لازم نہیں کہ شادی کا لڈو ہمیشہ ہر کسی کے لیے میٹھا ہی ہو۔ اس کے چکھنے کے بعد بہت سے لوگوں کا منہ بد مزا بھی ہو جاتا ہے۔ یہ بندھن کسی کے حلق کا کانٹا بھی بن سکتا ہے اور بہت سے اس بندھن کے نجات کے ہمہ وقت متمنی بھی رہتے ہیں۔ ہر ازدواجی زندگی کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ کہیں اختلاف کی تکرار ہے تو کہیں پیار سے دوری اور کہیں پہلے آپ پہلے آپ کی رٹ ہے۔ کہیں بے اعتمادی کا کلہاڑا پیار سے لگائے ہوئے درخت کی جڑ کاٹے چلا جا رہا ہے تو کہیں چھ فٹ کے بستر پر برسوں کے فاصلے حائل ہیں۔ کہیں پل بھر کی جدائی کو درمیاں آنے سے روک دیا جاتا ہے تو کہیں مسلسل اختلاف کی جنگ ہے۔ کہیں امن کے جھنڈے گاڑ کر ہر بار آگے بڑھ کر ہاتھ تھام لیا جاتا ہے تو کہیں جنگ کے طبل خاموش ہی نہیں ہوتے۔
شادی شدہ زندگی میں ان مراحل سے نہ گزرنا ناممکنات میں سے ہے۔ زخم بھی لگتے رہتے ہیں ہاں ان کی پٹی وقت پر ہو جائے اور انہیں کریدا نہ جائے تو زخم بھرنے میں زیادہ وقت نہیں لیتے۔ ہم تو یہ ہی سمجھ پائے کہ یہ رشتہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے نکھرتا بھی ہے اور بکھرتا بھی ہے۔ ہر ایک کی زندگی کا تجربہ نئی کہانی سناتا ہے۔ آج کی سچی کہانی حاشر اور ہمارے بارے میں ہے۔
ہم دونوں میاں بیوی کا رشتہ بھی عجیب ہے ایسا ہر گز نہیں کہ ہمارے درمیاں کبھی لڑائی نہیں ہوئی یا کبھی کسی اختلاف سے دراڑ نہیں پڑی۔ جب زندگی کے سفر پر ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہو تو کچھ مشکل راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ گزارے ہوئے روز شب میں بہت سے ایسے مواقعے آئے جب کسی ایک کی انا نے زور مارا تو پھر دوسرے کی معاملہ فہمی نے صورتحال کو سنبھال لیا۔ یوں بھی ہوا کہ کسی کے منہ کے بل گرنے سے پہلے اس کو سنبھال لیا گیا۔ شدید غصے کی آگ ایک ہنسی سے بجھ گئی۔ کبھی بہتے ہوئے آنسو پیار بھرے بول کے اندر سما گئے تو کبھی طنز کے تیر کے سامنے خاموشی ڈھال بن گئی۔
شادی کا بندھن پل صراط سے کم نہیں ہے۔ بس اس میں دیکھنا یہ ہے کہ جیسے ہی کسی ایک کے قدم ڈگمگائیں تو دوسرا اس کو بڑھ کر تھام لے۔ اونچے نیچے رستوں سے گزرتا یہ سفر آسان ہو جاتا جب خوش دلی سے ساتھ نبھانے کا ارادہ کر لیا جائے۔ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ کسی میں کوئی خوبی ہوتی ہے اور کسی میں کوئی خاصیت جگمگاتی ہے۔ اس رشتے میں جانتے بوجھتے دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کی پالیسی بہترین ثابت ہوتی ہے۔ 24 دسمبر کو اس رشتے پر چلتے ہوئے ہمیں 24 برس بیت گئے ہیں۔ شادی کی سالگرہ پر سونے، چاندی، ہیرے، موتی کی ہمیں نہ خواہش رہی نہ آرزو۔ ہم نے ایک بات برسوں پہلے اپنے پلو سے باندھ لی تھی جب حاشر نے کہا ”مجھے سونا خرید کر ایسا لگتا ہے کہ پیسوں کا ضیاع ہے“ تو میرے لیے یہ کس طور ممکن تھا کہ اپنے شوھر کی کمائی سے وہ چیز خریدوں جو ان کی نظر میں پیسے کو ضائع کرنا ہے۔ کسی محل کی بھی خواہش نہیں۔ برسوں پہلےمحل نما گھر بنا کر ہمارے نام کیا گیا اور ہمارے حوالے کر دیا گیا۔ پھر ایسا ہوا کہ اس کو ایک وجہ سے ہماری ہی خاطر فروخت کر ڈالا۔ اور بڑا پن تو دیکھیے کہ مجال ہے کہ بڑی سے بڑی ناراضگی یا خفگی میں ان کی زبان پر آیا ہو کہ گھر تمہاری خاطر بیچ ڈالا۔
ہر تقریب یا کسی خاص موقع پر نئے لباس کی بھی خواہش دل میں نہیں اٹھتی۔ برسوں پرانی اماں کی نیلی ساڑھی پہن کر بھی ہمارے قہقہے میں کمی نہیں آتی۔ جس کا منہ بولتا ثبوت گھر میں آویزاں تصویر کی شکل میں موجود ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کنجوسی کا معاملہ ہے۔ دکان میں ایک لباس پر ہاتھ رکھوں تو دس سامنے ڈھیر کر دیے جاتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر بھی آج تک ہمارے اوپر کبھی بھی کسی چیز کے خریدنے سے متعلق کوئی پابندی یا قید نہیں لگائی گئی۔
سالگرہ پرتحفے کی کوئی مچلتی ہوئی خواہش نہیں ہوتی۔ کیونکہ ہم بخوبی اس امر سے واقف ہیں کہ ہم نے جس چیز پر ہاتھ رکھا اس کے لیے مجھے کسی خاص دن یا موقع کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اگر اس چیز کی خبر حاشر تک پہنچ گئی تو وہ چیز آ کر ہی رہے گی۔ سالگرہ پر جب ڈنر کرنے گئے تو حاشر نے ہم سے پوچھا کہ کیا کھانا ہے؟ ہم نے بھی مذاق سے کہہ دیا کہ بس آج تو اپنی پسندیدہ آئس کریم کھانے کو دل تھا پر رات کے اس پہر جانا دشوار۔ یہ جملہ کیا منہ سے نکلا کہ حاشر صاحب پکا ارادہ کر بیٹھے کہ کل ہمیں آئس کریم کھلا کر ہی دم لیں گے۔ ہم حیرت سے ان کو دیکھے چلے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے واقعی واقعی۔ کیونکہ آج کل بہت مصروفیت کے دن چل رہیں ہیں۔ آپ بھی حیران ہو گے کہ ایک آئس کریم کے وعدے پر اتنی حیرت کیوں۔ ابھی یہ معمہ بھی حل کیے دیتے ہیں۔
مسئلہ ہمارے ساتھ یوں ہے کہ ہمیں میٹھا پسند نہیں آتا اور آئس کریم کا پسند آ جانا کوئی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ تو لے دے کر ہمیں ایک آدھی آئس کریم پسند ہے۔ وہ ہمارے گھر کے قرب و جوار سے ملتی نہیں۔ اس کے لیے ہم لوگ صبح سات بج کر پچیس منٹ پر گھر سے روانہ ہوئے کوئی آنے جانے کا سفر ملایا جائے تو کوئی نو سو کلومیڑ کا سفر طے کر کے ہماری یہ خواہش پوری کر دی گئی۔ اب آپ کو سمجھ آ ہی گئی ہو گی کہ کل واقعی واقعی کی گردان بے وجہ نہ تھی۔ واپسی پر ہم بہت خوش تھے راستے بھر شکریہ کا ورد بھی جاری رہا۔ بار بار قہقہے بھی لگ رہے تھے۔ بہترین غزلوں سے لطف انداز ہو رہے تھے۔ کبھی غالب فراز اور کبھی فیض کا کلام سماعتوں سے گزرتا ہوا دل کے تاروں کو چھو رہا تھا۔ اشعار نغموں میں ڈھل جائیں تو ان کا نشہ کچھ اور ہوتا ہے۔ مہدی حسن، نورجہاں، نصرت، راحت، رفیع، لتا اور سہگل کی مدھر آوازیں، برسوں پرانے گیت، سفر کی تھکاوٹ کو کم کر رہے تھے۔ اتنی مسافت کے باوجود بھی مزاج میں ایک سرشاری تھی۔ جو تھوڑی بہت تھکان تھی بھی وہ گھر کا دروازہ کھولتے ہی ہوا ہو گئی۔
گھر پہنچے تو دو سرپرائز دیوار پر لگے مسکرا رہے تھے۔ ایک آدھ دن پہلے حاشر کے ساتھ ہم اپنی فیملی کی تصاویر دیکھ رہے تھے۔ ہم نے ان میں سے دو پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بڑا دل کرتا ہے کہ ان دو تصاویر کو بڑا کروا کر دیوار پر لگاؤں۔ اور جیسے ہی گھر گھسے کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں تصاویر ایک قد آدم سائز میں دیوار سے ٹیک لگائے مسکرائے چلی جا رہی تھیں۔
زندگی میں ہمارے درمیاں جب کبھی لڑائی ہو جائے تو ہم اس بات کو فوقیت دیتے ہیں کہ لڑائی لکھ کر کی جائے۔ ہم بات کرنے کی نسبت لکھ کر بات سمجھانے میں بہتر ہیں۔ اس لیے لکھ کر ہی حاشر کے خلوص، پیار اورمحبتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ اس دو اسکوپ آئس کریم میں جو خلوص، پیار، محبت اور خواہش کے احترام کی شیرینی تھی وہ تادم مرگ زباں اور دل میں رہے گی۔ آپ کی محبتوں کا شکریہ
(اختتامی نوٹ: ویسے جس دن حاشر کی زیادہ تعریف کر دوں اس دن جنگ عظیم چھڑ جاتی ہے۔ یا اللہ خیر)
بہ شکریہ: ہم سب