1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ناصر عباس نیّر/
  4. نابغے، فطین اور اوسط درجے کے ادیب (3)

نابغے، فطین اور اوسط درجے کے ادیب (3)

اور اب نابغہ (genius) ادیب، اوسط درجے کا ادیب تخلیق کی چنگاری کو اپنے زمانے کے حاوی و مقبول رجحانات کی پیروی میں خرچ کرڈالتا ہے۔ اس کی نگاہ و تخیل کی حد، اور اس کے اسلوب کا جمال، اس کا زمانہ طے کرتا ہے۔ بلاشبہ، اس کی تحریروں سے اس کے زمانے کی کئی سطحوں، لزرشوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کی تحریروں کا مطالعہ، اپنے زمانے کی متوازی تاریخ کے طور پر بھی کیا جاسکتا ہے۔

فطین ادیب اپنے شررِ تخلیق کی مدد سے، زمانے کے حاوی ومقبول رجحانات اور خود ادب کی روایت میں اپنے لیے ایک جد اراستہ منتخب کرتا ہے۔ وہ زمانے اور روایت کے بعض حصوں کے پار دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے موضوع و اسلوب میں ایک نامانوس، جداگانہ عنصر ضرور موجود ہوا کرتا ہے، تاہم یہ عنصر روایت کی اساس کو معرضِ سوال میں لانےو الا نہیں ہوتا۔

اسے فوری توجہ نہ بھی ملے تواس کے حینِ حیات یا بعد از حیات جلد ہی توجہ اور مقبولیت مل جا یاکرتی ہے۔ اس کے نقشِ انفرادیت کو پہچاننے والے، جلد سامنے آجایا کرتے ہیں۔

فطین ادیب زمانے کی تاریخ کا متبادل پیش کرنے سے زیادہ، ادبی روایت میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے، ایک نیا سنگ میل تصور کیے جانے کی آرزو کھتا ہے۔

نابغہ ادیب کے یہاں تخلیق کا الاؤ ہوتا ہے۔ الاؤ کسی پیمانے، کسی پیرائے، کسی روایت، کسی رجحان میں نہیں سماتا، انھیں خاکستر کرتا ہے۔ وہ موجود ومیسر جہاں کو پھونک ڈالنے کی دیوانگی اور جرأت رکھتا ہے۔ وہ ایک با غیانہ روح ہے۔ اپنی بغاوت کی ہر قیمت اداکرنے پر آمادہ ایک اخلاقی وجود بھی!

اسے اپنے عصرو تاریخ میں مقبولیت تو کجا، اپنی ادبی د روایت سے سندبھی درکار نہیں ہوتی۔ وہ سندو استناد کی بنیادوں پر سوال اٹھانےو الا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ بعد ازاں خود سند بنتا ہے۔ ادب کی تاریخ کا یہ عجب واقعہ ہے کہ اپنے زمانے میں سند کے منکر، بعد کے زمانے میں سند بن جاتے ہیں۔ ایک جہان کو مسمار کرنے والے، ایک نئے جہان کے معمار تصور کیے جانے لگتے ہیں۔

نابغے کے یہاں تخلیقی قوت اور ذہانت اپنی اس انتہا پر ہوتی ہے، جو کسی بندہ بشر کی حدِ بساط ہے۔ ایک بندہ بشر کی نہیں، بندہ بشر بہ طور نوع کی۔ تخلیقی قوت کے بحر کا حتمی خروش کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہمیں نابغے کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ ادب، انسانی دنیا وکائنات کو لکھنے میں کن ممکنہ بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے، اس کا اندازہ نابغے ادیب کی کتابوں سے ہوتا ہے۔ سچائیوں کو پیش کرنے میں زبان کی آخری حد کیا ہے، کہاں یہ یکسر بے بس ہوجاتی ہے، اور کہاں یہ اپنے اشاراتی نظام کے سارے امکانات کو بروے کار لاکر، سچائی کی طرف ہمیں متوجہ کرسکتی ہے، کہاں خاموشی، زبان کا سب سے معتبر متبادل بن جایا کرتی ہے، کہاں صرف رائج زبان کو نہیں، خود زبان کی گرامر کو بھی توڑ کر ایک نئی زبان وگرامر وجود میں لائی جاتی ہے تاکہ سچائیوں کو پیش کیا جاسکے، اس سب کا علم نابغے کی تحریروں ہی سے ہوا کرتا ہے۔

نابغے کے یہاں تخلیقی قوت اس انتہا پر ہوتی ہے کہ اس کا جسم، اس کے حواس، اس کا دماغ، اس کا تخیل، تعقل، اس کی تخلیقی قوت کی انتہا یا الاؤ کو سہا ر نہیں پاتے۔ اس کے وجود کا آبگینہ، تخلیق کی صہبا سے پگھلنے لگتا ہے۔ وہ اگر خدا سے شکوہ کرتا ہے تو اس بات کا کہ اس کے فانی وکمزوربدن میں ایک دیوتائی ذہن وتخیل رکھ دیا گیا ہے۔

نابغے کا دیوانہ ہونا، اس کی تقدیر ہے اور اس کے لیے ایک مسلسل آزمائش اور عذاب بھی۔ اس پر مسرت ونشاط اور بےبسی و رنج کے شدید لمحات اکثر آتے ہیں۔ وہ خوش نصیبی وبدنصیبی دونوں میں منفرد ہوتا ہے۔

اس کا جسم، ایک عام انسانی جسم، مگر ذہنی وتخلیقی قوت اپنی معراج کے سبب، دیوتائی ہوتی ہے۔ ایک ناقابل برداشت کش مکش سے وہ مسلسل گزرتا ہے، فانی وضعف پذیر بدن اور لاانتہا تخیل وتعقل کی کش مکش۔

نابغے پر وحشت وجنون کی حالت، اپنی ممکنہ شدت کے ساتھ طاری رہتی ہے۔ اس کا دل صحرا، جنگل، بیاباں کی طرف رخ کرنے پرزور کرتا ہے۔ دیوانگی کے ساتھ، تنہائی ہر نابغے کا مقدر ہے۔

نابغے کے لیے تنہائی محض اس کا اکیلا ہونا، کسی رفیق سفر و رفیقِ حیات کے بغیر ہونا نہیں ہے۔ اس کے لیے تنہائی، ہر زمینی و آسمانی سہارے، ذہنی، جذباتی وتخیلی آسرے کے بغیر، خود اپنے ہمراہ ہونا ہے۔ نابغے کا کوئی رفیقِ راہ ہوتا ہے نہ کوئی استاد و رہنما۔ اسے بلاشبہ رفیق ورہ نماملتے ہیں، مگر وہ ان کے ساتھ تھوڑی دور تک ہی چل پاتا ہے۔

وہ ہستی، وجود، تاریخ، زمانے، روایت کے صحرا میں یکہ و تنہا ہواکرتا ہے۔ اس صحرا میں کوئی نقش پا نہیں ہوتا، کسی سابق و پیش رو کی کوئی نشانی نہیں ہوتی، مگر اس صحرا میں وہ مکمل ارتکاز، انتہائی باریک بینی و بے خوفی کے ساتھ فطرت، عصر، تاریخ، روایت، وجود کو، اس کی سب لزرشوں، تہوں، رخنوں، اندیشوں، واہموں، سایوں سمیت محسوس کرسکتا اور سمجھ سکتا ہے اور بیان کرسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ نابغہ لازماً کسی صحرا و بیاباں میں جائے، یہ اس کے اندر بھی ہوسکتا ہے۔ باہر کے صحرا کی حد ہے، اندر کے صحرا کی حد، نابغے کا تخیل طے کرتا ہے۔ نابغہ جب فکشن لکھتا ہے تو انسانی وجود کے اس عظیم دشت کی سیر کراتا ہے، جس کی تاب کسی کسی میں ہوا کرتی ہے۔

نابغہ اپنی دیوانگی و تنہائی پر کڑھتا نہیں، انھیں چیزوں کی اصل تک پہنچنے کی لازمی شرط کے طور پر قبول کرتا ہے۔

اوسط درجے کے ادیب بھی تنہائی کا سامنا کرتے ہیں، مگر وہ اس کی تاب نہ لا کر جلد ہی مانوس، دوستانہ فضا میں لوٹ آتے ہیں۔ وہ بے گھری کا چھوٹا موٹا نوحہ لکھ لیا کرتے ہیں مگر گھر لوٹنے کی آرزو ان کے یہاں شدید ہوا کرتی ہے۔ فطین ادیب تنہائی کی دہشت کا سامنا کر لیا کرتے ہیں، اور بے گھری کے عذاب کو سہنے کی ہمت بھی ان میں ہوا کرتی ہے۔ ان کے یہاں انسانی تنہائی کو انسانی تقدیر تصور کرنے کا ایک فلسفہ بھی موجود ہوا کرتا ہے۔ نیز وہ تنہائی کو سیاسی معنوں میں بھی لیا کرتے ہیں۔ وہ یہ سچائی قبول کرتے ہیں کہ ایک ادیب کا مئوقف اسے تنہا کردیا کرتا ہے۔

تنہائی اگر عفریت ہے، آسیب ہے، ڈریکولا ہے یا ویمپائر ہے تو نابغہ اس کا سامنا کرتا ہے، اس سے جھگڑتا ہے، نہ اس سے آنکھیں چراتا ہے۔ وہ یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ ایک کائناتی جلا وطن ہے۔ وہ کسی شے، کسی تصور، کسی مقام یہاں تک کہ خود تحریر کو اپنا ٹھکانہ نہیں بنا سکتا۔ اس کا لامتناہی اضطراب وتجسس اور بے انتہااستفسار و کرید اسے کسی ایک پل چین سے رہنے دیتے ہیں نہ کسی ایک شے وتصور وخیال سے وابستہ۔

نابغے کا تجسس واستفسار ہر شے کو اس کی اصل میں دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اشیا و مظاہر کو غیر معمولی ارتکاز سے دیکھتا ہے، تاکہ ان کی اصل تک پہنچ سکے۔ اصل، ایک خیال وتصور ہواکرتی ہے۔ اسی لیے نابغہ ادیب کے یہاں تصویریں کم، تصورات زیادہ ہوا کرتے ہیں۔ تصورات بھی اس کے اپنے۔ اور ان تصورات کو ظاہر کرنے والی زبان وتکینیک بھی اس کی اپنی۔ وہ عالم اشیا سے زیادہ عالم خیال کا باسی ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو بھی عالمِ خیال تصور کیا کرتا ہے۔ اس کے عالمِ خیال میں کتنے ہی گلشن ناآفریدہ ہوا کرتے ہیں، جن کا وہ نغمہ سنج ہوا کرتا ہے۔ اگر اوسط درجے کے ادیب کی تحریریں، اپنے زمانے کی متوازی تاریخ ہیں، اور فطین ادیب کی تحریریں، اپنے زمانے کو نئی روشنی دیتی ہیں تو نابغے کی تحریریں، اپنے عصر وتاریخ وروایت کے مقابل ایک نئے عالم کو وجود میں لاتی ہیں۔

فطین ادیب موضوع، اسلوب، تکینیک میں کئی تجربے کرتا ہے، اور ادب کی تاریخ میں اپنا نقش بھی قائم کرتا ہے، مگر وہ اپنے تجربے میں اس آگ کو شامل کرنے پر مائل نہیں ہوتا جو روایت کی حدوں ہی کو خاکستر کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی تجربہ پسندی میں روایت کا احترام موجود ہوتا ہے۔ فطین ادیب پر اگر کبھی دیوانگی طاری بھی ہوتی ہے تو اس کے جلو میں فرزانگی موجود ہوا کرتی ہے۔ فرزانگی، دیوانگی کے لیے زنجیر ہوا کرتی ہے۔ چناں چہ وہ ایک حد تک انحراف کرتا ہے، آخری حد تک نہیں۔ وہ روایت کے کسی ایک پہلو پر سوال اٹھا لیا کرتا ہے، اور ایک اپنا، انفرادی مئوقف اختیار کرتا ہے، خود روایت کی اصل و بنیادپر نہیں۔ چناں اس کا تخلیق کردہ ادب، روایت کا تحفظ کرتا ہے اور اسے توسیع دیتا ہے۔ اپنی جگہ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔

دوسری طرف نابغے کے لیے کوئی روایت، کوئی میراث، کوئی سلسلہ بزرگاں مقدس نہیں، لہٰذا تشکیک و سوال و استفسار سے باہر نہیں۔ وہ خود تقدیس کے تصور کی روح میں اترتا ہے، اس کی اصل و ماہیت کو سمجھتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے اور ظاہر کرنے کی جرأت کرتا ہے کہ انسانوں کی وضع کی ہوئی شے آخر کیسے مقدس بن جایا کرتی ہے، سن رسیدگی، تسلسل، طاقت اور تقدیس کا باہمی تعلق کیا ہے؟ کیسے صدیوں تک رائج باتیں، رسمیں، طریقے ایک ایسی فضیلت وبزرگی اختیار کرلیتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے اطاعت و تسلیم کے سواکچھ باقی نہیں رہتا، اورا سی راستے سے جہاں کچھ وقت کی آزمودہ اقدار کی ترسیل ہوتی ہے، وہیں انسان کش توہمات و رسوم کی بھی۔

وہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ ایک مقام پر تسلیم و اطاعت، کسی دوسرے مقام پر حکم برداری اور متابعت کی بنیاد کیسے بن جایا کرتی ہے؟ ادب کی روایت کو مقتدر سمجھ کر اسے تسلیم کرنے اور کسی سیاسی مقتدرہ کو بغیر سوال کے قبول کرنے میں کوئی قریب یا دور پار کا رشتہ ہے یا نہیں؟

کسی بھی شعبے کا نابغہ بہ یک وقت ذہانت و تخلیقیت کی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو اکرتا ہے۔ ایک فطین ادیب کے یہاں بھی ذہانت ہوا کرتی ہے، مگر اکثر اس پر اس کی تخلیقیت کا غلبہ ہوا کرتا ہے۔ وہ نقد واستفسار کا میلا ن رکھتا ہے، لیکن اسے تخیل و وجدان کے تابع رکھنے کا قائل ہوتا ہے۔ نابغے کی ذہانت، تخلیقیت کو اپنا حریف نہیں، حلیف تصور کیا کرتی ہے۔ کوئی نابغہ ادیب ایسا نہیں، جس کے یہاں فکرو تعقل، اس کے جذبہ و وجدان کے وفور سے کم ہو۔

نابغہ اپنے سوالوں سے، صدیوں سے چلی آرہی مستحکم رسموں، اسالیب، پیرایوں، قدروں کی جڑوں پر وار کرتا ہے، اور لوگوں کے یہاں ناقابل برداشت تشویش پیدا کرتا ہے اور اپنے خلاف ایک زمانے کو جمع کر لیتا ہے۔ اسے روایت، اقدار، اسالیب کے لیے ایک حقیقی خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی باتوں کو مہمل بھی کہا جاتا ہے اور ناقابل برداشت بھی۔ وہ جس دیوانگی کی زد پر ہوتا ہے، اس سے مہمل گوئی بعید نہیں ہوتی۔ ایک نابغے سے خطائیں بھی عظیم ہوا کرتی ہیں۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں جب اس کی عظمت تسلیم کر لی جاتی ہے تو اس کی مہمل تحریروں کی بھی تعبیر کی جانے لگتی ہے۔

اپنے زمانے میں اسے آئنہ خانے میں ایک بدمست ہاتھی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تشبیہ کچھ غلط بھی نہیں۔ وہ توڑ پھوڑ بہت کرتا ہے، اور کئی نازک و نفیس سمجھی جانے والی چیزوں کو ریزہ ریزہ کردیا کرتا ہے۔

نابغے سے زیادہ ملامت کسی کے حصے میں نہیں آتی۔

نابغے کے لیے تجربہ، ایک معصومانہ شے ہے۔ تجربہ، زبان میں ہو، ہیئت میں ہو یا صنف میں، وہ ان کی شکست و ریخت نہیں کرتا، ان کی حدوں کو کھنگالتا اور آزماتا ہے۔ نابغہ تو سب حدوں کی شکست وریخت کی جسارت کیا کرتا ہے۔ اس کے یہاں بہت کچھ اور کئی بار سب نیا ہوتا ہے، یکسر نیا۔ اس نئے میں لوگوں کو مشتعل کرنے اور صدمہ پہنچانے کی بیش از بیش قوت بھی ہوتی ہے۔

نابغے کے لکھے کی پہلے کوئی روایت ہوتی ہے، نہ اسے سمجھنے کی کوئی بنیاد ہی موجود ہوتی ہے۔ وہ خودکو یکسر غیر تاریخی، بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ ادب کی پوری روایت میں ایک تنہا، اجنبی اور جلاوطن شخص کے طور پر دکھائی دیا کرتا ہے۔ اور اس روایت پر ایک بڑے سوالیہ نشان کے طور پر بھی۔

وہ شاعری، فکشن یا کسی دوسری صنف وپیرائے میں جو بھی لکھتا ہے، اس کو پوری طرح سمجھنے اور سراہنے کی بنیاد موجود نہیں ہوا کرتی۔ اس کے لکھے کی سابق جمالیات وشعریات کی روسے ستائش و تفہیم نہیں کی جاسکتی۔ وہ صرف پیش رووں کو مسترد ہی نہیں کرتا، ان کی شعریات وجمالیات کی تنسیخ بھی کرتا ہے۔ یہ کوئی معمولی اقدام نہیں ہوتا۔ ایک پوری روایت کی تنسیخ معمولی اقدام ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ اس کے لیے صرف دیوانگی نہیں، غیر معمولی جرأت وجسارت، بے مثال تخیل اور اعلیٰ ترین ذہانت بھی درکار ہے۔ روایت کی تنسیخ کا منظر ہول ناک ہوا کرتا ہے۔ اس منظر کی تاب نابغہ ہی لاسکتا ہے۔

روایت صرف گزرے زمانوں کی بہترین تصور کی جانے والی اقدار کا تسلسل ہی نہیں، لوگوں کے لیے ایک بڑا، نفسیاتی و ذہنی و جذباتی سہارا، ایک پناہ گاہ، ایک گھر ہوا کرتی ہے۔ اسے مسمار کرنا گویا لوگوں کو بے سہار اور بے گھر کرنا ہے، انھیں ایک بیاباں میں، بے یارو مددگار، سرگرانی کے عالم میں پہنچا دینا ہے۔

نابغہ تباہ کن تخلیقی قوت کا حامل ہوا کرتا ہے۔ وہ ایک طرف سابق و موجود جہانِ ادب کو پھونک ڈالتا ہے، دوسری طرف ایک نیا جہانِ ادب تن تنہا وجود میں لاتا ہے۔ وہ پرانے خداؤں ہی کو معزول نہیں کرتا، خو خدائی کے تصور پر بھی سوالیہ نشان لگاتاہے۔ وہ سابق عظیم ادیبوں کے کارناموں ہی کو مسمار نہیں کرتا، ان کی عظمت کی بنیادوں پر بھی وار کرتا ہے۔ اس کا تخلیقی الاؤ اور دیوانگی، اسے کسی خوف ومصلحت کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ اس کی تنہائی، اسے مسترد کیے جانے کے اندیشوں کی پروا نہیں کیا کرتی۔ اپنے ا کائناتی طور پر جلاو طن ہونے کا یقین، اس پر مہمل وبے ہودہ گو ہونے کی تہمت و تنقید سے، اسے بے نیاز رکھتا ہے۔

وہ اپنے لکھے کی بنیاد بھی خود ہی وضع اور واضح کرتا ہے۔ اس کی تحریروں میں یہ اصرار موجود ہوتا ہے کہ انھیں اگر کسی نے سمجھنا ہے تو ان کے اپنے اصولوں کی مدد سے سمجھے۔ وہ اصول، قدر، شعریات، جمالیات کسی سے مستعار نہیں لیتا۔ ان سب کو وہ اپنی تخلیقی بھٹی میں بذات خود ڈھالتا ہے۔ ایک نابغہ ادیب، اپنےز مانے میں بڑی حد تک ناقابلِ فہم رہتا ہے، اور اکثر اپنے معاصرین کے عتاب کا شکار بھی۔

یکسر نئی، صدمہ انگیز چیزوں کو گوارا کرنے اور پھر انھیں سمجھنے، اور بعد ازاں ان کی معنویت کا احساس کرنے کی صلاحیت کسی کسی میں ہوا کرتی ہے۔ نابغے کی قارئین تک رسائی اوّل اوّل اس کی تحریروں پر سخت تنقید کی صورت ہوا کرتی ہے۔ وہ پہلے عام لوگوں تک، ملامت واتہام کے پیرائے میں پہنچتا ہے۔ اسی سے کچھ لوگوں کے یہاں اس کی تحریروں کے لیے تجسس پیدا ہوتا ہے، اور وہ اسے سنجیدگی سے پڑھنے لگتے ہیں۔ ہر نابغہ ادیب، بالآخر کسی ذہین و باذوق مفسر کی وساطت سے پہچانا جانے لگتا ہے۔ اس کے بعد اس کا لکھا ہوا یک ایک لفظ اس توجہ سے پڑھا اور سمجھا جانے لگتا ہے، جیسے اس کی عد م تفہیم وتحسین سے انسانی تہذیب کسی بڑے خسارے کا شکار ہوجائے گی۔