یہ بات انتہائی باعث مسرت ہے کہ معاشرے میں شعور کی قندلیں روشن ہونا شروع ہوگئی ہیں، برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کا رجھان بڑھتا دیکھائی دے رہا ہے، لیکن معلوم نہیں کب تک انسان اپنی بد عمالیوں کو بَشری تقاضے کہہ کر، سمجھتا ہے کہ جان چھڑالی ہے، کرتا رہے گا، اس طرح سے کوتاہی کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ معاشرے میں ہمیشہ سے اچھائی موجود ہے اور بڑے پیمانے پر موجود ہے لیکن کسی خوف کے زیر اثر رہتی ہے اس کے برعکس برائی بہت کم ہے لیکن رہتی بہت خود نمائی کیساتھ ہے، برائی کے سر پر ہاتھ بھی یقینا برے کا ہی ہوگا اور وہ ہاتھ کوئی عام ہاتھ نہیں ہوسکتا۔ ہمارا معاشرہ بری طرح سے خاص و عام کی تفریق میں بٹا ہوا ہے۔ کسی بڑے کی گاڑی روکنے پر پولیس والوں کوذلت آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر پولیس والا کسی راہ گیر پر اپنے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا بدلا اس سے کہیں گنا زیادہ بے عزتی کر کے لیتا ہے۔ کوئی بھی سہنے کیلئے تیار نہیں ہے کوئی بھی اپنے گاڑی سے اتر کر قانون کے رکھوالوں کیساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہے۔ گو کہ سب کو وقت کی ایسی مار پڑتی ہے کہ سب کچھ بھولا دیتی ہے کسی کے پاس سوائے ایک کاندھا دینے کہ وقت نہیں ہے۔
ابھی تحقیق اس جستجو میں ہے کہ یہ اخذ کرسکے کہ کرونا نامی وائرس کے پیدا ہونے کے کیا اسباب ہیں، کیا یہ حیاتیاتی یعنی پیدا کیا گیا وائرس ہے یا پھر خود ہی پیدا ہوا ہے، اس حوالے سے مختلف خبریں دنیا جہان میں گردش کرتی پھرتی سنائی دے رہی ہیں لیکن وقت آنے پر حقیقت سے پردہ ہٹایا جائے گا۔ اس بات سے تو اختلاف نہیں کہ یہ کسی نا کسی فرد واحد کی کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کہ سو سے زائد ممالک اس وائرس کی زد میں ہیں اور تقریباً 4000 زندگیاں لقمہ اجل بن چکی ہیں دوسری طرف ایک لاکھ دس ہزار افراد وائرس کی زد میں ہیں۔ گوکہ بین الاقوامی کوتاہیوں کی ایک طویل فہرست ہے جس پر بین الاقوامی ادارے سوائے تماشائی بنے دیکھنے کہ اور بیانات جاری کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
اب کہیں جاکہ یہ راز فاش ہونا شروع ہوئے ہیں کہ ایک منزل کی اجازت لے کر تین تین منزلیں تعمیر کی جاتی رہی ہیں اور گھروں کے درمیان کثیر المنزلا عمارتیں تعمیر کر کے ناصرف شہر کا نقشہ بگاڑ دیا ہے بلکہ نکاسی آب، پانی کی تقسیم اور کچرے کے انبار کے اسباب بھی بھرپور پیدا کئے گئے ہیں۔ صرف پیسے بنانے کیلئے ان انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں کی گویہ زندگیوں کا سودا کر ڈالا ہے۔ کراچی شہر میں ترقیاتی کام جاری ہیں ابھی تازہ ترین تین فلائی اوور کا افتتاح ہواہے جس کی مدد سے پینتالیس منٹوں کا سفر مشکل سے بیس منٹ میں سمٹ گیا ہے۔ کراچی میں کچرے کی ایک ناختم ہونے والی بہتات کی ذمہ داری بھی انکے ذمہ ڈالی جاسکتی ہے، ایسے اور بہت سارے مسائل کی وجہ ان عمارتوں کی بہتات ہے۔ دنیا موسمی تغیرات سے خوفزدہ ہے اور ان سے ہر ممکن نبرد آزما ہونے کیلئے ٹھوس اقدامات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، ہماری حکومت نے بھی احسن اقدامات کئے ہیں اور کرتی ہی جارہی ہے لیکن تعمیرات کے شعبے میں ایسا لگتا ہے اس عالمی مسئلے کو قطعی نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یوں تو عمارتیں گرنے کے واقعات پورے پاکستان میں ہی دیکھنے میں آتے ہیں اور انکے نتیجے میں ناگہانی اموات ہوتی ہی چلی جار ہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے گولیمار رضویہ میں ایک اورعمارت اس لئے منہدم ہوگئی کہ اس پر عمارت کا مالک جسے حرف عام میں بلڈر کہا جاتا ہے ایک اضافی منزل بنانے کا کام شروع کروا رہا تھا، یقینا اس نے اس کام کی اجازت ارباب اختیار سے لے رکھی ہوگی، جیسا کہ اسنے پوری عمارت کی تعمیر کی اجازت لی ہوگی۔ تقریبا ستائیس انسانی جانیں اس پیسے کی ہوس کی نظر ہوگئیں۔ کراچی شہر میں تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے سچ پوچھیں تو کراچی کو اندھیر نگری بنا رکھا ہے۔ دنیا جہان میں اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں اور یہ عمارتیں ترقی یافتہ ہونے کی دلیل سمجھی جاتی ہیں، پاکستان میں سب سے زیادہ طویل القامت عمارتیں کراچی شہر میں ہی تعمیر کی جاتی ہیں گوکہ اب اسلام آباد اور لاہور میں بھی کچھ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں کیونکہ کراچی کو بندرگاہ کی بدولت ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت حاصل رہی ہے اس لئے اس شہر کو بین الاقوامی طرز پر دیکھائی دینے کا حق بھی دیا گیا ہے۔
حکومت نے بدعنوانوں کیخلاف بھرپور صفائی کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے، بڑے چھوٹے ہر قسم کے بدعنوانوں کو انکی بدعنوانیوں کیمطابق سزائے سنانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن کیا بدنامی اور رسوائی سے بچنے کیلئے اب کوئی بدعنوانی یا اپنے فرائض منصبی سے کوتاہی تو نہیں کررہا؟ تو پھر دنیا جہان سے کرونا وائرس پاکستان کیسے منتقل ہورہا ہے؟ ہمارے ملک کی ایک نامی گرامی شخصیت نے (10 مارچ) سعودیہ سے کراچی واپس آنے کیبعد سماجی ذرائع ابلاغ پر یہ پیغام چھوڑا ہے کہ انکی کسی قسم کی کوئی اسکریننگ نہیں کی گئی اور ایسے خاطر خواہ انتظامات نہیں دیکھائی دیئے گئے جس سے اس بات اندازہ لگایا جائے کہ حکومت اس سنگین نوعیت کے مسلئے سے نمٹنے کیلئے کتنی سنجیدہ دیکھائی دے رہی ہے۔ کیا اسے کوتاہی نہیں کہا جائے گا اور ایسی کوتاہی جوکہ نامعلوم کتنے زندگیوں کو لقمہ اجل بننے میں مدد دے۔ ہمارے ملک میں حکومت کرنے والوں کا یہ خاصہ ہے کہ وہ کسی بھی سنگین مسئلے کے بعد جانی و مالی نقصانات کیبعد ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں (بہت دنوں سے جے آئی ٹی کا نام نہیں سنا) اور پھر کوئی نیا سانحہ پرانے حادثے پر غالب آجاتا ہے اس طرح سے کمیٹی ٹھنڈے کمروں میں نشست و برخاست کا سلسلہ جاری رکھتی یہاں تک کے کوئی نیا سانحہ ظہور پذیر نہیں ہوجاتا۔
ٹریفک کنٹرول کرنے والوں کی کوتاہیوں کی بدولت سڑکوں پر روزانہ کتنے ہی حادثے رونما ہوتے ہیں اور ٹریفک کا جام ہونا تو معمول کی بات بن چکی ہے، اگر گاڑی چلانے والے کو بغیر لائیسنس کے گاڑی چلانے پر سزا کی جائے بجائے اسکے کہ کچھ روپوں کی خاطر انسانی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔ گاڑیوں میں نصب گیس کے سلینڈر پھٹنے کے حوالے سے کتنے ہی حادثات ہوچکے ہیں لیکن کیا ہوا؟ ڈاکٹروں کی غفلت لکھا جائے یا پھر کوتاہی کا ایک نیا واقعہ سماجی ذرائع ابلاغ پر گردش کر رہا ہے، جس میں طبیب کہ وقت پر نا پہنچنے کی وجہ سے ایک مریض اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ ایک بات تو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور ایک دوسرے کو سمجھا لیں کہ کوتاہی چھوٹی بڑی نہیں ہوتی، کوتاہی کوتاہی ہوتی ہے بلکل ایسے ہی کہ جیسے بدعنوانی، بدعنوانی ہی ہوتی ہے۔ دوسروں کی کوتاہیاں تو ہ میں بہت اچھی طرح سے دیکھائی دیتی ہیں لیکن کبھی ہم نے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر یا پھر عادی کوتاہیاں کس طرح سے معاشرے کو بدصورت بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے یا پھر گھر کی کھڑکی سے رواں موسم میں کینوں کے چھلکے بس ایسے ہی سڑک پر یا گلی میں نہیں پھینکے؟ اکثریت ایسا ہی کرتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کی عادت ہ میں بڑی کوتاہی برتنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یہ تو تب پتہ چلتا ہے جب نقصان کا تخمینہ لگایا جاتاہے اور کہیں کسی کی زندگی ہی اس کوتاہی کی نظر ہوجائے تو کیا کوتاہی کرنے والا تاحیات اپنی کوتاہی کا ازالہ کرسکے گا۔ بچوں کیساتھ ہونے والی زیادتی کی وارداتیں کیوں نہیں ختم ہورہیں، کیوں کہ انکی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے، جعلی دوائیں کیوں فروخت ہو رہی ہیں، ایک طرف اربوں درخت لگانے کی تحریک چل رہی ہے تو دوسری طرف انہی درختوں کو کاٹنے والے اپنا کام دیدہ دیلیری سے کرتے دیکھائی دے رہے ہیں غرض یہ کہ انسان دنیا کی زندگی کو اور اسکی تزئین و آرائیش کیلئے آسائشوں کے حصول میں اندھا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کوتاہی کرنے والا اپنی کوتاہی کا خمیازہ ضرور بھگتا ہے کیوں کہ ایک حقیقی انصاف کرنے والا جسے نا کسی گواہ کی ضرورت ہے اور نا ہی کسی ثبوت کی، وہ یا تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے یا پھر پردہ رکھتے ہوئے اپنے پاس آنے کا انتظار کرلیتا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کوتاہیاں ہم جان بوجھ کرکرتے ہیں یا پھر یہ ہم سے سرزد ہوجاتی ہیں، کہیں یہ ہماری آزمائش تو نہیں کہ ہم اپنے خالق کے نائب ہونے کا حق کس حد تک ادا کررہے ہیں۔ یہ دنیا کے قوانین بکتے بھی ہیں اور مرضی کیمطابق استعمال بھی کئے جاتے ہیں لیکن قدرت کا قانون اٹل ہے اور وہاں صرف انصاف ہوتا ہے اور دوسرا کوئی راستہ نہیں کھلتا۔ بس اس مصرعہ پر مضمون ختم کرونگا کہ
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ