آموں کی پیٹی کا ذکر ہو تو آپ کے ذہن میں کیا خیال سب سے پہلے آتا ہے؟ یہ سوال ہم نے کچھ لوگوں سے پوچھا۔ کوئی کہنے لگا ابو کے ساتھ لی گئی آموں کی پہلی پیٹی اور کسی نے کہا ملتان، کوئی بولا حاجی مینگو جوس اور کوئی فروٹ منڈی کو یاد کرنے لگا۔ لیکن ہمارے ذہن میں جو خیال آیا وہ تو سی ون تھرٹی کا تھا۔ دونوں کا بہت گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق سے بے خبر آپ بھی نہ ہوں گئے۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے مہربان بھائی وسی بابا نے ہمیں یہ پیغام ان بکس کیا کہ آپ کے لیے گاؤں سے آموں کی پیٹی لایا ہوں۔ آموں کی پیٹی تحفے میں خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔ جنرل ضیا کو بھی سنا ہے اسی پھلوں کے بادشاہ نے مروایا تھا۔ ہم تھوڑے سے خوفزدہ ہو گئے۔ ہمیں آموں کی پیٹی میں لپٹا ایک اور خطرہ نظر آنے لگا۔ بے حد سوچ بچار کے بعد ہمیں جب اس بات کا یقین کامل ہو گیا کہ ہماری ذات سے آج تک وسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور ہماری جان لے کر ان کو کچھ حاصل نہ ہوگا تو پھر ہم نے اس نامعقول خطرے کو دل سے نکالا۔ اور ان آموں کی پیٹی کے تصور میں کھو گئے جس کی نوید ہم تک آن پہنچی تھی۔ کیا خوب کہا چچا غالب نے کہ ”آم ہوں اور بہت ہوں“
سنا ہے کہ مرزا صاحب آموں کے موسم میں اشعار نہیں لکھتے تھے۔ مگر ہم تو وسی بابا کے لیے قصیدہ لکھنے کو تیار تھے۔ ہر وہ خاصیت جو ان میں نہیں پائی جاتی زبان سے کہنے کو تیار بیٹھی تھی۔ وسی بابا کی عزت دل ہی دل میں بڑھنے لگی تھی۔ اور اس کا تمام تر سہرا آموں کی پیٹی کےسر تھا۔ ہمارے ذہن میں آموں کے ہی خیالات تھے۔ ان کی رنگت میں ہرا رنگ نمایاں ہو گا یا پھر چاند کی پیلاہٹ میں ڈوبا ہو گا۔ قد کاٹھ میں چھوٹے ہوں گے یا صحت مند۔ شجرہ نسب کہاں جا کر ملے گا۔ انور رٹور، مالدہ، سندھڑی، دوسہری، چونسا، ثمر بہشت، لنگڑا یا الفانسو جیسے ناموں میں کون سا قرعہ ہمارے لیے نکلے گا۔ آموں کے گودے میں لتھڑی گٹھلی کا جثہ مبارک کیا ہو گا۔ آم کے تصور کی بھینی بھینی خوشبو نے سانسوں کو بھی مہکا ڈالا تھا۔
ابھی خواہشوں کے جھولے میں جھولتے دو دن گزرے تھے کہ وسی بابا کا نیا پیغام وصول ہوا
“ وہ آم جو ائے تھے نا“
“جی جی“ ہم نے منہ میں آئے پانی کے ساتھ بمشکل کہا
“ وہ تو میں سارے کھا گیا“
ہمیں ایسا لگا کہ فضا میں اڑتے اڑتے دھڑام سے ہم زمین پر آن گرے ہیں۔ یک لخت منہ میں بھری شیرنی کڑواہٹ میں بدل گئی۔ قصیدہ نوحے میں بدل گیا۔ اب سن لیجیے اس حرکت کی کی وجہ جو انہوں نے بیان کی۔
”آم نہایت ہی بد ذائقہ تھے اور ہر گز کھانے کے قابل نہ تھے۔ اس لیے میں ان سب کا جوس بنا کر پی گیا“
اس بات کو تو ہم مان گئے کہ وسی بابا نہایت ہی مخلص انسان ہیں۔ ان کو یہ ہرگز گوارا نہ تھا کہ ہمیں کوئی بدذائقہ چیز دی جائے۔ اس ہی خلوص کی بدولت وہ آموں کی پیٹی کی تہہ تک پہنچ گئے پر خوش ذائقہ آم کا سراغ نہ مل سکا۔ حالانکہ یہ کام اگر ہم پر بھی چھوڑا جاتا تو ہم بھی احسن طریقے سے سرانجام دے سکتے تھے۔
اگر اس تمام تر معاملے کی تفتیشی نگاہوں سے جانچا جائے تو سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آموں کی پیٹی کسی کو تحفہ دینے کی نیت سے رکھی گئی تھی تو بند پیٹی کھولی کیوں گئی؟ اگر کھول ہی لی تو چکھی کیوں گئ؟ اور اگر بد ذائقہ نکلی تو جوس کیوں کر بنا کر پیا گیا؟ یہ تمام تر سوالات وسی بابا کے خلاف جاتے ہیں۔ اب تو بس یہ ہی کہہ سکتی ہوں کہ
واہ رے واہ وسی کیا بیان کروں ان آموں کا قصہ جو آپ کی نظر سے بچ نہ پائے۔ اب تو ہم یہ ہی کہہ کر اپنے دل کو بہلاتے ہیں۔
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں
دل بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
خیر ہم نے دل پر پتھر رکھ کر اس واقعے کو بھولنے کی کوشش کی۔ مگر وسی بابا نے ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہ ایک دن پھر ایک پیغام انباکس کیا کہ آپ کے لیے قہوہ آیا تھا پر ہوا یہ کہ میں وہ بھی پی گیا۔
اب ہم اس سوچ میں ہیں کہ ہمارے نصیب کی اگلی کون سی شے ہےجو وسی کے نصیب میں درج ہونے والی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وسی اپنا نصیب بھی خود تحریر کرتے ہیں اور دوسروں کے نصیب کی تنسیخ بھی خود ہی کرتے ہیں۔ لوگ ایسے ہی با کمال ہونے چاہئیں۔