتھ وکٹ کیسے دھوکا کر جاتی ہے جس طرح کے برتاؤ کی توقع ہمارے کپتان نے کی پہلے گیند بازی کرتے ہوئے وکٹ نے اسکا الٹ کر کے دیکھایا۔ کپتان کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ وہ کہیں جذبات سے آگے تو نہیں جارہے جس کی وجہ سے صحیح فیصلے کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔
پاکستان نے بلے بازی شروع کی تو آغاز میں ہی اپنے اہم ترین اور اچھی بلے بازی کرتے آرہے فخر زمان کی وکٹ سے ہاتھ دھونا پڑے، پاکستانی بلے بازوں کی فہرست میں سب قابل اعتماد بابر اعظم خاطر توقع کے مطابق اپنا نہیں ڈال سکے گوکہ ناقدین کی زد میں آئے ہوئے امام الحق کیساتھ مل کر کچھ کھیل کو استحکام بخشا، پھر امام الحق اچھا کھیلتے ہوئے ایک اپنے سے بہت دور جاتی ہوئی گیند کو بلا لگا بیٹھے اور واپسی کی راہ لی آسٹریلیا کہ کپتان ایران فنچ نے اپنے ہاتھ میں اس وقت گیند بازی لی جب پاکستان کسی حد تک اپنے رنزوں کے تعاقب میں پر اعتماد دیکھائی دے رہا تھا لیکن فنچ نے اپنے پہلے ہی اوور میں ساری کی ساری بیٹنگ لائن کو ہلا کر رکھ دیا، جب حفیظ کو پویلین کی راہ دیکھائی۔ یہاں سے کھیل پاکستان کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوا ایک کپتان سرفراز ڈٹے رہے لیکن دوسری طرف با صلاحیت شعیب ملک بغیر کوئی رنز بنائے واپس چلے گئے اب میچ میں شکست کو یقینی سمجھا جانے لگا جس میں رہی سہی کثر جارحانہ بلے بازی کرنے والے محمد آصف بھی سرفراز کا ساتھ چھوڑ کر چلتے بنے اب حسن علی نے دھماکے بتیس رنز کا اضافہ صرف پندرہ گیندوں پر کیا اور چلتے بنے اب وہاب ریاض جو آجکل مکمل طور پر چھائے ہوئے ہیں پنتالیس رنز کی شاندار باری کھیل کر آؤٹ ہوگئے دوسری طرف سرفراز تنہا ہی رہ گئے۔ اسطرح پاکستان کو اکتالیس رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کے ابھی چھبیس گیندیں بھی باقی تھیں۔ بس کچھ ایسا ہوا کہ گیند کو قابو کرنے سے پہلے ہی جشن منانے میں گیند پر قابو نا رہ سکا اور گیند گرگئی۔
کہنے والے یہ بھی کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ کہیں کرکٹ کے میدانوں میں بنائی جانے والی پچوں کے پیچھے بھی امریکہ یا انڈیا سے تو نہیں ہے۔ آسٹریلیا سے ہارنے والا میچ پاکستان کے لئے بہت اہم ہے ثابت ہوگا کیونکہ اس میچ میں کی جانے والے غلطیوں سے یقینا سبق سیکھا جائے گا اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ میچ بروقت ہوگیا، یہاں سے عالمی مقابلوں میں سے باہر نا ہونے کیلئے انتہائی مثبت کرکٹ کھیلنا ہوگی کپتان کو چاہئے کہ لفظ جارحانہ کی جگہ مثبت استعمال کریں کیونکہ جارحانہ کہہ کر جوکچھ آپ نے کیا ہے وہ خود بھی دیکھ چکے ہیں اب آپ مثبت کرکٹ کھیلیں اور اپنی پرانی تاریخ دہرائیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ موجود انتطامیہ، کپتان اور پوری ٹیم کے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ آپ انڈیا سے ہر میدان میں بازی مارے ہوئے ہیں جیتے ہوئے ہیں۔ اب اس بات کو سنبھال کر رکھ لیں اور جب میدان میں اتریں تو اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کردیں کہ آپ کرکٹ میں بھی ان سے آگے ہیں، جیسا کہ آپ دوسال سے قبل ثابت کر چکے ہیں۔ ہمارا مقصد قطعی آپ کو جذباتی کرنے کا نہیں ہے۔ آپ پیشہ ور کھلاڑی ہیں ہم آپ سے بس یہی توقع کرتے ہیں کہ آپ اپنی ہمت، حوصلے اور قابلیت سے میدان مارو۔ اب کوئی بھی سامنے آجائے انتائی تدبر اور ماہر کھلاڑی کی طرح کھیلنا ہوگاخصوصی طور پر شعیب ملک کو اپنا بھرپور حصہ ڈالنا ہوگا۔ اب ہماری ٹیم کا حدف اگلا میچ نہیں ہونا چاہئے بلکہ سیمی فائنل ہونا چاہئے اور ہر میچ کو سیمی فائنل سمجھ کر ہی کھیلنا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہار جیت کھیل کاحصہ ہوتی ہے لیکن جب آپ لڑکر کھیلتے ہیں اور اپنے حریف کے پسینے نکال دیتے ہیں تو ہمیں دیکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ ٹیم لڑ رہی ہے اور ہم ہار کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں لیکن جیسا آپ نے آسٹریلیا کے میچ میں کھیل پیش کیا ہے یہ آپ شایہ شان نہیں ہے۔ جو گیا سو ہوگیا۔ اب ٹیم پاکستان یہ ورلڈ کپ جیت کر دنیا کو یہ بتادے کہ ہمیں جیتنے کا ہنر آچکا ہے اور ہم اپنی جیت کو سنبھال بھی سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی ہے اور رہیگی، اب آپ ایک بار پھر پاکستانیوں کے خوش کردواور دنیا کو بتادو کے کاروائی کیسے ہوتی ہے۔ سمجھ تو گئے ہونگے۔