پاکستان سپر لیگ کا چوتھا ایڈیشن اپنے اختتام پر پہنچا تو پاکستانیوں کے دل اپنے ملک اور بین الاقوامی کھلاڑیوں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی محبت سے سرشار دیکھائی دیتے تھے۔ ہر طرف سے تعریفی کلمات سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی صداؤں سے پاکستان گونج رہا تھا لیکن قوم کو خوشی راس نہیں آتی اور ہماری خوشی دشمنوں کو تو ویسے ہی پسند نہیں تو دوسری طرف اربابِ اختیار بھی اس خوشی کو برداشت نہیں کرتے انہیں عوام کی خوشی میں اپنی کرسیاں ہلتی محسوس ہوتی ہیں۔ اس خوشی سے پاکستانی قوم کو نکلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا جب پاکستان اور آسٹریلیا کہ مابین کھیلی جانے والی پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں پاکستان ایک بھی میچ نہیں جیت سکا۔ پاکستانی قوم اب اتنی باشعور ہے کہ وہ سمجھ چکی ہے کہ جب دوٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو جیت ایک کے ہی نصیب میں آتی ہے لیکن پاکستانی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہارنے والی ٹیم میچ کسطرح سے ہاری ہے لڑ کر ہاری ہے یا پھر جیت پلیٹ میں رکھ کر دی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ سے پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز بھی پاکستان تین دو سے ہار کر آیا، قوم نے یہ کہہ کر اس ہار کو پی لیا کہ وہاں کی وکٹیں ہمارے میدانوں سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ ہمٰیں اس بات سے بہت اچھی طرح سمجھ ہے کہ پاکستان کو متحدہ عرب امارات میں کسی بھی قسم کی کرکٹ میں ہرانا بہت مشکل ہے اور چاہے مخالف کوئی بھی ہو۔
آسٹریلیا کیساتھ حالیہ سیریز سے قبل ہی ایک پریشان کن اعلان پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کیا گیا جس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سمیت سات کھلاڑیوں کو آرام کی غرض سے آسٹریلیا کے خلاف ہونے والی سیریز کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کیا اس بات سے ناواقف رہا کہ مئی میں کرکٹ کے عالمی مقابلے ہونے جا رہے ہیں اور ہم اپنے اہم ترین کھلاڑیوں کو آرام کی غرض سے آسٹریلیا جیسی ٹیم سے سیریز میں آرام دے رہے ہیں۔ ایک طرف تو آپ نے اپنے اہم کھلاڑیوں کو آرام دے دیا تو دوسری طرف ایک نئی ٹیم بنا کر آسٹریلیاکیخلاف کھیلنے کیلئے کسی گلی محلے کی ٹیم جیسا بنا کر پیش کردیا۔ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کی نیت میں کچھ کھوٹ ہوسکتا ہے، کیا چیف سلیکٹر اور کوچ کسی مثبت تبدیلی کی جانب پیشقدمی کررہے ہیں۔ اب کیونکہ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی نے یہ موقع تجزیہ نگاروں کو دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی دلیلیں عوام تک پہنچائیں اوریہ بات بھی ہے کہ ان دلیلوں میں مثبت تو کم ہی ہونگی۔
بظاہر جو بات سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایماء پر ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کو یہ سمجھا کر آرام کرنے بھیج دیا گیا کہ نو منتخب کھلاڑی ڈومیسٹک میں اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں تو انہیں بین الاقوامی طرز پرپرکھا جائے جس سے ان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا انہیں خود کو اور پاکستانیوں کو بھی پتہ چل جائے گا۔ اب اس بات کو طے کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کرکٹ کی انتظامیہ نے پہلے سے اپنا اور اپنے نئے (جو کم ہی تھے) کھلاڑیوں کا یہ ذہن بناکر بھیجا تھا کہ سیریز کا ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں آپ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواؤ یعنی پہلے ہی سے ٹیم کا مجموعی حوصلہ پست کردیا گیا تھا اور انفرادی کارگردگی دیکھانے پر زور دیا گیا اور کوئی شک نہیں کہ ہر کھلاڑی اپنی ذاتی صلاحیتیں دیکھاتا دیکھائی دیا گیا۔ ایک میچ میں رنز کا تعقب کرتے ہوئے پاکستان کے دو بلے بازوں نے سو کا ہندسہ عبور کیا لیکن مزے کی بات یہ کہ میچ کی جیت پر دھیان نہیں دیا گیا۔ اصولی طور پر نئے کھلاڑیوں کو کیپ دیتے ہوئے یہ بات کہنی چاہئے کہ اب تمھارے سر پر ملک و قوم کی عزت ہے تم نے اکیلے ہی میچ جتوانا ہے پھر نئے کھلاڑیوں کو یہ بھی پتہ تھا کہ یہ سیریز بہت ساری دیگر بری سیریز کی طرح نہیں بلکہ اس سے بھی بری سیریز کی طرح تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گی، ذاتی رائے کیمطابق اس سیریز کا حصہ بننے والے کچھ کھلاڑی تو شائد تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیں۔ جس طرح کی باتیں سماجی میڈیا پر زیر بحث ہیں اگر آسٹریلیا والوں کو پتہ چل جائے کہ پاکستان ہمارے خلاف سیریز نہیں بلکہ آزمائشی مقابلے کر رہا تھا تو یہ اخلاقی طور پربرا تاثر پڑے گا۔
سب ہی جانتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کیلئے کرکٹ صرف ایک گیند بلے سے کھیلے جانے والا کھیل نہیں بلکہ یہ ہمارے جذبوں اور حوصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اس کھیل سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی بات تو نہیں کر سکتے لیکن کرکٹ کی انتظامیہ کا رویہ سمجھنا بہت مشکل واقع ہوا ہے۔ بار بار یہ بات تنگ کر رہی ہے کہ ورلڈ کپ سے پہلے آپ اپنے کپتان سمیت اہم ترین کھلاڑیوں آرام کروا رہے ہیں، یہ لوگ ہماری طرح کہ کھلاڑی تو نہیں، کرکٹ تو انکے لئے شوق سے کہیں زیادہ قوم کا سرفخر سے بلند کرنے کاموقع ہے ایک پاکستانی ہیرو بننے کا بہانہ ہے انکی کون سی اتنی عمریں ہوگئی ہیں کہ انہیںآرام کی ضرورت ہے۔ کہیں پاکستان کو ورلڈ کپ میں ایک تیسرے درجے کی ٹیم بنا کر پیش کرنے کا سودا تو نہیں کرلیا گیا ہے۔ جی ہاں ! اب تو ہم سمجھنے والے کچھ بھی سمجھ کر لکھنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ آپ تین دو سے ہار جاتے آپ چار ایک سے ہار جاتے لیکن پانچ کے پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز پانچ صفر سے ہارے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی آسٹریلیا سے شکست سے جو مثبت پہلو اجاگر ہورہے ہیں ان میں اداروں کے خودمختار ہونے کا بھی عندیہ دیکھائی دے رہا ہے۔ یہ واضح نظر آرہا ہے کہ اس سیریز کیلئے کئے جانے والے فیصلے پاکستان کرکٹ بورڈ نے خود کئے ہیں اور اسطرح سے بورڈ کی جیت ہوئی ہے۔ یعنی جولائحہ عمل بورڈ نے مرتب دیا تھا نتائج اسکے عین مطابق آگئے ہیں۔ ایک طرف تو یہ کہ ہار کر اس بات کو اجاگر کرنا کہ یہ تو پاکستان کی بی ٹیم کھیل رہی تھی اور بی ٹیم سے ایسی ہی کاگردگی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں کرکٹ کا کردار کتنا اہم ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگا لینا چاہئے کہ آج ہمارے ملک کے وزیر اعظم ایک عظیم کرکٹر ہیں جسکے سر پر کرکٹ کے ورلڈ کپ کی جیت کا سہرا بھی بندھا ہوا ہے۔ کرکٹ، سیاست اور مذہب ہماری قومی موضوع ہیں۔ ایسی قوم کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے اس روئیے سے بڑا صدمہ پہنچایا ہے۔ لیکن ابھی حقائق پر سے پردہ اٹھنا باقی ہے شعیب ملک کے اچانک بیمار ہوجانے کی وجہ سامنے آنا باقی ہے، امام الحق کوکس بات کا بخار چڑھادیا گیا اور فہیم اشرف کو کیوں بیچ سیریز آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا، محمد عباس، یاسر شاہ کو ایک روزہ مقابلوں کا ایسا تجربہ دیا کہ وہ آئندہ خود ہی ہاتھ کھڑے کردینگے کہ ہمیں ٹیسٹ ہی کھیلنے دیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی تاریخ کی اہم ترین سیریز کسی خفیہ مہم سے کم نہیں تھی جس میں جیت کو ترجیح ہی نہیں دی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے اس مشن کی وضاحت بطور میڈیا بریفنگ کریگا یا پھر آنے والے دنوں میں پاکستان کی کرکٹ اس سیریز پر سے پردہ اپنے عملی کارناموں سے اٹھاتی دیکھائی دیگی۔ مستقل ٹیم اب آرام کیبعد اپنی بھرپور توانائیوں کیساتھ بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی کارگردگی کا لوہا منواتی دیکھائی دے گی۔ ہم دعاگو ہیں کہ پاکستان اپنے اس طریقہ واردات کی بدولت ۱۹۹۲ کی تاریخ دہرائے گی اور ۲۰۱۹ کرکٹ کا عالمی کپ پاکستان لائیگی۔