بہت مشکل ہے کہ ہم بغیر نافرمانی کئے اپنا سفر جاری رکھ سکیں، یہ نافرمانی کا سفر گھر سے شروع ہوتا ہے، معاشرے کی مختلف راہداریوں سے گزرتا ہوا اپنے رب کی نافرمانیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ نافرمانی ایک ایسا عنصر ہے جو باضابطہ زندگی میں دراڑیں ڈالتے ہوئے توڑپھوڑ کا سبب بنتا جاتاہے۔ انسان فطرتاً خود پسند واقع ہوا ہے اپنی کہنا اورکہنے پر واہ واہ سننا پسند کرتا ہے جہاں کہیں باد مخالف کا سامنا ہوا فوراً ادب لحاظ تمیز سے رسی تڑوالیتا ہے اور کسی مرکھنے بیل کی مانند دوڑ پڑتا ہے (ڈارون کے زمانے میں شائد ایسے انسان زیادہ ہونگے)۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عورت کو سمجھنا ناممکن ہے حقیقت تو یہ ہے کہ مرد ہو یا عورت دونوں کو ہی سمجھنا ناممکن ہے (کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ جسکی ایک پسلی میں اتنی شرارت ہے تو پورے جسم میں کیا ہوگا) فرق اتنا ہے کہ مرد معاملہ فہمی کی وجہ سے وقتی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور معاملے کو کسی اورموضع وقت کیلئے اٹھا رکھتا ہے جبکہ عورت اسکے برعکس ردعمل پیش کرتی ہے اور مرد کو یہ کہنے پر مجبور کردیتی ہے کہ وہ عورت کے معاملے میں تادم مرگ ناسمجھ رہیگا (آج دنیا میں عورتیں اداروں میں بڑے بڑے عہدوں کیساتھ بعض ممالک کی حکومتیں بھی چلا رہی ہیں)۔
لکھنے والا معاشرے سے کشید کرتا ہے پھر اپنی سمجھ بوجھ سے لکھتا ہے، پڑھنے والا اسے اپنی سمجھ سے پڑھتا ہے۔ شائد لکھنے والے اور پڑھنے والے سطحی ذہنیت کے مالک ہوں، کیوں کہ جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نسخہ لکھتے ہیں انکے پڑھنے والے بھی انکی ہی سمجھ سے پڑھتے ہیں، جن کی مقدار تقریباً آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ضرورت کو ایجاد کی ماں قرار دیا گیا ہے، انسان کو اپنی سہولیات کیلئے جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی وہ اس طرح سے ایجادات کرتا چلا گیا۔ یہ ایجادات کاروبار کی صورت اختیار کرتی چلی گئیں۔ اچھا ہے یا برا ہے انسان ایک دوسرے سے سیکھتا جارہا ہے، وقت اچھے کو اچھا اور برے کو برا ثابت کرتا ہے ہر انسان ذاتی تجربے پر یقین رکھتا ہے۔ انسان کو کاروبار بڑھانے کیلئے یعنی اپنی ایجادات کے بارے میں آگہی فراہم کرنے کی ضرورت پیش آنا شروع ہوئی یقینا پرچہ یا کتابچہ (پمفلیٹ) چھاپنے یا لکھ کر تقسیم کرنے کا خیال آیا اس طرح سے تشہیر شروع ہوئی، پھر ریڈیو آگیا اور پھر ٹیلیویژن ہر گھر کی زینت بن گیا۔ گوکہ آج کہ اس جدید ترین دور میں بھی مشہوری چھاپے خانے کام کر رہے ہیں، بلکہ ہمارے ملک سمیت دیگر ممالک میں تو آج بھی دیواروں، بسوں اور ذرائع آمد و رفت پر بھی لکھ کر مشہوری کی جارہی ہے۔ مشہوری بنیادی چیز ہے اب کس چیز کی مشہوری کی جارہی ہے اس بات کیلئے معاشرتی سوچ طرز معاشرت کی عکاسی بھی ہوتی ہے ایک بڑی ہی عام سی مشہوری کی عبارت دیواروں پر لکھی دیکھائی دیتی ہے کہ محبوب آپ کے قدموں میں، عالم بنگالی بابا، اس طرح کی بہت ساری عبارتیں دیواروں پر لکھی دیکھائی دیتی ہیں۔
اپنی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے ایجادات کرتے کرتے ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوگئے اور اپنے ساتھ ڈیجیٹل (عددی) دور کو لے آئے، انٹرنیٹ نے ساری دنیا کو ایک کلک کی دوری پر لاکھڑا کیا اب بات شائد ضرورت سے دنیا کو ایک جگہ اکھٹے کرنے کی طرف چلی گئی۔ بغیر دنیا کی توجہ کی طلب کہ دنیا کی توجہ ایک طرف ہوتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا جہان میں رہنے والے پل بھر میں ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ اب مشہوری کے نئے در کھلتے چلے گئے، بغیر کسی کا احسان لئے، بغیر کی منت سماجت کئے، بغیر کسی سفارش کے دنیا کی نظروں میں جوتوں سمیت داخل ہوتے چلے گئے، یو سمجھ لیجئے کہ شہرت آپکے پیچھے پیچھے گھوم رہی ہے اب یہ آپ کی قابلیت ہے کہ آپ اس سے گلے ملنے کی اہلیت رکھتے ہو یا نہیں۔ دنیا نے نجی حیثیت میں منظر عام پر آنے والے سماجی میڈیا پرکسی قسم کی توجہ دینا شائد نا مناسب سمجھا یا اسے معاشرے کیلئے مضر نا سمجھتے ہوئے بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کہ آزادی سے پھلنے پھولنے دیا۔ دیکھاجائے تو انفرادی طور پر تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ایک سہولت جو دنیا جہان میں اجتماعی مشہوری کا سبب بن رہی ہے۔
دنیا کی ترقی نہیں بلکہ دنیا کو ترقی یافتہ دیکھانے میں سماجی میڈیا نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف سماجی میڈیا بے حیائی کا پلندہ ہے تو مذہب اور تہذیب کا بھی درس عام کر رہا ہے، کسی کی زندگی کا سبب بن رہا ہے تو کسی کو موت کے گھاٹ بھی سماجی میڈیا پہنچا رہا ہے، کسی کو بنانے اور بگاڑنے میں بھی سماجی میڈیا ذمہ داریاں نباہ رہا ہے اور سب سے بڑھ کر ایک عام آدمی کو خاص بنانے میں سماجی میڈیا نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ سماجی میڈیا کو صرف تنقید کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ آج دنیا میں کتنے ہی ایسے کام جس کیلئے نامعلوم بکھیڑوں کو جھیلنا پڑتا تھا، گرد مٹی میں اٹنا پڑتا تھا بس گھر بیٹھے ہی ہوجاتے ہیں، معلوم نہیں کتنی قانونی کاروائیاں سماجی میڈیا پر ہی نمٹا دی جاتی ہیں اور کتنے انتخابات بھی سماجی میڈیا کے توسط سے سرانجام پا رہے ہیں۔ غرض یہ کہ سماجی میڈیا نے تمام حدوں کی حدیں لامحدود کر دیں۔ گلوبل ویلیج کے تصور کو یقینی بنادیا ہے۔
جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں سماجی میڈیا پر موجود لوگ اپنے اپنے معاشروں کی عکاسی کرتے ہیں، جس طرح کی گفتگو کرتے ہیں یا پھر کسی کی گفتگو یا مباحثے کا حصہ بنتے ہیں یا سماجی میڈیا پر جو کچھ بھی شائع کرتے ہیں وہ آپکی اور آپکے معاشرے کی آپ کے ذاتی حسب نصب کا اشتہار ہوتا ہے۔ پہلی بات جو قابل ذکر ہے کہ دنیا کو سماجی میڈیا کی ضرورت پڑی کیوں؟ اور اگر سماجی میڈیا عام ہونے بھی جا رہا تھا تو اس وقت حدود کیوں متعین نہیں کی گئیں؟ یاپھر یہ ایک سوچی سمجھی تحریک، جس کا علم شائد ان سماجی میڈیا بنانے والوں کو بھلے ہی نا ہوا ہو لیکن دنیا کی باگیں ہلانے اور روکنے والے تھنک ٹینک اس مستقبل کے ہتھیار سے کسی حد تک تو آگاہ ہونگے اور یہ انکی سمجھ کا ہی نتیجہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں رہنے والے عام لوگوں کو اس میں صحیح طرح سے الجھا کر اب انہیں محدود کرنے کی کوششوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ یقینا یہ لوگ اب سوچ رہے ہونگے کہ کیا واقعی لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ انہیں یہ خوف نہیں ہے کہ انکے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ان سماجی میڈیا جیسے اداروں کو چلانے والوں کا کوئی مذہب یا کوئی ملک یا ان سے وابسطہ مفادات نہیں ہونگے۔ دور حاضر میں جاری ظلم و بربریت کی ترویج پر محدود پیمانے پر دیکھانے اور اپنی مرضی کے لوگوں پر پابندی عائد کرکے داخلہ سماجی ویب پر بند کردیا جائے۔
دنیا میں سماجی میڈیا کہ حوالے سے ضابطہ اخلاق پر مباحثے کافی عرصہ قبل شروع ہوچکے ہیں، جسکی وجہ کارحکومت میں دخل اندازی اور حکومتی فیصلوں پربھرپور عوامی ردِ عمل کیساتھ ساتھ ہتک ِ عزت بھی شامل ہے۔ ہمیشہ ضابطہ اخلاق یا حدود کا تعین کرنے کی بات وہاں سنائی دیتی جہاں اختلاف رائے برداشت کرنے کا حوصلہ نا ہو یا پھر اختلاف رائے کرنے کا طریقہ درست نہیں ہو۔ امریکی حکومت کو اپنے ساتھ بین الاقوامی روئیے کی وجہ سے اندرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یورپ، روس اور تقریباً ہر جگہ ہی سماجی میڈیا کو لیکر ایک جیسی ہی صورتحال ہے، جہاں زیادہ خرابیاں ہیں وہاں سماجی میڈیا اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کیلئے زیادہ درد سر بنا ہوا ہے، بھارت کو لے لیجئے یقین ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت کو گرانے کیلئے سماجی میڈیا ہی بنیادی عنصر ثابت ہوگا تب ہی تو کشمیر میں ہر قسم کے سماجی میڈیا کو ہر ممکن طریقے سے بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجودہ پاکستانی حکومت نے سماجی میڈیا کی بھرپور مدد حاصل کی اور اقتدار تک پہنچنے کیلئے خوب استعمال کیا۔ اب جب کہ اقتدار میں بیٹھے تقریباً ڈیڑھ سال سے زیادہ ہوگیا ہے توسماجی میڈیا کیلئے قوانین بنانے یعنی قدغن لگانے کی ناصرف باتیں کی جارہی ہیں بلکہ زور وشور سے کی جارہی ہیں۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ دنیا جہان میں سماجی میڈیا ایک ایسا خوفناک و بے قابو جن بن چکا ہے اس بات کا ادراک حکومت مخالف جماعتیں بھی کرینگی چاہے وہ ابھی قوانین بنانے کے خلاف بھرپور تحریک چلاتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ کو کس طرح سے اور کن ضابطوں پر اختیار صادر کیا جائے گا۔ اگلے مضمون میں قوائد و ضوابط پرروشنی ڈالنے کی کوشش کرینگے۔