نجانے کتنی بار کپڑوں کو چیتھڑے کر دینے والی نوک دار قینچی اس کے بدن سے ٹکرائی ہو گی اور ہر خراش کے ساتھ ذلت کا زہر آلود خنجر اس کے جسم میں اتارا گیا ہوگا۔ یہ زہر تمام عمر دھیرے دھیرے ایک رستے ہوئے زخم کی طرح ناسور بن کر اس کے دل و دماغ کو مفلوج کر ڈالے گا۔ اسلحے سے لیس مردوں سے مقابلہ کرنے پر نہتی لڑکی کو نجانے کتنی بار زمین پر پٹخا گیا ہو گا۔ نامحرم ہاتھوں نے اسے اپنے بس میں کرنے کے لیے کہاں کہاں چھوا ہو گا۔ اس کے دل پر کیا گزری ہو گی جب اس کی عم زاد نے اپنے دوپٹہ کی آڑ میں اس کے برہنہ جسم کو چھپانے کی کوشش کی اور ظالموں نے اس اوڑھنی کو بھی نوچ ڈالا۔
سولہ سالہ شریفاں شرافت کی مالا جپنے والوں کے ہاتھوں اپنی تذلیل کرواتے کرواتے ادھ موی سی ایک تصویر سی دکھتی تھی۔ وہ جس کے چہرے کو بھی شاید کسی نے عریاں نہ دیکھا تھا اس کا انگ انگ لوگوں کی نگاہ کا مرکز بن گیا تھا۔ موبائل کیمروں کی آنکھ میں منجمد یہ لڑکی در در پر آبرو بچانے کے لیے تڑپتی تھی اور کوئی چارہ ساز نہ تھا۔ ہر چوکھٹ سے اسے مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا تھا۔ ایک دروازے سے دوسرے دروازے کا سفر گزارے نہ گزرتا تھا۔
یہ لڑکی عمر کے سنہری دور سے گزر رہی تھی۔ اس ہی دور مستی سے جب بچیوں کی رنگت کچھ بھی ہو، ان کے عارض دمک رہے ہوتے ہیں۔ آنکھیں دھڑکتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہونٹوں پر مسکان چٹکتی کلیوں کی طرح نمودار ہوتی ہے۔ ماتھا فکر زمانہ کی شکنوں سے پاک ہوتا ہے۔ رخ ایسا روشن رہتا ہے کہ شام میں روشنی بکھیر دیتا ہے۔ زندگی ایسے چلتی ہے جیسے شفاف بہتی ندی۔ قدم ایسے پڑتے ہیں جیسے پھولوں کا رقص مسلسل ہو۔ اور دل میں خوش فہمی ایسی کہ ہر آرزو کی تکمیل دو گام چلتے ہی ان سے لپٹ جائے گی۔
اسی بارے میں:۔ کیا میڈیا مارشل لاء کی راہ ہموار کر رہا ہے؟
پر اب یہ سب راکھ تھا۔ تھا تو چہرے پر وحشت کا صحرا، بکھرے باک، بے لباس کانپتا ہاپتا جسم، بدن کے ہر حصے پر مجمع کی جمی نظریں اور ہر نگاہ کا گھاؤ تیر سے بھی گہرا، گلے میں ذلت کا طوق، سر میں خاک، اور ماتھے پر کالک۔ دماغ میں خون ٹھوکریں مارتا تھا، ننگے پیروں میں کانٹے بھرے تھے۔ کانوں میں ذومعنی جملوں کا زہر اترتا تھا۔ آنکھوں میں لالی اور ان میں سے برستا پانی۔ بےبسی ایسی کہ اپنے آنسو بھی نہ پونچھ پائے۔ پونچھنے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھوں سے بچی کچی عزت بھی جائے۔ گاوں میں ایک میلہ سجا تھا۔ اس دھرتی کے اسٹیج پر ایک لڑکی کو بے لباس کھڑا کر کے عزت داروں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ چیخوں اور قہقہوں کا ملاپ ایک ساتھ بلند ہوتا تھا۔ مرکزی کردار نے سب کا دل موہ لیا تھا۔ ہر نگاہ اس پر ٹھہر گئی تھی۔ شریفاں اپنے بھائی کی غلطی کا عذاب بھگت رہی تھی۔ بھائی نے ایک لڑکی کو موبائل دینے کی خطا جو کر ڈالی تھی۔
انسانوں کے اس جنگل میں وہ اجاڑ درخت کی ماند کھڑی تھی۔ تندو تیز آندھی اس کا سب کچھ اپنے ساتھ اڑا کر چل دی تھی۔ امید کی کونپلوں سے بھرے درخت پر اب خزاں اپنے جوبن پر دکھائی دے رہی تھی۔ دو ہاتھ زرد پتوں کی طرح جسم کے دو حصوں کو ڈھاپنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور مجمح ان پتوں کے گر جانے کے لیے کسی ہلکے سے جھونکے کا منتظر تھا اور شریفاں کی مضطرب نگاہیں چنبیلی کی متلاشی تھیں۔ اس کا دل کسی چنبیلی کو پکار رہا تھا۔ ارے وہ ہی مسیحی عورت چنبیلی جس نے کئی برس پہلے نواب پور میں ایسے ہی قصے کا کردار بنے دو برہنہ جسموں پر چادر ڈالی تھی۔ اپنی چوکھٹ پر پناہ دینے کے بعد دروازے پر آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی تھی۔ بےضمیر مردوں کے ہجوم میں ایک نڈر عورت کیسے ان کا سائبان بن گئی تھی۔ کتنا جگرا رکھتی تھی وہ۔ مردوں کی للکار کو پیروں تلے روندتی ہوئی عورتوں کی عزت کی رکھوالن بن بیٹھی تھی۔ کیسی جی دار تھی۔ اس کا نام سنہری حروف سے نہ لکھنا ہماری مجبوری ہے کیوں کہ وہ ہمارے مذہب سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ہماری شریفاوں کو کبھی کوئی چنبیلی ملے گی بھی یا نہیں؟
بہ شکریہ: ہم سب