1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. ابتدا سے میں انتہا کا ہوں

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں
میں ہوں مغرور اور بَلا کا ہوں

تو بھی ہے ایک چراغ مہلت شب
میں بھی جھونکا کسی ہَوا کا ہوں

پھینک مجھ پر کمند ناز اپنی
آج میں ہمسفر صبا کا ہوں

جس میں ملبوس چاند رہتا ہے
میں بھی تکمہ اُسی قبا کا ہوں

مجھ کو اپنا سمجھ رہی ہے تُو
میں کسی اور بے وفا کا ہوں

اس میں میری خطا نہیں کوئی
مرتکب بس اسی خطا کا ہوں

زندگی میں ابھی سلامت ہوں
میں اثر تیری بدعا کا ہوں

مجھ پہ رکھتا ہے تہمت الحاد
میں بھی بندہ اُسی خدا کا ہوں

اُجڑے خیموں کا سوگوار ہوں میں!
میں عزادار کربلا کا ہوں

مجھ کو شاہدؔکمال کہتے ہیں
میں بھی شاعر ہوں اور بلا کا ہوں