انسان کی خود پسندی اسے یہ حقیقت آسانی سے قبول نہیں کرنے دیتی کہ "باہر کا جغرافیہ، انسان کے اندر کا جغرافیہ تشکیل دیتا ہے"۔
باہر کی وسعت وبلندی و تنگی کے تجربے کے بغیر، قلب وذہن ونظر کی فراخی و رفعت و تنگی کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ باہر، ہمارے اندر دور دورتک اتر ہوا ہے۔ (خود اس جملے میں دور دور، کے الفاظ ظاہر کررہے ہیں کہ اندر کے جغرافیے میں باہر شامل ہے۔)
دنیا، گھر، شہر، بستی، مملکت، گلی، راستہ، سنگ میل، منزل، صحرا، گلستاں، آسماں، کھڑکی، دروازہ، کونہ، گوشہ، مسجد، مندر، خانقاہ، مزار، بازار، دکان اور ان سب کے متعلقات اور ان سے وجود میں آنے والے استعارات ہماری داخلی، ذہنی، جذباتی، فکری، وجدانی، روحانی دنیا (ہم اپنے اندر کے لیے دنیا، قلمرو، مملکت جیسے الفاظ استعمال کے بغیر ابلاغ نہیں کرسکتے) کا لازمی حصہ ہیں۔
ان کے بغیر ہم نہ تو اپنی داخلی دنیا کا سادہ تصور تک کر سکتے ہیں، نہ اس کا ابلاغ کرسکتے ہیں اور نہ اس میں کسی تبدیلی و ارتقا یا انحطاط کا کوئی مفہوم واضح کرسکتے ہیں۔ ہماری عمومی، روزمرہ لغت ہو یا سائنس و فلسفہ و تصوف اور ادب کی خصوصی لغات ہوں، ان میں جگہ ومقام ووقت سے استفادے کا لامتناہی عمل جاری رہتا ہے۔
ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ وسیع مفہوم میں جگہ، کے بغیر، ہم اپنے اندر کا تصور کرسکتے ہیں، نہ شہر کا، نہ سماج کا، نہ علوم وفنون کا اور نہ انھیں بیان کرسکتے ہیں۔
جگہ، ہر جگہ ہے۔
کوئی شے، حقیقی ہو یا تصوری، جگہ کے بغیر نہیں۔
زمین، گھر، شہر سے لے کر دل، ذہن، یادداشت، تخیل، کاغذ، سکرین اور زبان، شاعری جگہ، رکھتے ہیں۔ یہ جملے روزمرہ زبان کے ہیں۔
زمین پر جگہ سکڑتی جارہی ہے۔ جس گھر میں کتاب کی جگہ نہ ہو، وہ گھر نہیں۔ عاشق کے دل میں نفرت کے لیے جگہ نہیں۔ آدمی کی یاد میں سب سے زیاد ہ جگہ اس کی بستی گھیرتی ہے۔ اس صفحے پر مزید کچھ لکھنے کی جگہ باقی نہیں۔ زبان میں نئے الفاظ شامل ہونے کی جگہ ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ شاعری میں فکر کی جگہ کس قدر ہونی چاہیے؟ سماج میں آزادنہ فکر کی جگہ سکڑتی جارہی ہے۔ شدت پسندانہ عناصر سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ جگہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ان معروضات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انسان کے داخل کو بیان کرنے کے لیے جتنے استعارا ت روزمرہ زبان میں ملتے ہیں، وہ باہر کی جگہوں اور ان کے تجربوں سے ماخوذ ہیں۔
یہی نہیں، اکثر اساطیری علامتیں بھی ان انسانی تجربوں سے پیدا ہوئیں جو کسی خاص جگہ اور خاص وقت میں ہوئے۔ چوں کہ یہ علامتیں ناقابلِ تشریح معانی کی حامل ہوتی ہیں، اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ علامتیں غیر ارضی و ماورائی ہوتی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ "علامتیں کسی شے کی علامت بننے سے پہلے مادی اور ٹھوس وجود رکھتی تھیں، مثال کے طور پر لیبرنتھ بنیادی طور پر عسکری اور سیاسی ساخت تھی جس کا مقصد دشمنوں کو پھانسنا تھا۔ یہ کوکھ کا مفہوم رکھنے سے پہلے محل، قلعہ، پناہ گاہ وغیرہ تھا"۔ (ہنری لی فیو، The Production of Spaceص 233)۔
گویا بہت سی علامتوں کا تعلق کسی خاص تاریخی لمحے اور مقام سے ہے، مثلاً زراعت کے آلات جو بے شمار موقعوں پر علامتوں کے طور پر استعمال ہوئے ہیں، اس وقت کے بعد ہی علامتیں بنے ہوں گے، جب انسان نے زراعت کا فن سیکھا۔ (سہیل احمد خاں، مجموعہ، ص 26)۔
فطرت کی اشیا ومظاہر، جانور، جنگل، شجر، پہاڑ، غار، صحرا، دریا، سمندر وغیرہ علامتیں بنے ہیں، جو حقیقی طور پرآدمی کے تجربے میں آئے۔
علامت، حقیقی مادی، تاریخی تجربے سے اگرچہ ماورا ہونے (transcend) کی کوشش کرتی ہے، اور اسی کوشش میں وہ کثیر معانی کی آفرینش کا ذریعہ بنتی ہے، مگر ہر علامت میں بنیادی مادی تجربہ بہ طور ماخذو آغاز موجود رہتا ہے اور علامت کی تفہیم میں مدد بھی دیتا ہے۔
طورسینا کی مکانیت، خدا کی تجلی کاعلامتی مفہوم سمجھنے میں مدددیتی ہے۔ اسی سے ہمیں یہ حقیقت بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ صوفیانہ شاعری، مجازی عشق کی علامتوں کو کیوں استعمال کرتی ہے۔ خود مجازی عشق کی کہانیوں میں شہر اور جگہیں، بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
دشت، لیلیٰ مجنوں کے حوالے سے، کیچ سسی پنوں، چناب، سوہنی مہینوال، جھنگ، ہیر رانجھا، تھر، عمر ماروی کے ضمن میں صوفیانہ شاعری میں امر ہیں۔