المیہ یہ ہے کہ چینی عمران خان کو اس طرح مغرب مخالف نہیں سمجھتے جس طرح وہ اپنے آپ کو پاکستان میں پیش کرتے رہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران پاک چین تعلقات اور سی پیک کو عمران خان صاحب اسٹرٹیجک آئینے میں دیکھنے کے بجائے میاں نوازشریف کے آئینے میں دیکھتے رہے۔ تنائو کا آغاز دھرنوں کے دوران ہوا۔ تب چینی صدر پاکستان کے دورے پر آرہے تھے۔ انہوں نے بی آر آئی (Belt and road initiative)کے تحت پورے خطے کے دوروں کا پروگرام شیڈول کیا تھا۔ سی پیک، بی آر آئی کا ایک اہم پروجیکٹ تھا اور دورہ پاکستان خطے کے ممالک کے دوروں میں سے ایک اہم دورہ تھا۔ تب چینی صدر کے دورے کا تعطل صرف ایک دورے کا تعطل نہیں تھا بلکہ بی آر آئی منصوبے کی پوری ترتیب اس سے متاثر ہورہی تھی۔ چنانچہ چینی سفارتکاروں کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان کا دورہ شیڈول کے مطابق ہو اور اس سلسلے میں چینی سفیر نے چوہدری شجاعت حسین جیسے لوگوں کی منتیں بھی کیں لیکن افسوس کہ عمران خان صاحب اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ صرف دورہ ملتوی نہیں ہوا بلکہ دھرنوں کے دوران عمران خان صاحب نے چینی صدر کے دورے کا یہ کہہ کر مذاق بھی اڑا دیا کہ وہ تو سرے سے پاکستان آہی نہیں رہے تھے۔ اسی طرح انہوں نے پہلے سی پیک میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور پھر جب دھرنوں سے فارغ ہوگئے تو اس کے پیچھے پڑ گئے۔ وہ سی پیک منصوبوں پر معترض تھے اور بار بار سوال اٹھاتے رہے کہ شریفوں نے اس میں بڑا گھپلا کیا ہے۔ دوسری طرف ان کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے دھمکیاں دینا شروع کردیں کہ وہ اپنے صوبے سے سی پیک کو گزرنے نہیں دیں گے۔ یوں پاکستان میں چین اور پی ٹی آئی کے مابین خلیج بڑھتی گئی۔ جب پاکستان میں پانامہ پر غلغلہ بپا ہوا اور یہ واضح ہونے لگا کہ مستقبل میں نوازشریف کی گنجائش نہیں تو پاکستان کی ایک مقتدر شخصیت نے چینیوں سے بات کی کہ وہ عمران خان کے ساتھ فاصلے کم کردیں جبکہ خود عمران خان کو بھی بتایا گیا کہ وہ چینیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنالیں۔ پہل چینیوں نے کی اور انہیں دورہ چین کی دعوت دے دی۔ چینی وزارت خارجہ نے ان کے دورے کو بھرپور بنانے کے لئے پورا شیڈول تیار کیا اور اہم اداروں اور شخصیات سے ان کی ملاقاتیں بھی شیڈول کردیں لیکن روانگی سے ایک روز قبل اپنا دورہ چین عمران خان نے یہ کہہ کر ملتوی کردیا کہ چونکہ پانامہ کا فیصلہ آنے والا ہے اس لئے وہ فی الحال چین نہیں جاسکتے۔ ان کی اس حرکت کا بھی چینیوں نے بہت برا منایا اور خصوصاََ پاکستان میں چینی سفارتکاروں نے تو اسے اپنی توہین سے تعبیر کیا۔ بہر حال انتخابات منعقد ہوئے اورنتیجتاً عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ ان کے وزیراعظم بن جانے سے شاید چینی، شریف برادران سے بھی زیادہ پریشان تھے لیکن چونکہ ان کی دوستی پاکستان کے ساتھ ہے اس لئے انہوں نے نئی حکومت کے ساتھ کام کی کوششیں شروع کردیں۔ چین میں پاکستان کے سفارتخانے کی کوشش تھی کہ چینی صدر عمران احمد خان نیازی کو مبارک باد کے لئے فون کرے کیونکہ میاں نوازشریف کو صدر نے فون کیا تھا لیکن چین کی طرف سے صرف وزیراعظم کے فون پر اکتفا کیا گیا۔ جس کا ظاہر ہے عمران خان صاحب نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور لیا ہوگا اور شاید یہی وجہ تھی کہ کابینہ کے پہلے اجلاس میں سی پیک کے منصوبوں کو ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ چینیوں کے لئے کسی بم شیل سے کم نہ تھا۔ اپنی تشویش کے اظہار کے لئے چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کے دورے کا پروگرام بنایا لیکن نئی حکومت نے ان سے متعلق وہ گرمجوشی نہیں دکھائی جو پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں دکھائی جاتی تھی۔ چینی وزیرخارجہ جب پچھلی مرتبہ پاکستان آئے تھے تو ہوائی اڈے پر وزارت خارجہ کے حکام کے علاوہ خود شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا تھا لیکن نیازی حکومت نے ان کا استقبال دفتر خارجہ کے ایک معمولی افسر سے کروا دیا۔ بہرحال اپنے دورے کے دوران انہوں نے پاکستانی حکام کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور یہ واضح کیا کہ ان کی حکومت ہر معاملے کو ری اوپن کرنے کوتیار ہے لیکن عوامی سطح پر پروجیکٹ کو متنازع بنانے کے بجائے جے سی سی جیسے متعلقہ فورمز پر بات کی جائے۔ تاہم ابھی چینی وزیرخارجہ اپنے ملک واپس نہیں پہنچے تھے کہ مشیرتجارت عبدالرزاق دائود نے مغربی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا کہ سی پیک پر ایک سال کے لئے کام روکا جاسکتا ہے۔ اس بیان نے تو گویا چینیوں کی نیندیں اڑا دیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت کی مداخلت پر اگرچہ بعدازاں اس بیان کو واپس لے لیا گیا لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا تھا اور مجبور ہوکر چینی سفارتخانے کو سی پیک سے متعلق وضاحتی بیان دینا پڑا۔ ان حرکتوں سے چینیوں کی بے چینی مایوسی میں بدل گئی اور یہی وجہ تھی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ، جنہوں نے پہلے شیڈول کے مطابق وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب جانا تھا، چین جاپہنچے۔ انہوں نے چینی قیادت کو سی پیک کے حوالے سے مطمئن کیا اور نئی حکومت کی حرکتوں سے جن خدشات نے جنم لیا تھا ان کو رفع کرنے کی کوشش کی۔ ان کے دورہ چین کے موقع پر ہی یہ طے ہوا کہ وزیراعظم پاکستان چین کا دورہ کریں گے اور چینی قیادت کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ کے طےپانے والے معاملات کو آگے بڑھائیں گے لیکن ابھی جنرل قمر جاوید باجوہ واپس نہیں پہنچے تھے کہ سعودی عرب کے دورے سے واپسی پر اسے سی پیک کا اسٹرٹیجک پارٹنر بنانے کے وفاقی وزراکے بیانات نے ایک بار پھر چینیوں کو پریشان کردیا اور یوں ایک بار پھر عسکری قیادت کی مداخلت پر چینیوں کے اطمینان کے لئے اسد عمر اور فواد چوہدری کو پریس کانفرنس کرکے اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر کے بیان سے رجوع کرنا پڑا۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کے دورہ چین کا مرحلہ آیا لیکن جانے سے قبل حکومتی وزرا نے ایسا تاثر دے دیا کہ جیسے وہ چین پہنچے نہیں اور وہاں سے ڈالروں کی بارش شروع ہوجائے گی تاہم وہاں پہنچ کر انہیں ایک دوسری طرح کی صور تحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ائیرپورٹ پر وزیراعظم کا استقبال ٹرانسپورٹ کے نائب وزیرنے کیا۔ پھر جب چینی قیادت کے ساتھ مذاکرات ہوئے تو وزرا کی عدم تیاری کی وجہ سے کئی مواقع پرپاکستانی وفد کو سبکی اٹھانا پڑی۔ میٹنگ کے دوران چینی قیادت نے عبدالرزاق دائود کی نجی کمپنی کےچینی کمپنی کے ساتھ معاملات کا ذکر کرکے جیسے منہ پر تھپڑ رسید کیا۔ سی پیک کے انچارج وزیر خسرو بختیار نے چینیوں کے سامنے بھی روایتی لفاظی سے کام لیا لیکن کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہ رکھ سکے جس کا چینیوں نے انہیں احساس بھی دلایا۔ افسوسناک بات یہ تھی کہ وزیراعظم صاحب نے چینی قیادت کے سامنے بھی روایتی تقریر کی جس کے جواب میں چینی قیادت نے جو کچھ کہا اسے جھاڑ پلانے کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح چینی قیادت سے مدد تو طلب کی گئی لیکن کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں رکھا گیا۔ چینی قیادت نے مدد کی ہامی تو بھرلی لیکن جب پاکستانی وفد سے یہ پوچھا کہ کس مد میں، کس منصوبے کے تحت وہ کیا مدد کرسکتی ہے توپھر ٹیبل پر کوئی منصوبہ موجود نہیں تھا۔ اس لئے یہ طے کیا گیا کہ دورے کے فوراً بعد پاکستانی ماہرین جاکر چینی ماہرین کے ساتھ لائحہ عمل طے کریں گے۔ چینی قیادت کس حد تک بددل ہوئی اس کا اندازہ چینی صدر زی کا وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مصافحے کی تصویر میں بیزاری سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے اور وزیراعظم کس قدر بددل ہوکر واپس لوٹے ہیں یہ تو وہ جانتے ہیں۔ اب حکومتی ترجمان تو دعوے کررہے ہیں کہ دورہ چین بے انتہا کامیاب رہا لیکن درون خانہ وزیراعظم اور وزرا اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر زیادہ خوش نہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اب وہ مزید برہم ہوکر مزید ایسے اقدامات نہ کر بیٹھیں، جو چین کے ساتھ معاملات کو مزید خراب کردیں۔