1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کی ایک اور کوشش

خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کی ایک اور کوشش

ماں باپ اپنے چھوٹے بچے کو کھانا کھلاتے ہوئے ایک کھلونے کو ساتھ لیکر بیٹھے اور بچے کے کھانا نا کھانے پر اس کھلونے کو ایسے ڈرایا دھمکایا کہ بچے نے کھانا شروع کردیا، گوکہ والدین کیلئے یہ ایک اچھا عمل ہوسکتا ہے کیونکہ انکا مقصد نیک ہے کہ بچے کو کھانا کھلایا جائے لیکن والدین کہ اس عمل سے بچے کی خود اعتمادی اور ذہنی نشونما پر برے اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ یعنی بچے میں خوف جگہ بنالیگاجوکہ معاشرے کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ گوکہ یہ نئے زمانے کی تشہیر ہے لیکن شائد اس سے کوئی ملتا جلتا عمل تاریخ کا بھی حصہ رہا ہو۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے بزدل لوگ موجود ہیں۔ ان کمزور دل لوگوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں بھی کچھ ہونے پر سارا ملبہ اپنی طرف گرتا محسوس کرتے ہیں اور معمولات سے نظر ہٹا کر خود پر مسلط کی جانے والی والی (جو ضروری نہیں) تفتیش کیلئے تیاری شروع کردیتے ہیں۔ ایسے عوامل بھی حالات و واقعات کی مرہون منت وجود میں آتے ہیں۔ پاکستان کی کیفیت بھی کسی ایسے ہی حالات میں گھرے ہوئے ملک کی طرح ہے، جو دنیا میں کہیں بھی رونما ہونے والے واقع کہ فوراً بعد اپنی پیشیوں یا جوابدہی کی تیاری شروع کردیتا ہے جس کی کوئی حیثیت یا ضرورت نہیں ہوتی۔

اکیسویں صدی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کا مقولہ ہر خاص و عام کو بھرپور سمجھ میں آگیا ہے، جس کی ایک وجہ تو سماجی میڈیا ہے لیکن دوسری حقیقت پر مبنی اور خطرناک آئے دن آسٹریلیا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ ہے یہ آگ ہر دن ہوائوں کی تند و تیزی کی بدولت تیزی سے سفر کرتی ہوئی بڑھتی جارہی ہے۔ آج بھی آسٹریلیا کہ جنگلات میں آگ لگی ہوئی ہے اور یہ آگ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے شائد تاریخ میں یہ بھی پہلی دفعہ دیکھائی دے رہا ہے کہ اس آگ پر قابوپانا مشکل ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔

امریکہ اور ایران کی چپقلش عرصہ دراز سے میڈیا کہ توسط سے دیکھنے اور سننے کو ملتی رہی ہے۔ کبھی پابندیاں لگائی جاتی ہیں، کبھی پابندیوں میں نرمی لائی جاتی ہے، کبھی مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ایسے اندوہناک حادثہ پیش آجاتا ہے کہ خصوصی طور پر خطے کو اور عمومی طور پوری دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ امریکہ نے ایران کی ایک نامی گرامی اور گرانقدر شخصیت قاسم سلیمانی کو بالکل ایسے جس طرح سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ڈرون حملے کے ذریعہ سے مخصوص مقامات کو نشانہ بنا کر کسی نا کسی بڑے طالبان رہنما کو موت کی نیند سلانے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے اور اس بات کی تصدیق بھی خود کردی۔ ایران نے امریکہ کہ اس گھنائونے اقدام کو کسی بھی طرح سے برداشت نا کرنے کا عندیہ دیا ہے اور قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس اعلان سے خطے کی صورتحال اور تشویشناک ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔ جیسا کہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت نے کشمیر میں پچھلے ۵ ماہ سے کرفیو لگایا ہوا ہے اور دوسری طرف بھارت کے اندر جو کچھ چل رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو انسانیت سوز حالات کا سامنا ہے۔ لیکن دنیا کی خاموشی ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ بھارت کی آئے دن پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اشتعال انگیزی ایک الگ مسئلہ ہے دوسری طرف افغانستان جہاں سے بیٹھ کر بھی بھارت پاکستان کیخلاف سازشیں کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا پاکستان، امریکہ اور ایران کے درمیان سنگین ہوتے ہوئے حالات میں کیا کردار نبہا سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان حالیہ کولالمپور میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کی حیثیت کچھ غیرمستحکم دیکھائی دے رہی ہے اور محسوس یہ کیا جارہا ہے کہ کاندھا کسی کا اور نشانے پر کوئی اور ہے۔ ایک اضافی غور طلب بات یہ ہے کہ امریکہ نے دو سال قبل آرمی کی تربیت کے پروگرام پر پابندی عائد کردی تھی جو کہ اس سانحہ سے قبل ہٹا دی گئی۔

پاکستان نے بڑے واشگاف لفظوں میں اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نا ہونے دینے کا اعلان کردیا ہے جوکہ عسکری اور عوامی نمائندوں کے ایوان سے بھی جاری کردیا گیاہے۔ لیکن یہ کہنے دینے سے کیا مسئلے سے نجات مل جائے گی یا پھر امریکہ پاکستان پر دباءو ڈالنے کی کوشش نہیں کریگا؟ جیساکہ بارہا اس بات کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے کہ پاکستان کا محلے وقوع امریکہ کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے بغیر پاکستان کے امریکہ اس خطے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے، بصورت دیگر بھارت کیساتھ پاکستان کا الجھائو وجود میں آتا دیکھائی دیتا ہے۔

امریکہ ایران مدبھیڑ ناصرف خطے کیلئے بلکہ یہ دنیا کے امن کیلئے بھی خطرہ ہے۔ دنیا بخوبی واقف ہے کہ ایران بھی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے اور کسی بھی قسم کی سرزنش کس قسم کی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔ دنیا نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی جنازے میں کتنی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے جو اس بات کی گواہی سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے جنرل کا بدلہ لینے کیلئے اپنی حکومت اور اپنی افواج کے شانہ بشانہ ہیں۔ دوسری طرف امریکی صدر طاقت کے نشے میں لگتا ہے کسی بھی قسم کی سوچ سمجھ سے خود کو عاری کئے بیٹھے ہیں اور بس مہم جوئی کے کسی چھوٹے سے بہانے کا بیچینی سے انتظار کررہے ہیں۔ جنگی جنون اس نہج پر پہنچا ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مجھے ایران کے خلاف جارحیت استعمال کرنے کیلئے ایوان سے باقاعدہ اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ صورتحال پوری دنیا کو خوفزدہ کئے ہوئے ہے ایران کا رویہ تو ہمیشہ سے ہی جارحانہ رہا ہے اور ایرانی حکومت بغیر کسی علاقائی سہارے کے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہے، یہی وہ غیر حل شدہ مسئلہ ہے جو امریکہ کو ہضم نہیں ہوتا۔

اس خطے میں امریکہ ابتک بھرپور سردھڑ کی بازی لگا چکنے کے باوجود اپنا کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں بنا سکا ہے۔ اگر ابھی ایران کیساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف چین کیساتھ تو معاشی جنگ جاری ہے۔ حکومتِ وقت نے پہلے دن سے یہ راگ الاپنا شروع کر رکھا ہے کہ وہ اب کسی بھی ایسی صورتحال کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو خطرہ لاحق ہو۔ موجودہ حالات ایک بار پھر پاکستان کو سن 2001 میں گھسیٹتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں لیکن وقت اور حالات اب بہت تبدیل ہوچکے ہیں گوکہ امریکہ طاقت کے نشے میں یہ سب سمجھنے سے باز دیکھائی دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی جارحیت کیلئے تیار دیکھائی دے رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی داخلی اور خارجی سرحدوں کی حفاظت کیسے کرتا ہے، ایک طرف تو یہ حکومت کیلئے ایک بہت بڑی آزمائش ہے اور دوسری طرف عسکری قیادت کی بھرپور صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان کے وزیر اعظم اس ساری صورتحال میں کس طرح سے اپنی ذمہ داری نبہا سکیں گے۔ بھارت پاکستان سے ہوتا ہوا یہ جنگی جنون امریکہ اور ایران پہنچ چکا ہے اور دیکھا جائے تو یہ جنگی جنون ہمارے آس پاس ہی منڈلاتا دیکھائی دے رہا ہے۔