پاکستان قدرت کی جانب سے ہمارے لئے ایک انمول تحفہ ہے جسکے حصول کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے بےدریغ قربانیاں دیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں کی اکثریت پاکستان کیلئے دھوکا ثابت ہوئے اور پاکستان کو سنبھالنے کی صلاحیتوں سے محروم رہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت ۱۹۷۱ میں پاکستان کا تقسیم ہوجانا بنا۔ یہاں کسی پر الزام تراشی مقصود نہیں لیکن نااہلی تو واضح ہے۔ کیا ہم نے اس عظیم سانحہ سے کوئی سبق سیکھا۔ بچے سے کھلونا اسی وقت ٹوٹتا ہے جب وہ اسے سنبھال کراستعمال نہیں کرتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں حکمرانی مخصوص گھرانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے کیا وجہ ہے کہ کوئی عام آدمی اس ذمہ داری کو اٹھانے کو تیار نہیں، کیوں کوئی اور اس ملک کی خدمت نہیں کرنا چاہتا دراصل یہ جدی پشتی سیاستدان جان چکے ہیں کہ اس ریوڑ نما قوم کو کس طرح سے ہانکنا ہے اور غربت مٹانے کے نام پر کس طرح سے اپنے خزانے بھرنے ہیں۔ عوام کو الجھائے رکھا اور عوام کے نام پر دنیا سے قرضے لیتے گئے اور اپنی جیبیں بھرتے گئے۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں سرکاری ادارے تو خسارے میں چل رہے ہیں اورلیکن حکمرانوں کے کارخانے سونا اگل رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کو جب کسی نے للکارا تو یہ بیچارے جمہوریت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئے اور ہم آواز ہوکرماتم کرنے لگے۔ ہمارے حکمرانوں نے یہ بہت اچھی طرح جان لیا کہ کسی میں ہمارا ہاتھ روکنے کی ہمت نہیں ہے اسلئے پاکستان کو مال غنیمت سمجھ کر بس آپسی بٹوارے میں مصروف رہے، دوسری طرف عام پاکستانی مختلف پاٹوں میں پستا چلا گیا اور اسے حالات نے چور، ڈاکو یا پھر ٹارگٹ کلر بنا کر رکھ دیا۔
بد قسمتی سے آج تک کسی کام کیلئے کوئی منظم حکمتِ عملی مرتب نہیں دی جاسکی، شائد ہی کوئی ایسی حکمتِ عملی ہو (سوائے بھارت کیخلاف)جس پر تمام سیاسی معززین بغیر اختلاف کے متفق ہوتے ہوں۔ ملکوں کی خارجہ پالیسی وقت اور حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترتیب دی جاتی ہے اور اتنی لچک رکھی جاتی ہے جس میں تناؤ جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہو، ایسی ہی دفاعی حکمت عملی اور ایسے ہی خزانے کے امور ترتیب دینے چاہیں۔ ہم قدرت کی دی ہوئی نعمتوں کو سنبھالتے نہیں ہیں، جب کوئی چیز ملی اسے استعمال کیا اور جب اس سے دل بھرگیا تو اس چیز کی بغیر کسی مناسب دیکھ بھال کہ چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ اگر نعمتوں کی قدر نہیں کی جائے گی تو نعمتیں متروک ہوجائینگی، اسے قدرت کی خصوصی عنایت سمجھ لیں کہ پاکستان کی کس کس طرح سے نا قدری کی گئی لیکن قدرت نے اپنی نعمتوں، اپنی رحمتوں کے تسلسل میں کمی نہیں آنے دی۔ یو ں تو قدرت نے انسان کی فطرت میں جلدبازی رکھی ہے اور اس جلدبازی پر قابو پانے والوں کو بلند مقام عطاء فرمائے ہیں۔ لاپرواہی بھی ہمارا قومی شعار ہے۔ بنیادی معاملات پر دھیان نہیں دیتے گلی کے کونے پر بیٹھ کر جہاں گٹر کا پانی تعفن پھیلارہا ہوتا ہے، امریکہ اور روس کے حالات پر تبادلہ خیال چل رہا ہوتا ہے۔
تکنیکی ترقی کے اس دور میں ہم نے اچھے سے اچھے موبائل فون خرید لئے ہیں شائد یہ سہولت ایسے لوگوں کے پاس بھی موجود ہے کہ جن کے گھروں میں دو وقت کا کھانا مشکل سے پکتا ہو، پاکستان میں ہر سطح پر بنیادی امور کو نظر انداز کیا جاتا ہے حکمت عملی مرتب دینے میں غفلت برتی جاتی ہے اور نا معلوم کام ادھورے چھوڑ دئیے جاتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ اس عمل سے ملک کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ ایسے بے تحاشہ منصوبے ہمارے ارد گرد دیکھائی دیتے ہیں جن پر لگنے والی لاگت کو زنگ لگ رہا ہوتا ہے۔ نعمتیں متروک ہوجاتی ہیں۔ فصلوں کو ضرورت سے زیادہ پانی ملنا بھی نقصان دہ ہوتا ہے اور اس بار بارانِ رحمت ایسا برس رہا ہے کہ تیار فصلیں نقصان کی ذد میں آچکی ہیں اور آنے والے وقت میں غذائی اجناس کی قلت کے اندیشے کی تنبیہ کی جارہی ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج ہے اس نظام نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ نظام میں خامی ہے یا پھر اس پر عمل درآمد کروانے والوں میں خامیاں ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر کوئی نظام ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے تو اسے تمام ارباب اختیار بیٹھ کر کسی بھی دوسرے بہتر نظام سے بدل دیں یہ کیا کہ اسی خراب نظام کو گھسیٹتے رہیں اور ویسے بھی اس نظام کی مرہون منت نام نہاد سیاستدانوں نے ملک کو خوب لوٹا ہے اور بیرونِ ملک اثاثے بنائے ہیں۔ ایسا کوئی بھی نظام جو ملک کیلئے نقصان دہ ہو بدل دینا چاہئے۔ ویسے تو واحد نظام ساری دنیا کیلئے بہترین ہے اور وہ ہے خلافت جوکہ صدارتی نظام سے کسی حد تک مناسبت رکھتا ہے۔
موثر حکمت عملیوں کی عدم دستیابی کے باعث ملک غیر موافق حالات میں ہمیشہ مشکلات کی زد میں آجاتا ہے۔ اب جبکہ دشمن نے ہمیں پانی کی فراہمی روکنے کی اور خشک سالی سے برباد کرنے کی دھمکیاں دیں تو بارانِ رحمت نے جوش مارا اور اتنا پانی آسمان سے برسا دیا کہ اگلے کئی سالوں کیلئے کافی ہوسکتا تھا لیکن پانی کی باقاعدہ ذخیرہ اندوزی کا کوئی انتظام نہیں ہونے کی وجہ سے دشمن خوش ہی ہورہا ہوگا، فصلیں الگ تباہ ہورہی ہیں۔ یہ حالات تشویشناک ہیں لیکن کوئی بات نہیں پاکستانی تو پیدا ہی تشویشنا ک صورتحال میں ہوتے ہیں اور ایسے ہوجاتے ہیں کہ اگر حالات ٹھیک ہوجائیں تو پریشان ہوجاتے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ آج دنیا میں بڑھنے والی نفسا نفسی یا بد امنی کے پیچھے ایک دوسرے سے ہر حال میں(بغیر ادب و احترام کے) آگے بڑھنے کی جستجو ہے یا پھر خوب سے خوب تر کیلئے کی جانے والی تگ و دو؟ ہمارے درمیان اب صبر نہیں رہتا جسکی وجہ سے حدوں کا تعین کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے اسے جلد از جلد استعمال کرلینے کی چاہ نے آنے والے وقت میں پوشیدہ محرومیوں کو کھول کر رکھ دیا ہے لیکن جب تک ان محرومیوں کی نظر نہیں ہوجاتے ہمیں یہ نظر ہی نہیںآتیں۔
حکومتِ وقت کی کوششیں ہیں کہ وہ بنیادی مسائل پر خصوصی توجہ دے، ان لوگوں میں پاکستان سے محبت کا جذبہ بیدار کیا جائے جو مدتوں سے پاکستان سے ناراض ہیں۔ لیکن مخالفین حکومت کا دھیان بانٹنے میں مصروف ہیں یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی کمزور ہوتی بنیادیں مضبوط ہوں کیونکہ انکی سیاست چلتی ہی عوام کو پیسنے میں ہے، یہ تفریق پیدا کرنے والے لوگ ہیں انہیں اپنے مفادات کی فکر رہتی ہے یہ صرف اپنے گھروں کو بجلی کی فراہمی بلاتعطل چاہتے ہیں یہ صرف اپنے گھروں میں صاف پانی دیکھنا چاہتے ہیں ان کی صحت پر صرف اس وقت فرق پڑتا ہے جب انہیں عوام کیلئے کچھ کرنا پڑجائے۔