سیاست اور سفارت کے میدانوں میں کوئی بات بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں ہوسکتی۔ یہ گرے ایریاز سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں ذاتی تعلقات کی طرح کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ مستقل دشمن۔ یہاں جذبات نہیں بلکہ مفادات محرک ہوتے ہیں۔ مذہب، مسلک، تاریخ، زبان اور کلچر وغیرہ کے جذبات ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ضرور ہوتے ہیں لیکن ملکوں کے تعلقات کبھی ان کے تابع نہیں رہتے۔ تاہم پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کا مہار ان کی نزاکتوں سے نابلد لوگوں کے ہاتھ میں رہتا ہے یا پھر عملاً وہ لوگ ڈرائیونگ سیٹ پر رہتے ہیں جو ہر معاملے کو بلیک اینڈ وائٹ انداز میں دیکھتے ہیں۔ اوپر سے المیہ یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کہیں مذہب کی تابع ہے، کہیں مسلک کی، کہیں زبان کی، کہیں تاریخ اور کہیں کلچر کی۔ کہیں ہم دنیا کی دیگر اقوام کی طرح اپنی پالیسی مفادات کی بنیاد پر بناتے نظر آتے ہیں تو کہیں صرف اور صرف جذبات کی بنیاد پر۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی ایک انتہا پر نظر آتے ہیں تو کبھی دوسری پر، کہیں ایک الجھن کے شکاررہتے ہیں اور کہیں دوسری کے۔
گزشتہ عشرے میں امریکہ اور چین کی مخاصمت شروع ہوئی اور امریکہ نے اس کے تناظر میں ہندوستان کو خطے میں اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنانا شروع کیا تو ہمارے پالیسی ساز ناراض ہوگئے۔ یوں ایک طرف چینی اور روسی کیمپ میں جانے کا فیصلہ ہوا تو دوسری طرف افغانستان میں امریکہ کے ساتھ اندھے تعاون کی پالیسی پر نظرثانی کی گئی۔ مخالف سمت میں سفر کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا جب آصف علی زرداری نے ملک ریاض اور عقیل کریم ڈھیڈی جیسے ذاتی دوستوں کی جیبوں سے اربوں روپے خرچ کروا کر گوادر کی بندرگاہ سنگاپور سے واپس لے کر چین کو دلوادی۔ میاں نوازشریف اقتدار میں آئے تو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز ہوچکا تھا اور سی پیک کا آپشن سامنے آیا۔ افغانستان کے حوالے سے بھی امریکہ کے ساتھ تنائو پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوچکا تھا جو میاں نوازشریف کے دور میں مخاصمت میں بدل گیا۔ بنیادی طور پر پالیسی کی سمت تبدیل کرنے کا یہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کا تھا جسے سیاسی قیادت عملی جامہ پہنا رہی تھی لیکن جس طرح ہماری عادت ہے کہ ہم سوچے سمجھے بغیر ایک انتہا سے دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں، اسی طرح ہم نے یہاں بھی یہ روش اپنا لی۔ ہم نے چین کے ساتھ تعلقات اور معاہدوں کو بھی ایک تقدس فراہم کیا اور اس حوالے سے تنقیدی جائزے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ دوسری طرف ہم نے سی پیک اور چین کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کا ڈھنڈورا اس قدر پیٹاکہ امریکہ اور ہندوستان جیسے حریف ضرورت سے بھی زیادہ شاکی اور متحرک ہوگئے۔ اس دوران بدقسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان اقتصادی بحران کا شکار ہوگیا جس سے نمٹنے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا مجبوری بن گئی۔ اس دوران حکومت تبدیل ہوئی اور جب امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے تو اس کے سیکرٹری خارجہ پومپیو نے واضح کردیا کہ مغرب کے زیراثر عالمی ادارے پاکستان کو سی پیک کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے قرض نہیں دیں گے۔ اس کا واضح پیغام یہ تھا کہ قرض لینا ہے تو چین کے ساتھ معاملات کھول دو اور ان پر نظرثانی کرلو۔ چنانچہ تحریک انصاف کی نئی اور ناتجربہ کار حکومت نے سی پیک معاہدوں پر نظرثانی کا اعلان کیا جبکہ اس کے مشیر عبدالرزاق دائوو نے ایک سال تک کام رکوانے کا بیان داغ دیا۔ وزیراعظم بننے سے قبل عمران احمد خان نیازی کے بارے میں چین کے خیالات مثبت نہیں تھے اور ان کی حکومت کے ان ابتدائی اقدامات سے چینی مزید تشویش میں مبتلا ہوگئے۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے کسی حد تک چینی قیادت کے خدشات رفع کئے لیکن اب پاکستان کی مجبوری یہ تھی کہ آئی ایم ایف سے بچنے کے لئے سعودی عرب سے رجوع کیا جائے۔ سعودی عرب کے دورے میں اس کے سی پیک میں پارٹنر بننے کا معاملہ سامنے آیا۔ پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی بات کی تو چین اور ایران وغیرہ تشویش میں مبتلا ہوگئے۔ چنانچہ پاکستان کو اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے اعلان سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ یوں چین کے ساتھ ساتھ اب سعودی عرب بھی ناراض ہوجائے گا اور اس کی طرف سے کسی بڑے اقتصادی ریلیف کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ چنانچہ واحد آپشن آئی ایم ایف ہی کا رہ گیا۔ اب ظاہر ہے کہ امریکہ کو یہ علم ہوگیا کہ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لئے پاکستان کے پاس اب چین کا آپشن ہے اور نہ سعودی عرب کا، اس لئے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے سخت سے سخت شرائط منوائے گا جن میں سے ایک سی پیک کے معاہدوں کو ری اوپن کرنے اور ان پر نظرثانی کرنے کا بھی ہوسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چند روز قبل کوئٹہ میں وزیراعظم نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ سی پیک کے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے گی لیکن پھر جب چین یا فوج کی طرف سے دبائو آیا تو گزشتہ جمعرات کو کابینہ اجلاس کے بعد وزیراطلاعات فواد چوہدری نے پھر اعلان کیا کہ معاہدوں کو ری اوپن نہیں کیا جارہا ہے۔ یوں ملک کو ایسے دوراہے پر کھڑا کردیا گیا کہ اگر چین کے خدشات دور کرتے ہیں تو امریکہ اور آئی ایم ایف ناراض ہوتے ہیں اور اگر قرضے کے لئے ان کی سخت شرائط تسلیم کی جاتی ہیں تو عوام کے ساتھ ساتھ چین کی ناراضی کا بھی خطرہ ہے۔
دوسری طرف امریکہ کا مطالبہ صرف چین کے حوالے سے نہیں بلکہ اس وقت وہ افغانستان میں پاکستان سے حسب منشا کردار چاہتا ہے۔ پاکستان کے اصرار پر امریکہ طالبان کے ساتھ برہ راست مذاکرات پر تو آمادہ ہوگیا ہے لیکن ایک طرف پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ وہ طالبان پر دبائو ڈالے اور دوسری طرف براہ راست مذاکرات کے عمل سے اس کو باہر بھی رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان اگر وہاں حسب منشا کردار ادا نہیں کرتا تو امریکہ سفارتی اور اقتصادی محاذوں پر دبائو بڑھائے گا۔ پھر جب چین اور سعودی عرب سے بھی ریلیف نہیں مل سکتا تو پھر ہمیں یا تو اس دبائو کے آگے جھک کر افغانستان میں امریکہ کے حسب منشا کردار ادا کرنا ہوگا یا پھر اگر وہاں اپنے مطالبات پر اصرار جاری رکھتے ہیں تو معاشی اور سفارتی محاذوں پر نتائج بھگتنا ہوں گے۔ پھر امریکہ افغانستان میں ہندوستان کے کردار کو بھی مزید وسعت دے گا اور دوسری طرف مشرقی سرحد پر ہندوستان نے جو دبائو بڑھا دیا ہے، امریکہ نہ صرف اس کو اس سے منع نہیں کرے گا بلکہ نریندر مودی اگلے انتخابات کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کا جو ارادہ رکھتا ہے، اس میں بھی اسے امریکہ کی طرف سے تھپکی ملنے کا خدشہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستان امریکہ کا بغل بچہ اور اسٹرٹیجک پارٹنر بہت تیزی کے ساتھ بن گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ روسی کیمپ سے بھی نہیں نکلاجبکہ چین کے ساتھ اس کی دشمنی بھی نہیں بڑھی لیکن پاکستان نے امریکہ کو برہم کرکے بھی اپنے لئے چین اور روس کو پوری طرح متبادل بھی نہیں بنایا۔ چین کی وجہ سے امریکہ کو ناراض کیا لیکن اب چین بھی ناراض ہوتا نظر آرہا ہے۔ طالبان کی وجہ سے امریکہ اور افغان حکومت کو ناراض کیا لیکن اب شاید طالبان کو ناراض کرنے پر مجبور ہوں۔ سوچتا ہوں کہیں ہم پھنس تو نہیں گئے۔ میں سازشی تھیوریز پر زیادہ یقین نہیں رکھتا لیکن بعض اوقات مجھے بھی شک ہوجاتا ہے کہ کہیں یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تو نہیں ہورہا۔ سمندروں کا سفر، کاغذ کی کشتی اور ناتجربہ کار کاغذی ملاح۔ یہ ہے اس وقت ہماری کیفیت۔ یا اللہ تو ہی اس کشتی اور اس کے سواروں کا محافظ ہو۔