بدقسمتی سے بچوں سے سنتے ہیں، معاشرے کے حالات دیکھتے ہیں، جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس جوش و جمال میں ہمارے والدین کی شادی ہوئی تھی دراصل وہ شادی نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا اور وہ ایسا حزیں حادثہ تھا کہ جس کے نتیجے میں آج کے بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔
جن شادیوں کی بنیاد اس دلیل پر ہو کہ ہمارا بیٹا شادی کے بعد خود ہی جادو کی چھڑی سے ٹھیک ہو جائے گا اس معاشرے میں اور بے حسی کیا ہو گی؟ ایسے معاشرے میں کون سے سائنسدان پیدا ہونگے؟ حالانکہ حقیقتاً یہ شادی کا فیصلہ تو خدا کی طرف سے عطا کیا گیا اعلیٰ منسب ہے جس کو مکمل شعوری طور پر قبول کیا جائے اور ذمہ داری کا مکمل ادراک ہونا چاہیے، روزمرہ سے لے کر تمام بنیادی ضروریات کا تعین کیا جانا چاہیے۔ ایک ضابطے کے ساتھ دونوں فریقین کو ان معاملات کی آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔
تحقیق کے مطابق چند ماہ پہلے صرف ایک ماہ میں سینکڑوں طلاقوں کے کیسز درج ہوئے ہیں۔ آخر ایسی کیا بنیادی وجوہات ہیں؟ ان وجوہات کا ادراک ضروری ہو گیا ہے ایک بنیادی وجہ تو اوپر بیان ہو چکی ہے کہ ہمارے والدین کی شادی اچانک ایک حادثہ تھا، شعوری طور پر فیصلہ نہیں تھا جس کا اثر نفسیاتی طور پر بچوں پر شدید پڑا ہے۔ وہ گھروں کے حالات دیکھتے ہیں اور اس وقت معاشرے کا جو حال ہے ہمارے سامنے ہے پھر کیا توقع کی جا سکتی ہے جب تربیت میں ہی کمی رہ جائے۔
بقول ماہر نفسیات سر سیگمنڈ فرائیڈ "جب بچپن میں بچے جن چیزوں کا اظہار نہیں کر پاتے وہ بعد میں بدترین شکل میں ظہور پزیر ہوتے ہیں جن کو آج ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں"۔
بچوں کی پیدائش کے لیے فریقین کو شعوری طور پر سوچنا، سمجھنا چاہیے کہ اس کمپٹیشن کے دور میں وہ سروایو کیسے کرے گا؟ اس کے لیے فنانشلی سٹیبلٹی ہمارے پاس کتنی موجود ہے؟ اور ان سب سے بڑھ کر بچہ کی پیدائش سے پہلے اس بات کا جائزہ لیا جائے کے فریقین کے آپس میں تعلقات کیسے ہیں، ایک نئی روح کی پیدائش کے لیے سازگار بھی ہیں؟ یا نفسیاتی بیماریوں میں گھِرا ایک نومولود جنم دینگے جو پوری زندگی بوجھ سمجھ کر کاٹے گا۔ گھروں میں والدین کا آپسی تعلق بچہ پر گہرا اثر رکھتا ہے اس بات کو ماہرینِ نفسیات نے بار بار بتایا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ اب اس طرح کے الفاظ استہزاء کے طور پر استعمال ہرگز نہیں کیئے جانے چاہئیں، شادی کر کے یہ ہو گیا ویسا ہو گیا وغیرہ اور دوسری شادی جیسی گفتگو اور لطائف عام ملتے ہیں اس سے بچہ اور بچی دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں عجیب خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ نجانے شادی کرنا زہر کھانے کے جیسا ہے۔ ہر شادی شدہ ایک طرف روتا ہوا نظر آتا خوامخواہ اور ساتھ ساتھ ایک اور شادی کا اظہار بھی استہزاء کے طور کرتا ہے۔
یہ عجب دو رخی ہے ہمارے معاشرے میں کہ گھریلو حالات پہلے بہتر نہیں ہیں تو اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ ان حالات کو بہتر کیا جائے تب ہی ٹھیک ہونگے یہ کونسا سائنسی فارمولا ہے کہ دوسری شادی اگلے پچھلے سب معاملات بہتر کر دے گی؟ اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور ان کو عقلی طور پر مکمل سمجھ کر سلجھائے جائیں تاکہ نومولود گھر کے ساتھ ساتھ بچوں پر بھی مثبت اثر پڑے تاکہ آنے والی نسل بھی گھر سے سیکھ کر خود بھی ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں سے واقف ہوں اور ان کو ایمانداری اور ذمہ داری سمجھ کر ادا کریں۔