1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سلیم صافی/
  4. یوٹرن اور لیڈر

یوٹرن اور لیڈر

نیا پاکستان تو نہیں بنا سکے لیکن اس کے دعویدار نئی ڈکشنری ایجاد کرنے لگ پڑے ہیں۔ پہلے انصاف کی نئی تعریف کی گئی۔ دوسروں کے لئے جو کام ناجائز، وہی پی ٹی آئی والوں کے لئے جائز۔ نوازشریف کی بیرون ملک جائیداد ناجائز اور جہانگیر ترین کی جائز۔ دبئی میں دوسرے پاکستانیوں کی جائیدادناجائز اور علیمہ خانم کی جائز۔ یہ ہے انصاف کی نئی تعریف۔ پھر احتساب کی نئی تعریف کی گئی۔ بندہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) میں ہو تو لائق احتساب لیکن پی ٹی آئی میں آئے تو اعظم سواتی اور فہمیدہ مرزا کیوں نہ ہو، معصوم قرار پائیں۔ پھر ذاتیات کی نئی تعریف کی گئی۔ مخالف سیاستدانوں یا پھر اخبار نویسوں کا معاملہ ہو تو ذاتی گالم گلوچ اور القابات بھی ذاتیات میں شمار نہیں ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو، لفافہ سب کچھ کہنا ذاتیات نہیں لیکن پی ٹی آئی والے کو ذاتی کرتوت یاد دلادیں تو ذاتیات کا شور بلند ہوتا ہے۔ پھر دھاندلی کی نئی تعریف کی گئی۔ گزشتہ انتخابات میں باقی ملک میں انتخابات شفاف نہیں دھاندلی زدہ تھے کیوں کہ دوسری پارٹیاں جیتی تھیں لیکن خیبر پختونخوا میں شفاف تھے کیونکہ پی ٹی آئی جیتی تھی۔ اب کی بار تمام سیاسی اورمذہبی جماعتوں کا اجماع ہے کہ انتخابی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں لیکن چونکہ پی ٹی آئی جیتی، اس لئے سب ٹھیک ہے۔ گویا دھاندلی کی نئی تعریف یہ ہے کہ جہاں پی ٹی آئی ہارے وہاں دھاندلی ہوئی ہوگی اور جہاں جیتے وہاں شفاف انتخابات ہوئے ہوں گے۔ پھر بھیک کی نئی تعریف کی گئی۔ زرداری یا نواز شریف بیرون ملک سے امداد مانگے تو بھیک اور عمران خان مانگے تو کارنامہ۔ علیٰ ہذا القیاس۔ لیکن جاتے جاتے معاملہ یہاں تک پہنچا کہ اب لیڈر کی بھی نئی تعریف ہونے لگی۔ ارشاد ہوا کہ جو یوٹرن نہ لے وہ لیڈر نہیں بن سکتا اوریوٹرنز لینے والا ہی لیڈر کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے یوٹرن اتنے لئے کہ یوٹرن خان مشہور ہوئے اور اب چونکہ یوٹرنز لینا تو چھوڑ نہیں سکتے اس لئے لیڈر کی تعریف ہی بدلی گئی۔

وزیراعظم جناب عمران احمد خان نیازی المعروف یوٹرن خان کی زبانی لیڈرکی یہ نئی تعریف سنی تو یوٹرن کے معنی کے لئے انگلش ڈکشنریوں سے رجوع کیا۔ ہمارے وزیراعظم صاحب چونکہ آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں اس لئے سب سے پہلے آکسفورڈ ڈکشنری سے رجوع کیا۔ وہاں یوٹرن کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ: The turning of a vehicle in a U-shaped course so as to face in the opposite direction. پھر کیمبرج ڈکشنری سے رجوع کیا۔ کیمبرج ڈکشنری میں یوٹرن کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ: A turn made by a car in order to go back in the direction from which it has comeسادہ الفاظ میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ یوٹرن سے مراد کسی بندے یا گاڑی کا یکسر الٹ سمت میں سفر شروع کرنا ہے۔ مثلاً ایک بندہ، رہنما بن کر اسلام آباد میں لوگوں کو لاہور لے جانے کے لئے جمع کرلے۔ وہ ایڈوانس کرایہ لے کر ان سے وعدہ کرے کہ انہیں بہر صورت لاہور پہنچا کر دم لے گا۔ وہ سب کو جمع کرکے ایک بس میں بٹھالے اور بس کو خود ڈرائیو کرنے لگ جائے۔ ان لوگوں نے لاہور جانے کے لئے اپنے کا م کاج بھی چھوڑ دئیے ہوں۔ وہاں اپنی مصروفیات بھی شیڈول کی ہوں۔ کئی لوگ لاہور میں ان کے منتظر بھی ہوں۔ رہنما صاحب ان کو ایک بس میں بٹھا کر لاہور کی طرف روانہ بھی کردیں لیکن کلر کہار پہنچ کر وہ لیڈر یوٹرن لے اور گاڑی کو الٹ سمت میں چلانا شروع کردے۔ سواریوں کو شک ہوجائے کہ یہ تو ہم واپس اسلام آباد چل پڑے ہیں لیکن ڈرائیور ان کو تسلی دے کہ فکر نہ کریں میں آپ کو لاہور پہنچا کردم لوں گا۔ ڈرائیور پر ان کا اعتماد بھی اس قدر ہو کہ وہ اپنے ذہن کو یہ سوچ کر مطمئن کرلیں کہ شاید ڈرائیور صاحب کسی شارٹ کٹ راستے سے ہمیں لاہور پہنچانا چاہتے ہیں لیکن کئی گھنٹے سفر کے بعد بس کے سوار نیند سے بیدار ہوں تو پتہ چلے کہ لاہور جانے کی بجائے وہ واپس اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ اب اس ڈرائیور کو آپ کیا کہیں گے لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب کا اصرار ہے کہ اس ڈرائیورہی کو کامیاب ڈرائیور اور لیڈر مان لیا جائے۔ یوٹرن لینے والے کبھی بھی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتے بلکہ جتنا بھی سفر کرلیں یوٹرن لینے کے بعد آپ وہی واپس آئیں گے جہاں سے چل پڑے تھے۔ یوں عقل عام یا کامن سینس تو کہتا ہے کہ یوٹرن لینے والا رہزن تو ہوسکتا ہے لیکن رہبر نہیں ہوسکتا۔ بھٹکانے والا تو ہوسکتا ہے لیکن رہنما کبھی نہیں ہوسکتا تاہم نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم کا اصرار ہے کہ یوٹرن لینے والا ہی لیڈر ہوتا ہے اور جو یوٹرن نہ لیتا ہو وہ لیڈر ہونہیں سکتا۔ دانا لوگ کہتے ہیں کہ لیڈر رائٹ ٹرن لے سکتا ہے، لیفٹ ٹرن لے سکتا ہے۔ راستے میں رکاوٹ آئے تو کچھ دیر کے لئے آرام کرسکتا ہے۔ طوفان آئے تو کچھ وقت کے لئے اپنے آپ اور اپنے پیروکاروں کو بچانے کے لئے کسی دیوار کے پیچھے تو بیٹھ سکتا ہے لیکن وہ اپنی سمت کبھی تبدیل نہیں کرسکتا۔ حقیقی لیڈر کٹ تو جاتا ہے لیکن یوٹرن نہیں لیتا۔ لیڈر نے جو منزل قوم کو پہلے دن دکھائی ہوتی ہے وہ ایک لمحے کے لئے بھی اس منزل سے نظر نہیں ہٹاتا۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے مختلف تراکیب ضرور استعمال کرتا ہے لیکن منزل کی طرف کبھی پشت کرکے منزل ہر گز تبدیل نہیں کرتا۔ مثلاً قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو الگ ملک کی منزل دکھادی اور ان کی قیادت کے لئے آگے نکل آئے۔ ان کے یوٹرن کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ درمیان میں کسی مصلحت کی وجہ سے اس منزل سے دستبردار ہوجاتے لیکن چونکہ لیڈر تھے اس لئے ہر طرح کے لالچ کے باوجود یوٹرن نہیں لیا اور بالآخر منزل حاصل کرلی۔ گاندھی اور خان عبدالغفار خان جیسے لوگوں نے برصغیر سے انگریزوں کو نکالنے کا ہدف اپنے سامنے رکھا تھا۔ ان کا یوٹرن یہ ہوتا کہ ایک روز وہ اچانک یہ نعرہ بلند کرتے کہ یہ انگریز تو برصغیر کے لوگوں کے محسن ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لئے برصغیر کا حاکم رہنا چاہئے۔ تاہم نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم کی لیڈر کی نئی تعریف کی رو سے قائداعظم محمد علی جناح لیڈر قرار پاتے ہیں، گاندھی جی اور نہ خان عبدالغفار خان۔ نئی تعریف کی رو سے اصل لیڈر جنرل محمد ضیاء الحق قرار پاتے ہیں۔ جنہوں نے نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر یوٹرن لے کر نو سال تک اقتدار پر قابض رہے۔ ان کی تعریف کی رو سے جنرل پرویز مشرف لیڈر قرار پاتے ہیں کیونکہ جب میاں نوازشریف کے دور میں واجپائی لاہور آئے تو انہوں نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو میدان میں اتارا لیکن پھر جب خود اقتدار میں آئے تو یوٹرن لے کر اسی واجپائی سے مذاکرات کی بھیک مانگتے رہے۔ اس تعریف کی رو سے تو میاں نوازشریف لیڈر قرار پاتے ہیں کیونکہ وہ کچھ لوگوں کا مہرہ بن کر بے نظیر بھٹو کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر جب خود مار پڑی تو یوٹرن لے کر اسی بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کربیٹھے۔ اس تعریف کی رو سے تو آصف علی زرداری لیڈر قرار پاتے ہیں جنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی لیکن جب مار پڑی تو یوٹرن لے کر اینٹ سے اینٹ لگانے لگ گئے اور ان قوتوں کا مہرہ بن گئے جن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ پھر تو عمران احمد خان نیازی صاحب کے لیڈر الطاف حسین صاحب ہونے چاہئیں جو ان سے پہلے یوٹرنزلینے کے لئے مشہور تھے۔ پھر تو چوہدری شجاعت حسین پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ جو ضیاء کے عروج میں ان کے ساتھ تھے۔ وہ قبر میں چلے گئے اور ان کی عمر میاں نوازشریف کو لگ گئی تو یوٹرن لے کر ان کے ساتھ جاملے۔ ان پر مشکل آئی تو یوٹرن لے کر جنرل پرویز مشرف کے مداح بن گئے اور ان کو عمر بھر وردی میں صدر منتخب کرنے کے لئے مگن رہے۔ ان کا زوال آیا تو یوٹرن لے کر آصف زرداری کے ساتھ بیٹھ گئے اور اب ایک اور یوٹرن لے کر خود یوٹرن خان کے اتحادی ہیں۔ کیا بہتر نہیں ہوگا کہ وزیراعظم صاحب، چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ یوٹرنز کے لحاظ سے شاید وہ ان سے بڑے لیڈر ہوں۔ بہت سمجھایا تھا کہ ضروری نہیں کہ کرکٹ کی پچ پر مسلسل یوٹرنز لینے والا لیڈر ہوسکتاہو لیکن کچھ لوگ ان کو لیڈر بنانے اور ثابت کرانے پر مصر تھے۔ اب دیکھتے ہیں وہ لوگ ان سے متعلق کب یوٹرن لیتے ہیں۔ ان کو لیڈر اور وزیراعظم بنانے کی مشق میں پاکستان یوٹرن لے کر اسی کی دہائی میں توواپس چلا گیا لیکن ہمیں ڈر ہے کہ یوٹرنز لے لے کر کہیں وہ پاکستان کو ساٹھ کی دہائی میں واپس نہ لے جائیں۔