سب فریق متحرک ہوگئے ہیں اور سب کو جلدی ہے۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد طالبان کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ اب کی بار انہوں نے قطر، سعودی عرب اور یو اے ای کے حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ ہندوستان اور چین کا بھی دورہ کیا۔ وہاں سے براستہ یو اے ای کابل گئے اور کابل میں تین روز تک تمام مشاورت کے بعد وہ پاکستان پہنچے ہیں۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پنٹاگون اور سی آئی اے کے متعلقہ لوگ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ کابل میں انہوں نے افغان حکومت سے نہیں بلکہ ہائی پیس کونسل اور دیگر متعلقہ لوگوں سے بھی بات چیت کی۔ ماضی کی کوششوں کے مقابلے میں فرق یہ ہے کہ اب کی بار زلمے خلیل زاد حد درجہ سنجیدہ ہیں اور انہیں جلدی بھی ہے۔ ان پر زیادہ دبائو اپنے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ہے۔ خلیل زاد، سی آئی اے، پنٹا گون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ڈر ہے کہ اگر انہوں نے کوئی حل نہ نکالا تو عنقریب اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ یکطرفہ طور پر کوئی بھی بڑ ااعلان کرسکتے ہیں۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ کو افغان مسئلے کے حل میں زیادہ دلچسپی نہیں لیکن وہ بہر صورت اخراجات کم کرنا چاہتے ہیں اور خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ اس سوچ کے تحت وہ کوئی بھی عاجلانہ اور غیرعاقلانہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ افغان حکومت بھی پہلی بار حد سنجیدگی دکھارہی ہے او راسے بھی جلدی ہے۔ افغان حکومت بھی سب سے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ سے خوفزدہ ہے۔ ان کی طرف سے افغانستان سے افواج کے انخلا کے اشارے نے افغان حکومت کے مورال پر کافی اثر ڈالا ہے۔ افغان حکومت کو خدشہ ہے کہ کہیں امریکی اسے اسی حالت میں تنہا چھوڑ کر نکل نہ جائیں۔ اسے یہ بھی خوف لاحق ہے کہ اسے بائی پاس کرکے کہیں امریکہ اور پاکستان مل کر طالبان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کرلیں جو افغانستان نہیں بلکہ خود افغان حکومت کے لئے بھی تباہ کن ہوگا۔ اسی خوف کے پیش نظر افغان حکومت نے جہاں ایک طرف داخلی محاذ پر طالبان کے ساتھ رابطے بڑھادئیے ہیں وہاں وہ وقتی طور پر سہی لیکن پاکستان کے آگے بالکل سرنڈر ہوگیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی جو گزشتہ دو سالوں کے دوران پاکستان سے شدید ناراض تھے مسلسل مثبت پیغامات بھیج رہے ہیں۔ اپنے خصوصی نمائندے محمد عمر دائود زئی کے ذریعے انہوں نے پاکستانی حکام کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگر پاکستان طالبان کے ساتھ مفاہمت میں سنجیدگی دکھائے تو وہ جواب میں ان کے ملک کے حوالے سے پاکستان کے تمام خدشات کو رفع کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ پیغامات وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی مسلسل دے رہے ہیں اور اگر اس موقع پر پاکستان بھی گرمجوشی دکھائے تو مجھے یقین ہے کہ افغان حکومت پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون کے معاہدے کے لئے بھی تیار ہوجائے گی۔
پاکستان مفاہمتی عمل کو کامیاب بنانے کے لئے پہلی بار پوری طرح کمربستہ ہوا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صرف جلوتوں میں نہیں بلکہ خلوتوں میں بھی یہی عزم ظاہر کررہے ہیں کہ افغان بحران کو بہر صورت حل کرلینا چاہئے۔ طالبان کو مفاہمت کے لئے آمادہ کرنے کی غرض سے انہوں نے ان دنوں پوری قوت لگا رکھی ہے۔ نہ صرف آئی ایس آئی پوری طرح سرگرم عمل ہے بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ ذاتی طور پر ان سیاسی اور مذہبی عناصر سے کام لے رہے ہیں جو طالبان پر کسی نہ کسی شکل میں اثر ڈال سکتے ہیں۔ طالبان کا منت ترلہ تو ہوہی رہا ہے پہلی بار طالبان شکایت کررہے ہیں کہ پاکستان دبائو ڈال کر ان کو مجبور کررہا ہے اور گزشتہ روز پشاور سے طالبان کے ایک سابق وزیر کی گرفتاری کو وہ اس دبائو کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سنجیدگی کی وجہ صرف یہ نہیں کہ اس کی موجودہ عسکری قیادت دلی طور پر مسئلے کے حل کا خواہش مند ہے بلکہ پاکستانی حکام کو بھی یہ خوف لاحق ہے کہ اگر امریکہ افغانستان کو اسی حال پر چھوڑ کر چلا گیا تو وہاں پر خانہ جنگی سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا۔ ادھر امریکہ نے بھرپور دبائو ڈال رکھا ہے اور تعاون کی صورت میں آئی ایم ایف وغیرہ کے معاملات میں مدد کا لالچ بھی دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں اپنی خواہش پر یا پھر امریکہ کے ایماپر سعودی عرب، یواے ای اور قطر کی طرف سے بھی پاکستان کو بار بار کہلوایا جارہا ہے کہ وہ طالبان کو مفاہمت کے لئے آمادہ کرلیں۔ اور تو اور چین بھی پاکستان کو امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ تعاون سے منع نہیں کررہا ہے بلکہ وہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن کا متمنی ہے۔ یوں پاکستان پہلی بار تمام تر وسائل بروئے کار لارہا ہے۔ اب کی بار پاکستان کی سنجیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سردست ہندوستان کو اس عمل سے باہر رکھا گیا ہے اور افغان حکومت مستقبل کے حوالے سے اس کے خدشات کا ازالہ کرنے کو بھی تیار نظر آتی ہے۔
مذکورہ تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں امن کے حوالے سے اب یا کبھی نہیں والی صورت حال بن گئی ہے۔ مفاہمتی عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ اپنے ہاں کے تضاد کو ختم کردے اور وائٹ ہائوس سمیت تمام ادارے افغانستان کے حوالے سے ایک فارمولے کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ امریکہ اب بھی بعض اوقات پاکستان کے ساتھ اور بعض اوقات افغان حکومت کے ساتھ کھیلتا ہوا نظر آتاہے۔ اسے ڈبل گیم ختم کرکے پاکستان اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایک قابل عمل فارمولا سامنے رکھنا چاہئے۔ اب اسے اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ پاکستان کے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن ساتھ ساتھ دونوں کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہے کہ افغان حکومت کے بغیر بھی معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افغان حکومت کمزور سہی لیکن وہ کسی بھی عمل کو کسی بھی وقت سبوتاژ کرسکتی ہے۔ اسی طرح ایران جیسے ممالک کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا اور ایران کو امریکہ براہ راست اعتماد میں نہیں لے سکتا بلکہ یہ کام صرف افغان حکومت ہی کرسکتی ہے۔ اسی طرح امریکہ ہندوستان کو اعتماد میں ضرور لیتا رہے لیکن اسے دخیل کرنے سے باز رہے کیونکہ امن عمل میں پاکستان کو جو کریڈٹ مل رہا ہے اس کے تناظر میں ہندوستان ضرور معاملات کو خراب کرے گا جبکہ دوسری طرف اس کے دخیل ہوجانے سے پاکستان بھی دوبارہ ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔ افغان حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ماضی کی طرح جلدبازی نہ دکھائے اور ہندوستان یا کسی اور کی شہ پر پاکستان کو آنکھیں دکھانے سے گریز کرے۔ افغان حکومت کو چاہئے کہ وہ اسٹرٹیجک پارٹنرشپ معاہدہ کرکے پاکستان کے خدشات کو حقیقی معنوں میں رفع کرے۔ طالبان کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے رویے میں لچک لائیں۔ انہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ افواج نکالنے کے معاملے پر امریکی کسی بھی وقت یوٹرن لے سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ طالبان کو شکست نہیں دی جاسکی لیکن طالبان کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ افغان عوام اور خطے کے ممالک بھی جنگوں سے تنگ آچکے ہیں۔ طالبان نے نیٹوافواج کے مقابلے میں تاریخی جنگ لڑی ہے لیکن اگر پاکستان، سعودی عرب، یو اے ای ور قطر جیسے ممالک بھی مخالف بن گئے تو پھر ان کا کام بہت مشکل ہوجائے گا۔