کرپشن کی ایک قسم وہ ہے کہ جس میں کوئی شخص براہ راست رشوت یا کمیشن لیتا اور اپنے یا اپنے خاندان کے اثاثے بڑھاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر زیادہ تر یہی الزام لگتا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جس میں کوئی شخص اپنی سیاست یا انتظامی حیثیت کو استعمال کرکے اپنے لئے حکومتی اداروں سے رعایت لیتااور اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر اگرچہ پہلی قسم کا الزام بھی لگتا ہے لیکن زیادہ تر وہ کرپشن کی دوسری قسم کی ملزم ہے۔ ایک اور قسم جو پی ٹی آئی کی قیادت نے متعارف کرائی ہے، یہ ہے کہ وہ شخص خود تو رقم نہیں لیتا اور نہ اپنے اثاثے بڑھاتا ہے لیکن ایسے لوگوں کو عہدے دلواتا ہے کہ جو کماتے اور پھر اس شخص یا اس کی جماعت پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ خود تو اپنا ہاتھ صاف رکھتا ہے لیکن اس کی عنایت سے ملے ہوئے اختیار کو استعمال کرکے یا پھراس کے سایہ میں پناہ لے کر، کرپٹ اپنے لئے کماتے اور اس پر یا اس کی پارٹی پر لٹاتے ہیں۔ یوں ملک کی تینوں بڑی جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی یکساں کرپٹ ہیں۔ فرق ہے تو بس مقدار یا طریق واردات کا فرق ہے۔ اسی لئے اپنی تو عرصہ دراز سے یہ رائے رہی ہے کہ آصف علی زرداری، میاں نوازشریف اور عمران خان مذکورہ اور کئی دیگر حوالوں سے ایک ہی سکے کے مختلف رخ ہیں تاہم جن کو غلط فہمی تھی، ان شاء اللہ عنقریب ان کی بھی دور ہوجائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان جماعتوں کے قائدین کو چوراور ڈاکو کے نام سے مخاطب کرنا مناسب ہے یا نہیں ؟۔ میرے نزدیک نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نہ تو ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ سیاسی اخلاقیات۔ نوازشریف ہوں، آصف علی زرداری یا عمران خان، ہم ان کی غلطیوں کا ذکردلیل اور ثبوت کے ساتھ توکریں گے لیکن انہیں کوئی لقب نہیں دیں گے۔ ہم لیڈر کی چوری کا ذکر دلیل کے ساتھ کرکے اس کی مذمت کریں گے لیکن چور کے لفظ سے نہیں پکاریں گے۔ ہم ان کی کرپشن کو دلیل اور ثبوت کے ساتھ بے نقاب کرکے ان کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کریں گے لیکن کسی کو کرپٹ کا ٹائٹل نہیں دیں گے۔ یہی رہنمائی قرآن وسنت نے ہماری کی ہے۔ مثلاً قرآن میں اہل کتاب کی مشرکانہ حرکتوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور اس پر سزا کی وعید بھی سنائی گئی ہے لیکن اللہ نے اہل کتاب کو مشرک یا کافر کے لفظ سے نہیں پکارا۔ اسی طرح منافقین کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے لیکن جب تک عبداللہ ابن ابی کے بارے میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی، حضور نبی کریم ﷺ نے اسے منافق کا ٹائٹل نہیں دیا۔ خاتون اول صاحبہ نے وزیراعظم صاحب سے ایسے ایسے کام بھی کروادئیے کہ جن کا ان کے بارے میں تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ وزیراعظم صاحب کو دین کے ان واضح احکامات کے بارےمیں نہیں بتاتیں اور اگر وہ بتاتی ہیں تو پھر نہ جانے ان کی ہر بات کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے وزیراعظم صاحب اس ضمن میں ان کی ہدایات پر عمل کیوں نہیں کرتے۔
جب وزیراعظم عمران خان یا پھر ان کے ترجمان کہتے ہیں کہ چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو نہ کہیں تو اور کیا کہیں، تو بظاہر یہ فقرہ دل کو بہت بھاتا ہے لیکن سیاسی اخلاقیات کے ترازو میں تولا جائے تو اس سے لغو بات کوئی اور ہو نہیں سکتی۔ ظاہر ہے جس طرح عمران خان صاحب کے چاہنے والے ہیں، اسی طرح دیگر سیاسی اور مذہبی قائدین کے بھی چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ جب آپ کسی لیڈر کو چور، ڈاکویا زانی جیسے لفظ کے ساتھ پکارتے ہیں تو ان تمام پیروکاروں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ اگر چل نکلے گا تو پھر دور تلک جائے گا اور کہیں نہیں رکے گا۔ اگر چوری کے ملزم سیاستدان کو چور کہنا اور ڈاکے کے ملزم سیاستدان کو ڈاکو کہنا ضروری ہے تو پھرسنگین غداری کے ملزم پرویز مشرف کو بھی غدار کے نام سے پکارنا ہوگا۔ ان کے خلاف قتل کے مقدمات بھی چل رہے ہیں اور پھر ان کے نام کے ساتھ قاتل کا لاحقہ یا سابقہ بھی لگانا ہوگا۔ اسی طرح جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے جھوٹ اور غلط بیانی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ پھر توجہانگیر ترین کو جھوٹے اور مکار کا خطاب دینا ہوگا۔ اسی طرح بہت سارے لوگ مروجہ معنوں میں بدکردار مشہور ہیں، پھر ان کو بھی زانی زانی کہہ کرپکارنا ہوگا۔ پھر شراب نوشی کے ملزموں کو شرابی اور چرس پینے والوں کو چرسی پکارنا ہوگا۔ بدعنوانی کا الزام بابر اعوان پر بھی ہے، پرویز خٹک پر بھی اور خود وزیراعظم کے خلاف بھی نیب میں تحقیقات ہورہی ہیں۔ پھر کیا ان کو بھی ڈاکو کہا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے عمران خان کے خلاف پارٹی فنڈز میں چوری کا الزام عائد کرکے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ پھر کیا ہم انہیں بھی چور کہہ کر پکاریں گے۔ اگر تو وزیراعظم صاحب اور ان کے ترجمان کرپشن کے ہر ملزم کو چور، جنرل پرویز مشرف کو غدار یا قاتل، زنا کے ملزموں کو زانی، شراب پینے والوں کو شرابی اور چرس پینے والوں کو چرسی کے ناموں سے پکار سکتے ہیں تو پھر بلاشبہ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی چور اور ڈاکو پکاریں لیکن اگر باقی جگہوں پر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر اپنے سیاسی مخالفین کو بھی ان القابات سے پکارنے سے گریز کریں تاکہ سیاسی ماحول مزید گندانہ ہو۔
جب وزیراعظم یا ان کے وزیراطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کی حکومت چوروں کی حکومتیں تھیں (چوہدری پرویز الٰہی کو تو خود عمران خان پنجاب کا سب سے بڑا جھوٹا قرار دے چکے ہیں) تو وہ بالواسطہ اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے قریبی ساتھیوں کو بھی اس نام سے پکار کر لوگوں کی نظروں میں گراتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اگر چوروں کی حکومت تھی تو شاہ محمود قریشی، بابر اعوان، پرویز خٹک اور فواد چوہدری وغیرہ اس کا حصہ تھے۔ مسلم لیگ (ق) کی حکومت اگر چوروں کی حکومت تھی تو جہانگیر ترین، میاں محمد سومرو، زبیدہ جلال اور کئی دیگر لوگ اس کا حصہ تھے۔ وہ اگر نون لیگ کی حکومت کو چوروں کی حکومت کہتے ہیں توخسرو بختیار، عمر ایوب اور اسی طرح کے دیگر درجنوں رہنما اس کا حصہ تھے۔ آخر اسد عمر کیا محسوس کریں گے کہ جب ان کی موجودگی میں ان کے لیڈر ان کے سگے بھائی زبیر عمر (جو نواز شریف حکومت کے معاشی پالیسی ساز ٹیم کے اہم کھلاڑی اور گورنر سندھ تھے) کو چور کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہمارے دوست فواد چوہدری تو پرویز مشرف کی ٹیم کا بھی حصہ تھے، پیپلز پارٹی کی حکومت کا بھی اور گزشتہ انتخاب مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر لڑا۔ اس کلیے کی رو سے وہ خاکم بدہن تین اطراف سے چور اور ڈاکو قرار پاتے ہیں لیکن اپنے قائد ان کو روز مجبور کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کو بھی چور اور ڈاکو کا طعنہ دیں اور اپنے آپ کو بھی۔ اس سے تو بہتر ہوگا کہ وزیراعظم صاحب اپنی ٹیم کے ارکان کو پابند بنائیں کہ وہ ہر صبح کا آغاز اپنے آپ کو دو تین گالیاں دینے سے کیا کریں۔ یوں ان کی تسکین بھی ہوتی رہے گی اور سیاسی ماحول بھی خراب نہیں ہوگا۔