دل نے دیکھے ہیں ارادے زیست کے
موت بھی اب زندوں میں کہاں آتی ہے
بےبسی ایسی کہ وحشت کا ہے جنگل
دشت میں پیاس کو آنسو کی زباں آتی ہے
شکست آرزو ہے اک درد بے خود
داستاں یہ از روے خواں آتی ہے
خرد نے پاے ہیں ویرانیوں کے اتھاہ بحر
یہ وہ عہد ہے جسے تشکیل بتاں آتی ہے
رنگ اور روپ جوانی سے ایستادہ ہیں
عشوہ و غمزہ سے تجدید فغاں آتی ہے
اے قلب ژولیدہ! تیرے اقرار وفا پر قرباں
اک تبسم کی ادا بہ سر اشک نہاں آتی ہے
بے ارادہ اداے ناز۔۔ منشاےعروج نہ تھی