1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. لینہ حاشر/
  4. ہائے نی میں پتر کنوں آکھاں

ہائے نی میں پتر کنوں آکھاں

سیلاب ہر برس اسی روز آتا ہو گا، سارے حفاظتی بند باندھے جاتے ہوں گے، مگر تمام بند، تمام پشتے ناکارہ ثابت ہوجاتے ہوں گے۔ شہید بچوں کی یادوں کی شدت جب زور پکڑتی ہوگی تو مائیں سب حوصلے اور ساری ہمت ہار بیٹھتی ہوں گی، اور سیلاب تمام تر رکاوٹوں کو روندتا ہوا آنکھوں سے بہہ نکلتا ہو گا اور اس کے بعد ایک بار پھر ماؤں کا چہرہ سیلاب سے آنے والی تباہی کا منظر ہوگا۔

یہ دن کس طرح بیتے، کھوکھلے دعوے اور تسلیاں ان ماؤں کے زخموں کا مداوا نہیں کر سکتے۔ ان ماؤں نے سال کا ایک ایک لمحہ کس درد سے تکلیف سے اورکس کرب سے گزرا ہو گا کس کس بات پر کلیجہ منہ کو آیا ہو گا صبح سےجو یادوں کا تانتا بندھتا ہوگا وہ خوابوں میں بھی رہ رہ کر انہیں ستاتا ہوگا۔ جن آوازوں سے گھر صبح صبح گونج جایا کرتا تھا اب وہاں ویرانی نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں گے۔

ان بچوں کی مائیں روز مرتی ہوں گی۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کی چیزوں کو چھوتی ہوں گی اور ان کے لمس کو محسوس کرنے کی آرزو میں اس عمل کو بار باردہرایا جاتا ہو گا۔ اپنے بچوں کی جس بے ترتیبی پر وہ اکثر نالاں رہتی تھیں اور جس کو سنوارتے سنوارتے تھک جاتی تھیں آج اس کے کمرے میں ترتیب سے رکھی کتابوں کو دیکھ کر ماں کی سسکیوں کی گونج کمرے میں سنائی دیتی ہو گی۔ میز پر رکھے اس روزنامچے کے اوراق کو بار بار پلٹ کر دیکھتی ہو گی جس میں پندرہ دسمبر کے بعد کورے صفحات کا راج ہوگا۔

بستر پر بغیر سلوٹ کی چادر اس کی زندگی کی سلوٹوں میں اضافے کا باعث بنتی ہوں گی۔ الماری میں قطار سے لگے کپڑوں میں اپنے لخت جگر کی خوشبو کو محسوس کرتی ہوں گی۔ کمرے کے ایک کونے میں رکھے ہوئے گیند بلے کو دیکھتے ہی اس کو وہ اپیلیں سنائی دیتی ہوں گی جو زندگی کے آخری لمحے ظالموں سے کی گئی ہوں گی۔ گھنٹوں اس کی تصویر سے باتیں کرنے کے باوجود جواب خاموشی کے سوا کچھ نہ پاتی ہوگی۔ اپنے لاڈلے کی تمام گم شدہ اشیا کو تلاش کر کے سکتے کے عالم میں بیٹھی دروازے کو تکتی رہتی ہوں گی۔ اپنے آنچل سے اس کی تصویر پر پڑی گرد کو کئی بار صاف کرتی ہوگی جو خود منوں مٹی تلے سو گیا۔ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے زور زور سے اس کے نام کو پکارتی ہوگی اور ان کو اکثر آوازوں کی بازگشت سنائی دیتی ہوگی کہ ماں مجھے بھوک نہیں ہے، میرا یونیفارم کہاں ہے، میں نے کل میز کے پاس جوتے رکھے تھے کس نے اٹھائیں ہیں، میری کاپی کہاں ہے، میں آج لنچ نہیں لے کر جاؤں گا۔ ماں آج میرا فیورٹ کھانا پکانا۔ ماں مجھے نیند آ رہی ہے مجھے آج اسکول نہیں جانا۔ آج آوازوں کو سچ میں سنے کے لیے کس طرح ان ماؤں کے کان ترستے ہوں گے۔

وہ کاش کی دنیا میں جا کر زاروقطار روتی ہوں گی وہ کہتی ہوں گی کہ کاش ہماری زندگی میں وہ دن نہ آتا، کاش اس کی جگہ میں اس دنیا سے چلی جاتی، کاش میرا بیٹا دروازہ کھولے اور میرے سینے سے لگ کر میرے چہرے پر بوسہ دے، کاش وہ کہے کہ مجھے بھوک لگ رہی ہے میرا فیورٹ کھانا پکادو ان کی یہ آرزو ہوگی کہ کاش اس کی اسکول نہ جانے کی چھوٹی سی خواہش میں پوری کر دیتی۔ اپنے بچوں کو گور کے حوالے کرنے کے بعد اس کا وجود بھی زندہ درگور ہوگیا ہوگا۔ اپنے بچوں کے دوستوں میں اپنا بیٹا تلاش کرتی ہوں گی، ان کو پیار کرتی ہوں گی، جھولی پھیلا پھیلا کر ان کی لمبی زندگی کی دعائیں دے کر اپنی بھٹکتی ہوئی ممتا کو تسلی دیتی ہو گی۔

اس سانحے کے بعد وہ زندگی سے روٹھی روٹھی رہتی ہوں گی۔ ان ماؤں نے کھانا، پینا، ہنسنا اور بولنا سب چھوڑ دیا ہوگا وہ کھانے کے نام پر دکھوں اور سسکیوں سے اپنا پیٹ بھر لینے کے بعد آہوں سے بھرے گلاس کو پی لیتی ہوں گی، آنسوؤں سے غسل کرتی ہوں گی اور رات کو دکھوں کی چادر اوڑھتے ہوے اور یہ کہتے ہوئے سو جاتی ہوں گی۔ ہائے نی میں پتر کنوں اکھاں۔


بہ شکریہ: ہم سب