1. ہوم
  2. کالمز
  3. ریٔس احمد کمار
  4. گردِ شبِ خیال

گردِ شبِ خیال

جنوبی کشمیر کے اکنگام گاؤں سے تعلق رکھنے والے فاضل شفیع بٹ قلیل مدت میں ہی ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے کالم، تبصرے اور خاص کر افسانے ادبی حلقوں میں مسلسل پزیرائی حاصل کر رہے ہیں جو ریاست، ملک اور بیرون ملکوں کے متعدد روزناموں، رسالوں اور جریدوں میں چھپتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ گرد شب خیال منظر عام پر آیا ہے جو فکشن رائٹرز گلڈ کی ایک خصوصی نشت کے دوران رلیز ہوا ہے۔ اب تک اس مجموعہ پر بہت سے ادیبوں اور لکھاریوں نے اپنے تبصرے تحریر کئے ہیں جو نامور روزناموں اور رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ مجموعہ 158 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کل پچیس افسانے شامل ہیں۔ اس کا سرورق دیدہ زیب ہے اور مشہور پبلشر جی این کے پبلیکیشنز کے زریعے اسے شائع کروایا گیا ہے۔

فاضل شفیع نے اس مجوعہ کو اپنے مرحوم والد، والدہ، شریک حیات، اپنی لخت جگر اور رہبر و استاد معراج زرگر صاحب کے نام کیا ہے۔ مجموعہ کا پیش لفظ خود قلمبند کرتے ہوئے فاضل شفیع بٹ کا ماننا ہے کہ اردو ادب سے محبت ان کا پہلا عشق تھا اور بھارتی بحریہ سے سبکدوش ہوتے ہی انہوں نے مضامین اور افسانے قلمبند کرنے شروع کر دیے۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ اس افسانوی مجموعے کا عنوان معراج زرگر صاحب نے تجویز کیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ان کے استاد اور رہبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

معراج زرگر صاحب اس کتاب پر تبصراتی تحریر قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فاضل شفیع کی تحریروں میں ایک سادگی اور اپنے ماحول، اپنے لوگوں اور اپنے سماج میں پیش آئے واقعات کی برملا عکاسی ہوتی ہے۔ نسیم اشق جن کا تعلق کولکتہ مغربی بنگال سے ہے نے بھی اس مجموعہ پر اپنے مختصر مگر جامعہ تاثرات تحریر کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاضل شفیع نے زندگی کا جو مشاہدہ کیا ہے ان کے افسانوں میں جابجا نظر آتا ہے، زندگی کے ان مسائل کے تلخ تجربات کے نقوش بدرجہ اتم ملتے ہیں۔

ٹریلر، یہ افسانہ اس مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے جس میں فاضل انسانی فطرت کے کئی پہلوں کو دکھانے کی کامیاب کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ افسانے کے زریعے ایک منفرد اور خوبصورت انداز میں دکھایا گیا ہے کہ انسان کس طرح دنیاوی زندگی کو ہر وقت ترجیح دے کر اپنے رب کو بھول کر اپنی آخرت کو برباد کرتا ہے۔ رشوت خوری، چوری، دھوکہ دہی اور بے ایمانی آج کے مسلمانوں میں گویا ہروقت ساتھ رہتی ہے اور اپنے مفادات کے خاطر انہی کا سہارا لے کر زندگی کے ایام گزارتا ہے اور قانون قدرت کی دھجیاں اڑاتا ہے۔

کفران نعمت، اس افسانوی مجموعہ کے چند بہترین افسانوں میں یہ ایک ہے۔ آج کے سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں انسانی زندگی پہلے کے مقابلے میں کافی آسان اور آرام دہ بن چکی ہے وہیں انسانی قدریں پامال ہوتی جارہی ہیں اور اخلاقیات کا جنازہ نکل کر ہم سب کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ شادی کے بعد بہت سے جوڑے اولاد کی نعمت سے محروم ہی رہتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ایک ہی اولاد ہوتی ہے۔ اپنے گھروں اور سماج میں انہیں کس طرح ستایا جاتا ہے الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔ ایسے ہی ایک جوڑے کی کہانی کو افسانوی رنگ دے کر افسانہ نگار نے دلکش انداز میں بیٹی کی شفقت اور محبت کو الفاظ میں بیان کیا ہے جسے پڑھ کر قاری اتفاق کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بیٹی بھی ایک بیٹے کی طرح ہوتی ہے اور اگر اسے بھی پیار و محبت اور شفقت سے پالا پوسا جائے اور اچھی تربیت دی جائے تو وہ دن دور نہیں جب وہ بھی اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کرے گی اور والدین کی ہر وقت فرمانبرداری اور خدمت کرتی رہے گی۔

شب خون، اس افسانے میں مصنف نے ایک اہم مسلے کی نشاندہی کی ہے۔ یتیم اور لاچار لوگوں کے مال اور اراضی کو کس طرح آج کے نام نہاد مسلمان ہڑپ کرکے مساجد اور عیدگاہ جیسے عبادت گاہیں تعمیر کرواتے ہیں، ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ ہمارے قانون دان بھی حق کا ساتھ دینے کے بجائے پیسوں کے عوض کس طرح بک جاتے ہیں اس کہانی میں خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

گند کے کیڑے، فاضل شفیع نے افسانوی رنگ دے کر ایک منفرد کہانی کے زریعے درند اور شیطان صفت انسانی روپ رکھنے والے سماج دشمن عناصر کے کارکرتوت کو بہتر انداز میں بیان کیا ہے جو ایک گدھ کی طرح ہمیشہ حرام کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ اتنے اندھے بن جاتے ہیں کہ حلال اور حرام کی تمیز کرنا کھو دیتے ہیں۔ اس کہانی سے یہ باور کرایا گیا ہے کہ مکافات عمل کے زریعے ماضی میں کئے ہوئے غلط اور ناجائز فعل مستقبل میں کس طرح شرمندہ کردیتے ہیں اور پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔

رہائی، شاعروں اور نثر نگاروں نے بند پرندوں کی روداد مختلف انداز میں بیان کی ہے۔ مختلف زبانوں میں پرندوں کی آزادی اور پنجرے میں بند پرندوں کی اس آزادی کو چھیننا کس قدر ملامت کی نگاہ سے دیکھا اور بیان کیا گیا ہے ہمارا اردو ادب تحریرات سے بھرا ہوا ہے۔ فاضل شفیع نے بھی ایسی ہی ایک خوبصورت تخلیق لکھ ڈالی ہے جس میں ایک چھوٹی ننھی سی پری اپنے باپ کو ایک خوبصورت پرندہ خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسے پرندے کی آزادی کا بالکل بھی خیال نہیں رہتا ہے بلکہ جب ایک پرندے کو آزاد چھوڑا جاتا ہے تو اس کا دل مغموم ہو جاتا ہے۔

خواب شہر، دیہات میں سہولت وغیرہ نہ ہونے کی بنا پر اکثر صاحب ثروت لوگ شہروں اور قصبوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ پکی سڑکیں، جدید طرز کے تعلیمی ادارے اور ہسپتال وغیرہ کی سہولیات عام لوگوں کو بھی راغب کرتی ہیں۔ حالانکہ دیہاتوں کا پرسکون ماحول، صاف و شفاف پانی کے زخائر اور سیدھے سادھے لوگ شہروں اور قصبوں میں نہیں ملتے ہیں بلکہ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد گاؤں کی زندگی کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور اپنی مٹی اور اپنے آبائی وطنوں سے پیار اور دلی لگاو رکھتے ہیں۔

اسی موضوع پر فاضل نے بھی ایک بیانیہ تحریر لکھی ہے جس میں ایک گاؤں کا مکین اپنی ساری جائداد بیچ کر شہر میں رہنا چاہتا ہے۔ فاضل شفیع بٹ کی کہانیاں عام فہم اور سادہ الفاظ میں بیان ہوئی ہے تاکہ قاری کو بنیادی موضوع اور پیغام سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ ہو۔ الفاظ کی روانی اور ان کا مناسب استعمال فاضل کے افسانوں کو ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے اور قاری ایسی تخلیقات پڑھنا بے حد پسند کرتا ہے۔