میرے قدم لائبریری کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میرے دھیان میں لائبریری کا وہ شیلف تھا، جہاں میری مطلوبہ کتابیں پڑی تھیں۔ مجھے خیال آرہا تھا کہ کہیں کسی نے ان کی ترتیب برہم نہ کردی ہو۔ یہ خیال اندیشے سے زیادہ، ایک تجربے کے سبب تھا۔ میں اس لائبریری میں اکثر آیا کرتا ہوں۔ یہاں آنے والوں کو غور سے دیکھا کرتا ہوں۔ اکثر کے چہرے ہی نہیں، ان کے رویے اور روشیں بھی پہچاننے لگا ہوں۔
میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ لوگوں کو پہچاننے کے لیے لائبریری سے بہتر جگہ روے زمین پر نہیں۔ آدمی گھر، بازار، مسجد، دفتر، عدالت اور تنہائی میں اپنی اصل چھپا سکتا ہے، لائبریری میں نہیں۔
باقی جگہوں پر۔۔ یہاں تک کہ تنہائی میں جواب دہی پر مجبور ہوتا ہے، لائبریری میں نہیں۔ وہ جن کتابوں پر پہلی، دوسری، چوتھی، دسویں نظر ڈالنے کے بعد پھینک دیتا ہے، انھی کے ذریعے اپنی اصل سے واقف ہوتا ہے۔ کئی بار ان پر کچھ لکھتا بھی ہے۔ کتابوں پر سب سے قیمتی اور سچے تبصرے یہی ہوتے ہیں۔ مجھے کبھی وقت ملا تو میں ان تبصروں کو جمع کرکے ایک کتاب چھاپوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ماہرین نفسیات کے بہت کام آئے گی۔
ترتیب سے زیادہ برہمی، آدمی کے وجود کی اصل کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر آپ نے لائبریری میں ادھر ادھر، بے ترتیبی سے پڑی، لاوارث اور ترک کردی گئی چیزوں کی مانند کتابیں دیکھی ہیں تو آپ میری بات کا یقین کر لیں گے۔
میں لائبریری کی طرف جانے والی اس چھوٹی سڑک پر تھا، جو مرکزی شاہراہ سے نکالی گئی ہے، اور جس کے اردگرد املتاس، گل نشتر، شیشم اور ارجن کے درخت ہیں۔ سامنے ایک گھوڑا نظر پڑا۔ اس نے ایک نظر مجھ پر ڈالی۔ میرے قدم رک گئے۔ ایک پل میں مجھے حیرت نے آ لیا۔
یہ تو وہی مریل گھوڑا ہے، جس پر 3 جنوری 1899ء کو ٹیورن شہر میں سائیس چابک برسا رہا تھا۔ نطشے کی نظر اس پر پڑی تو وہ دیوانہ وار اس کی جانب بڑھا تھا۔ اس نے سائیس سے کچھ کہا، نہ اس سے چابک چھینا۔ بس گھوڑے کی گردن میں اپنی بانہیں حمائل کردی تھیں۔ دونوں میں ایک ایسا راز و نیاز ہوا تھا، جسے نطشے اور وہ گھوڑا ہی جانتا تھا۔ یہ راز و نیاز کسی کتاب میں نہیں، اس درخت کی جڑ میں محفوظ ہوا ہے جس کی شاخوں کا سایہ، اس وقت گھوڑے کی کنوتیوں پر پڑ رہا تھا۔
میں نے گھوڑے کی طرف دیکھا۔ پسلیاں نکلی ہوئی، پیٹ اندر دھنسا ہوا اور کمر کی ہڈی نمایاں تھی۔ اس کی گردن کو دیکھا۔ ہلکی بھوری ایال بکھری ہوئی اور گرد آلود تھی۔ یہ عین وہی گھوڑا ہے۔ وہ شام کا وقت تھا۔ میں اسی لائبریری میں نطشے کی سوانح عمری پڑھ رہا تھا۔ جب 3 جنوری 1899ء کے واقعات پڑھے تھے تو میں نے نہایت محنت سے نطشے اور گھوڑے کی تصویر ذہن میں بنائی تھی۔ میں نے پہلے ذہن کو باقی سب باتوں سے خالی کیا تھا، تب یہ تصویر بنی تھی، ا س لیے مجھے شک نہیں ہوا کہ یہ کوئی اور گھوڑا ہے۔
میرا جی چاہا کہ میں بھی اس کی گردن میں اپنی بانہیں ڈال دوں، مگر ایک خیال نے روک لیا۔ جس گھوڑے نے نطشے کے آنسو دیکھے ہوں، اس کی کراہیں سنی ہوں، میں اس سے کیسے، کچھ کہہ سکتا تھا۔ میں اس امانت میں کیسے خلل ڈالتا جو نطشے کی سرگوشیوں کی صورت اس کے دل میں محفوظ تھی۔ مجھ میں اور نطشے کے گھوڑے میں کوئی راز و نیاز نہیں ہوا۔
وہ گھوڑا ایک سو چوبیس سال دس ماہ بعد کیسے ٹیورن سے ہزاروں میل دور اس شہر کی سڑک پر، سردیوں کی سہ پہر پہنچا، اگر میں اس سوال پر سوچتا تو سامنے اس لائبریری میں نہ جاسکتا تھا، جہاں سے مجھے کچھ کتابیں حاصل کرنا تھیں۔
میں سوچ سکتا تھا یا پڑھ سکتا تھا۔
مجھے لگا کہ ایک گھوڑے پر سوچنے کے مقابلے میں، ایک کتاب پڑھنا آسان ہے۔ میں نے آسان راستہ اختیار کیا۔