1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. پاکستان اور مشکل فیصلے!

پاکستان اور مشکل فیصلے!

کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں شرکت کیلئے پاکستان کی پندرہ رکنی ٹیم کا گزشتہ دنوں اعلان کردیا گیا اور اس کی ذمہ داری چناؤ کمیٹی کے سربراہ انضمام الحق نے کیا۔ انضمام الحق نے اپنی بلے بازی سے دنیا میں صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور آج چناؤ کمیٹی کہ سربراہ بنے بیٹھے ہیں۔ ناقدین کا کام ہے تنقید کرنا محمد عامر کو عالمی مقابلوں کیلئے منتخب کی گئی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا گیا لیکن انہیں عالمی مقابلوں سے قبل انگلینڈ میں ہونے والی پانچ ایک روزہ میچوں کی سریز کیلئے نامزد کرلیا گیا ہے اور انہیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ماحول سے اپنی مطابقت ثابت کریں اور اپنا قیام عالمی مقابلوں میں یقینی بنائیں۔ پہلی بات یہ کہ فیصلہ کرنے والوں کو قدرت کی جانب خصوصی صلاحیتیں دی جاتی ہیں بس اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بچنا اور ہواؤں کے رخ کو سمجھنا ان کو دی گئی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کیلئے ان پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مشکل فیصلے کرنے کی نوبت ہی کیوں آتی ہے کیوں روائیتی فیصلوں سے ہی کام نہیں چلایا جاتا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا چناؤ بہترین دستیاب کھلاڑیوں پر کیا گیا ہے اب کوئی مقابلوں کے دوران اپنی کارگرگی سے دنیاحیران کریگا اور کوئی پاکستان کی چناؤ کمیٹی پر سوالیہ نشان بنے گا۔ یعنی ہر فیصلہ کی اہمیت وقت ثابت کرتا ہے اور فیصلہ کرنے والے کی دوراندیشی اور معاملہ فہمی کی گواہی دیتا ہے۔ خصوصی طور پو ایسے فیصلے جن پر آپ کواپنی انا قربان کرنی پڑے لازمی قابل ستائش ہوتے ہیں۔
پاکستان کے حکمرانوں نے شائد ہی کبھی مشکل فیصلے کئے ہوں۔ بجلی کے نرخ بڑھانے تھے بڑھا دئیے، پیٹرول کی مد میں پیسے بڑھانے تھے بڑھادئیے، یعنی جہاں جہاں ضرورت پڑتی گئی مہنگائی ہوتی چلی گئی، قرضے لینے تھے لے لئے۔ ایک طرف تو مہنگائی کی گئی تو دوسری طرف ٹیکس بڑھادئیے گئے۔ قرض لیتے رہے اور معیشت کو چلانے اور مستحکم دیکھانے کی ناکام کوششیں کرتے رہے۔ ہمارے حکمران عیش و عشرت کے عادی ہیں، انتخابات کی مہم کے دوران کئے جانے والے جلسوں اور جلوسوں میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد اور اگر جیت گئے تو پھر: تو کون اور میں کون:کے فلسفے پر گامزن ہوجاتے ہیں، کسی غریب سے ہاتھ بھی ملا لیں تو سو سو بار دھونا پڑتا ہے۔ اگر کسی نے فیصلہ لیا بھی تو اسکے اثرات عوام پر اسکے جانے کے بعد آئے اور وہ بھی منفی۔ ہم نے آج تک نہیں سنا کہ جانے والی حکومت نے جو کام کئے ان میں سے اکثر ملک کے مفاد میں تھے بلکہ یہی سنتے آرہے ہیں کہ جانے والی حکومت نے ملک کو دیوالیہ کر کے چھوڑا ہے۔ جبکہ ملک کو دیوالیہ کرنے والے بھی وہیں موجود ہوتے ہیں اور بلند و بانگ دعوے کرتے سنائی دیتے رہے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہوتا رہا ہے اور حکمران دنیا کے خوشحال ترین لوگوں کی فہرست میں اوپر سے اوپر کھسکتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان میں بغیر کسی وجہ کہ کسی وزیر یا مشیر کو تبدیل کرنے کی روایت نہیں ہے، جس نے ایک دفعہ مسند سنبھال لی تو وہ حکومت کے خاتمے تک اس کرسی سے ہل نہیں سکتاسوائے اسکے کہ کسی لاقانونیت کا مرتکب ہوجائے۔ یہاں تو کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے والے کھلاڑی بھی اپنی جگہ کسی کو خوشی سے دینے کو تیار نہیں ہوتے ان کی بھی خواہش یہی ہوتی ہے جب تک ممکن ہوسکے ٹیم کا حصہ بنے رہیں۔ ہمارے ملک میں اہلیت کے اگر کوئی معیار ہیں توانہیں پوشیدہ رکھا جاتا ہے کیوں کہ وقت اور حالات اہلیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ جب اہلیت کا پیمانہ واضح نہیں ہوگا تو کس طرح سے کسی کواہل یا نااہل قرار دیا جائے گا۔ جیساکہ یہ بات پہلے بھی زیر بحث آچکی ہے کہ موجودہ حکومت پیشہ ورانہ طرز پر کام کرنا چاہ رہی ہے، یعنی تمام وزراء اپنی کارگردگی کی بنیاد پر اپنی اپنی جگہ پر قائم رہ سکتے ہیں بصورت دیگر انہیں دوسروں کیلئے اپنی جگہیں چھوڑنی پڑیں گی یعنی ملک کی جیت کیلئے اپنی کرسی کی قربانی دینی پڑے گی اور اپنے نمبر پر کسی اور کو بلے بازی یا گیند بازی کیلئے بھیجنا پڑیگا، اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ اپنی جگہ آنے والے کی دل سے حوصلہ افزائی بھی کرینگے۔ کہنے والے موجودہ حکومت کوطنزاً تبدیلی سرکار بھی کہتے ہیں (کیونکہ تحریک انصاف نے تبدیلی کا وعدہ کررکھاہے)۔ قابل احترام اسد عمر صاحب کے وزارتِ خزانہ کے عہدے سے سبکدوش ہونے سے لوگوں کو دکھ ہوا ہے اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ اسد عمر صاحب کے علاوہ خان صاحب کی ٹیم میں کوئی اور ایسا حساب کتاب والا کھلاڑی نہیں دیکھا جاسکتا اور ویسے بھی یہ صاحب اپنی محنت سے ایک کامیاب زندگی گزارتے آئے ہیں۔ اسد عمر صاحب کو وزارت سے ہٹانے کو اگر ہم صرف پیشہ ورانہ اصولوں پر پرکھیں تو نا ہمیں دکھ ہوگا اور نا ہی ہم کسی کے بہکاوے میں آئینگے اور ہم پر یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ کسی بھی سازش کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس سارے معاملے پر شک وہ لوگ کرسکتے ہیں جنہیں موجودہ حکومت اور وزیر اعظم پاکستان کی نیک نیتی پر شک ہو۔ تنقید کرنا بری بات نہیں ہے لیکن تنقید سے اصلاح کا پہلو نکلنا چاہئے ناکہ صرف وقت اور حکومت کا وقت ضائع کرنے کے بہانے تلاش کئے جائیں۔
وزارتوں کی یا اپنے کھلاڑیوں کی تبدیلی اس بات کی گواہی ہے کہ اب صرف وہی اقتدار کا حصہ بنے گا جو اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے عوام کی اور ملک کی خدمت کرکے دیکھائے گا، ناکہ محلاتی سازشوں کا حصہ بنے گا۔ ٹرین اگر پٹری سے اترجائے تو اسے کرین کی مدد سے مال گاڑی میں ڈال کر لے جاتے ہیں اور اسکی جگہ دوسری ٹرین آجاتی ہے لیکن اب کی بار پٹری سے اتری ہوئی ٹرین کو واپس پٹری پر لانا ہے ناکہ نئی ٹرین کیلئے راستہ صاف کرنا ہے۔ ایسے کاموں میں مشکلات تو آتی ہیں لیکن ان سازشیں کرنے والوں سے چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان کو کھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان ورلڈ کپ بھی جیت کر آئے گا اور حکومت وقت اپنے ممکنہ احداف بھی حاصل کرے گی انشاء اللہ کیونکہ مشکل فیصلوں پر قائم رہنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑے فیصلے کرنے والے قدرت کے خاص لوگ ہوتے ہیں۔