گزشتہ سال ملک میں عام انتخابات ہوئے جن میں خیبر پختونخوا میں اسی طرح دوبارہ پی ٹی آئی کو اکثریت مل گئی جس طرح کہ سندھ میں دوبارہ پیپلز پارٹی کو ملی۔ پی ٹی آئی کے جو رہنما وہاں ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ان میں وزارت اعلیٰ کے امیدواروں کے طور پر پرویز خٹک، اسد قیصر، عاطف خان، شہرام ترکئی، شاہ فرمان اور تیمور جھگڑا سرفہرست تھے۔ تاہم ان امیدواروں میں کہیں بھی محمود خان کا نام شامل نہیں تھا۔ ایک تو وہ پارٹی میں نئے تھے۔ دوسرا ان کا اپنا گروپ نہیں تھا بلکہ وہ خود مراد سعید گروپ کا حصہ تھے۔ تیسرا پی ٹی آئی کی پہلی حکومت میں جب ان کو وزیر بنایا گیا تو انہوں نے ناتجربہ کاری کی وجہ سے وزارت کی رقم ذاتی اکائونٹ میں جمع کی تھی۔ چوتھا جب ان کو ایک موقع پر محکمہ داخلہ کا اضافی قلمدان دیا گیا تو چند روز بعد انہوں نے یہ کہہ کر وہ چھوڑ دیا کہ یہ کام مشکل اور رسکی ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد وزارت اعلیٰ کے جو امیدوار میدان میں تھے ان میں مضبوط ترین پرویز خٹک اور عاطف خان تھے۔ پرویز خٹک ایک تو سیاسی گرو ہیں۔ دوسرا وہ پانچ سال وزیراعلیٰ رہے تھے۔ تیسرا انہوں نے انتخابات کے بعد اپنے گھر ممبران کو جمع کر کے طاقت کا مظاہرہ بھی کیا، جس کا عمران خان نے بہت برا منایا اور تادم تحریر پرویز خٹک کو اس گستاخی کی سزا دے رہے ہیں تاہم پرویز خٹک ایک تو اس لئے نہیں بن سکتے تھے کہ دوران وزارت اعلیٰ بعض معاملات میں انہوں نے خان صاحب کی حکم عدولی کی تھی اور وہ کسی صورت ان کو دوبارہ وزیراعلیٰ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ دوسرا اسد قیصر انتخابات سے قبل اعلان کر چکے تھے کہ پچھلی بار انہوں نے قربانی دی تھی لیکن اب کی بار وہ کسی صورت پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ نہیں بننے دیں گے اور خود اس منصب پر بیٹھیں گے۔ چنانچہ انہوں نے خود یا پھر اپنے قائد کے کہنے پر یہ موقف اپنا لیا تھا کہ وہ کسی صورت پرویز خٹک کو دوبارہ وزیراعلیٰ تسلیم نہیں کریں گے۔ عاطف خان کو عمران خان نے دو سال پہلے بتایا تھا اور پارٹی میں بھی یہ بات پھیلائی تھی کہ ان کے اگلے وزیراعلیٰ وہ ہیں لیکن انتخابات کے بعد خان صاحب اپنا وعدہ پورا کرنے سے یہ کہہ کر گریز کرتے رہے کہ چونکہ پرویز خٹک اور اسد قیصر نہیں مان رہے ہیں اس لئے وہ عاطف خان کے ساتھ وعدہ پورا نہیں کرسکتے۔ تیمور جھگڑا پڑھے لکھے ہیں اور انہیں ارباب شہزاد کی حمایت حاصل تھی لیکن وہ چند روز قبل پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ اسی طرح شاہ فرمان تجربہ کار بھی ہیں اور عمران خان کی محفلوں کے ساتھی بھی لیکن چونکہ وہ عاطف خان کی شدت سے مخالفت کررہے تھے اس لئے دوسرے گروپ ان کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ ماحول خود عمران خان نے اپنا ڈمی وزیراعلیٰ لانے کے لئے بنا رکھا تھا ورنہ اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو نامزد کرتے تو باقی خود بخود اسے تسلیم کرلیتے لیکن وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسی فضا بن جائے کہ جس میں وہ محمود خان جیسے کسی بندے کو وزیراعلیٰ بناسکیں جس کا ریموٹ کنٹرول بنی گالہ یا وزیراعظم ہائوس میں ہو۔ بہر حال ان کو وزیراعلیٰ تو بنا دیا گیا لیکن عملاً صوبہ مرکز سے وزیراعظم اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان (جو انتخابات سے قبل اسی صوبے کے چیف سیکرٹری تھے) اور وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھے ارباب شہزاد (وہ بھی پرویز خٹک کے ساتھ اسی صوبے کے چیف سیکرٹری رہ چکے ہیں) کے ذریعے چلانے لگے۔ دوسری طرف پرویز خٹک کا اثرو رسوخ اور لابی آج بھی وزیراعلیٰ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح اسد قیصر کو بھی زیادہ دلچسپی صوبے کے معاملات سے ہوتی ہے۔ اسی طرح عاطف خان اور شہرام ترکئی دل سے محمود خان کو وزیراعلیٰ تسلیم کرتے ہیں اور نہ وہ ان دونوں کو احکامات دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ ان دونوں کی عمران خان تک رسائی اور قربت ان سے زیادہ ہے۔ اسی طرح پارٹی کی صوبائی سطح پر کوئی تنظیم نہیں کہ اس کا صدر پارٹی فورم کے ذریعے کوئی ہم آہنگی لائے بلکہ وہاں صوبے کو زون میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر زون کا اپنا اپنا صدر ہے۔ رہی سہی کسر گورنر شاہ فرمان نے پوری کردی۔ شاہ فرمان اسد قیصر کی طرح نوے کی دہائی سے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ وہ خان صاحب کے ذاتی دوست بھی بنے ہیں۔ محفلوں کے بھی ساتھی رہے ہیں۔ اب ان کو وزیراعلیٰ تو نہیں بنایا جا سکتا تھا تو گورنر شپ ان کے حصے میں آئی لیکن المیہ یہ تھا کہ پختونخوا کی گورنر شپ فاٹا مرجر سے قبل تو پاکستان کا سب سے زیادہ پرکشش منصب تھا تاہم اس تبدیلی کے بعد اب آئینی اختیارات کے لحاظ سے وہاں کے گورنر بھی دیگر صوبوں کی طرح نمائشی سربراہ ہوگئے ہیں۔ یوں دہشت گردی کا شکار صوبہ اب بری طرح پی ٹی آئی کی سیاست گردی کا شکار ہے۔ عثمان بزدار اگر شریف ہیں تو محمود خان صاحب بھی کم شریف نہیں۔ عثمان بزدار کی سفارش پھر بھی مضبوط ہے اور بنی گالہ میں بیٹھی ہے لیکن محمود خان کے سفارشی ایک وفاقی وزیر ہیں جن کا ظاہر ہے ہر سیاستدان کی طرح اپنا ذاتی ایجنڈا ہے۔ یوں پنجاب میں اگر دو تین حکومتیں ہیں تو پختونخوا میں چھ سات۔ دوسرا تماشہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو سب سے زیادہ فکر اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کی لگی رہتی ہے۔ ان کو ڈر لگا رہتا ہے اور بجا لگا رہتا ہے کہ ان کی کابینہ کے بعض ارکان کے علاوہ پرویز خٹک اور اسد قیصر وغیرہ بھی ان کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بعض وزیر اپنی وزارتوں کو کم لیکن متبادل وزارت اعلیٰ کے لئے لابی کرنے میں زیادہ مگن ہیں۔ اس کشمکش میں باقی صوبے کا تو جو حشر ہونا ہے خاکم بدہن ہوتا رہے گا لیکن المیہ یہ ہے کہ سابقہ فاٹا کے انضمام کا معاملہ بری طرح متاثر ہور ہا ہے اور پی ٹی ایم کا معاملہ اس طرف جاتا نظر آرہا ہے کہ خدانخواستہ یہ خطہ دوبارہ آگ کی لپیٹ میں آنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ انضمام پر عمل درآمد کے لئے وزیراعظم نے پہلے وفاقی سطح پر ایک کمیٹی بنا دی جس میں اکثریت ایسے سینیٹرز اور ایم این ایز کی تھی جو انضمام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ اس کمیٹی پر ٹرائبل یوتھ جرگہ (سابقہ فاٹا یوتھ جرگہ) نے اعتراض کیا اور خود گورنر اور وزیراعلیٰ بھی اس پر خوش نہیں تھے۔ سب کا اعتراض یوں برحق تھا کہ انضمام کے بعد اب سابقہ فاٹا کے تمام معاملات صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور کسی صوبائی معاملے کے لئے وفاقی کمیٹی مناسب نہیں تھی۔ کچھ عرصہ بعد وزیراعظم نے ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کردیا جس میں سابقہ فاٹا کے تین شعبوں کے اختیارات گورنر کو دے دئیے جو سراسر غیر آئینی ہے اور اس کو وزیراعلیٰ نے اپنے دائرے میں مداخلت سے تعبیر کیا۔ گزشتہ روز قبائلی علاقہ جات کے لئے گورنر نے چار سابق بیوروکریٹ کی ایک کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور یہ چاروں ریٹائرڈ بیوروکریٹ انضمام کے مخالف ہیں۔ یہی کھینچا تانی چیف سیکرٹری اور آئی جی کی تبدیلی کا بھی باعث بنی۔ چنانچہ اب قبائلی علاقہ جات گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان بزکشی کے کھیل والی بکری بن گئےہیں۔ پوری سیاسی قیادت کے وعدے کے مطابق فاٹا انضمام کے معاملے کے لئے وفاقی حکومت نے سالانہ کم ازکم سو ارب روپے فراہم کرنا ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ابھی تک چند ارب روپے بھی نہیں دئیے۔ یہ کام نہ تو گورنر کر رہے ہیں اور نہ وزیراعلیٰ لیکن اختیارات کے معاملے پر جھگڑے جاری ہیں۔ دوسری طرح پی ٹی ایم اور بحالی جیسے اہم معاملات کی ذمہ داری سیاسی عناصر میں سے کوئی لینے کو تیار نہیں۔ جس سے بھی بات کریں تو خلوتوں میں یہی کہتے ہیں کہ یہ تو طاقت والوں کا کام ہے۔ یہ ہے ان دنوں کا ضرورت سے زیادہ نیا پختونخوا۔