معلوم نہیں لیکن سننے میں آیا ہے کہ کچھ پاکستانیوں نے بھارت کی برطانیہ کیخلاف جیت کیلئے بہت دعائیں کیں اور برمنگھم میں موجود پاکستانیوں نے بھارت کی بھرپور حمایت کی لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا، یعنی بھارت نے برطانیہ کو جیت کا ہار اپنے ہاتھوں سے پہنادیا۔ دنیائے کرکٹ کے شائقین بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کا کھلا دشمن ہے اوروہ اس دشمنی کو کھیل کے میدان تک لے آیا۔ دنیا گواہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کو ہر طرح سے خطے کے امن و امان کو بحال رکھنے کی تلقین کی ہے ہاں حسبِ ضرورت حساب کتاب اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے اپنی طاقت اور جذبہ سرشاری کے جوہر بھی دیکھائے ہیں۔
پاکستان نے بھارتی جاسوس کلبھوشن سدھیر جاویو کو حراست میں لیا جس پر اسنے اپنے سارے کارنامے قبول ہی نہیں کئے بلکہ اور بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھایا لیکن پاکستان نے اس گھمبیر معاملے کو بہت نرمی سے لیااور اسکے بعد بھارتی فضائیہ کی پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کہ جواب میں کی جانے والی کاروائی کے دوران ایک عدد بھارتی پائلیٹ ابھی نندن کو بھی وردی میں گرفتار کیا اور اس حقیقت کو ساری دنیا نے دیکھا، امریکہ، روس اور اقوام متحدہ نے بھی دیکھا لیکن کہیں سے کسی قسم کی کوئی سرزنش یا بھارت کیخلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یوں تو پاکستان نےہمیشہ امن کی بات کی ہےیہ مودی جی کی سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب کے خاندان کی شادی میں شرکت کے اس انداز کو بھی جذبہ خیر سگالی کی منہ بولتی تصویر کہا جاسکتا ہے، پاکستان کی حکومت نے اس بھارتی پائلیٹ ابھی نندن کی خوب خاطر توازہ کی اور اسے بھارت کہ حوالے کر دیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں غیر مستقل نمائندے کے حق میں بھارت کیلئےووٹ دیا یہ ایک سفارتی (ڈپلومٹک) طرز کی حمایت ہے لیکن ہے تو حمایت ہی۔
پاکستانی افواج نے دنیا میں ناصرف اپنی طاقت بلکہ اپنی بہترین منصوبہ بندی کو بھی منوایا ہے۔ پاکستان میں پہاڑوں میں لڑی جانے والی جنگ کا موازنہ اگر افغانستان میں اتحادی افواج کی لڑی جانے والی جنگ سے کیا جائے تو دونوں میں کافی حد تک مماثلت پائی جائے گی۔ پاکستان نے اپنی اس دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں بہت حد تک قابو پایہ ہے جبکہ اتحادی افواج کو ابھی تک مزاحمت کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے، دراصل یہ مزاحمت نہیں بلکہ اتحادیوں اور اسکے سربراہ امریکہ کی شکست کا پول کھل رہا ہے۔
بات ہورہی ہے پاکستان کی عسکری قوت کی تو پاکستانی فوج دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جبکہ بھارت کا دوسرا نمبر ہے۔ ہم اعداد و شمار کے لحاظ سے بھارت کے آس پاس بھی نہیں ہیں لیکن بھارت ہمارے عزم، حوصلے اور جذبہ شہادت کے کہیں دور دور تک بھی نہیں ہے۔ ہمارے فوجی جوانوں نے اس وطن عزیز کی خاطر نا اپنی عمروں کو نا اپنی خواہشوں کو خاطر میں رکھا ہے، ہمیشہ جان ہتھیلی پر لئے ناصرف اپنی سرحدوں کی حفاظت پر معمور ہیں بلکہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے۔ یہ ہے پاکستان کی فوج کا بہت تھوڑاسا تعارف اور مجھے یقین ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اچھا تعارف بھارتی خود کرسکتے ہیں۔ ایسی فوج رکھنے کے باوجود پاکستان نے کبھی کسی قسم کی دراندازی کی کوشش نہیں کی بلکہ بھارت کو جراحی حمولوں (سرجیکل اسٹرائیک )کی بھی صحیح سمجھ بوجھ سے آگاہ کیا ہے۔
بھارت کا برطانیہ کیخلاف میچ ہارنے پر ہم پاکستانیوں کو اسقدر حیرت زدہ یا پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں تھی اور جن لوگوں نے یہ آس لگائی تھی کہ بھارت کرکٹ کھیل کر میچ جیت جائے گا تو انہیں ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بھارتی قوم مودی سرکار کو دوبارہ جتواکر اپنی بیمار ذہنی کیفیت سے ساری دنیا کو روشناس کرواچکی ہے، بھارتی ٹیم پاکستان کی راہ میں ہر ممکن کانٹے بچھائے گی چاہے انکا اپنا آپ مشکل میں کیوں نا پڑجائے۔ بات یہاں تک محدود نہیں رہی ہے بھارت نے اس نفرت کی آگ کو ہمارے چاروں طرف لگا دیا ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت افغانستان کے ساتھ کھیلے جانے والے میچ میں ساری دنیا نے دیکھا۔ نفرت کا ایسا رنگ اور وہ بھی کھیل کے میدان میں انتہائی ناقابل یقین ہے۔ اس میچ کو لے کر افغانی باشندوں کی جانب سے تشدد کے واقعات انتہائی قابل مذمت ہیں۔ اسلامی بھائی چارے کی دھجیاں اڑائی گئیں اور اسلامی برادری کو دنیا کے سامنے تماشا بنایا گیاہے۔ اس پر برمنگھم کی فضاؤں میں بلوچستان کو انصاف دو کا بینر، پاکستان کی ٹیم کیلئے میدان میں کھیلنا کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں رہا ہوگا۔ ابھی یہی بھارتی ٹیم اپنے اگلے میچ کیسے جیتے گی یہ بھی ہم دیکھینگے اگر ان کا بس چلتا یا یہ میچ نیوزیلینڈ اور انگلینڈ کے بعد ہوتا تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔ ساری دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح سے بھارت نے پاکستان کیخلاف نفرت کی آگ لگائی ہوئی ہے اور وقت یہ ثابت کرے گا کہ بھارت اپنی اس نفرت کی آگ میں خود ہی جھلس کر بھسم ہوجائےگا۔
بین الاقوامی کرکٹ کونسل اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری بنتی ہے( اگر یہ خود مختار ادارے ہیں ) کہ وہ پہلے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے میچ میں بدنظمی اور بدمزگی اور تشدد کے واقعات کے حقائق منظر عام پر لائیں اور بھارت اور انگلینڈ کے میچ کی بھی تحقیق و تفتیش کروائیں۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے لیکن کھیل کا اصل رنگ ہم آہنگی اور امن کا پیغام ہوتا ہے۔ تقریباً دو ارب کے قریب لوگ کرکٹ کے عالمی کپ کے مقابلوں کو دیکھ رہے ہیں اور جب کھیل کی ابتداء میں سکے کی مدد جس جگہ ٹاس کی جاتی ہے یعنی جہاں سکے نے گرنا ہوتا ہے وہاں سب نے لکھا دیکھا ہے کہ انگریزی میں " کرکٹ اچھائی کیلئے "، لیکن کیا یہ پاکستان کیلئے نہیں ہے۔
پاکستان اور پاکستانی چاہے دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں امن پسند ہیں اور ہماری یہ امن پسندی ہمارے ایمان کی بدولت ہے جو کہ ہماری طاقت بھی ہے۔ دنیا کو چاہئے کہ وہ بھارت کی لگائی نفرت اس آگ کو بجھانے میں پاکستان کی کوئی عملی مدد بھلے نا کرے لیکن کم از کم سماجی میڈیا پر تو مذمتی کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے ادارے بھی افغانی باشندوں کی عملی غنڈہ گردی کانوٹس لے۔ کھیل کو کھیل ہی رہنا دیا جائے تو اچھا ہے ورنہ سرحدوں کو پار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔