جو اس چمن میں یہ گل سر و یاسمن کے ہیں
یہ جتنے رنگ ہیں سب تیرے پیراہن کے ہیں
یہ سب کرشمہ عرض ہنر اُسے کے ہیں
گلوں میں نقش ترے ہی لب و دہن کے ہیں
طبیعتوں میں عجب رنگ اجنبیت ہے
یہ شاہ پارے تو سب تیرے ارض فن کے ہیں
ہَوس میں عشق میں تہذیب تربیت کا ہے فرق
وگرنہ دونوں اسی مکتب بدن کے ہیں
امیر شہر تو اپنی قبائے زر کو بھی دیکھ!
سب اس میں تار مرے ریزہ کفن کے ہیں
کہاں اکیلے مری خواہشوں کا دم نکلا!
نشان اُن کے گلے پر مری گھٹن کے ہیں
ہمیں تو لاکے یہاں پر بسا دیا گیا ہے
خبر ہے ملک عدم ہم ترے وطن کے ہیں
مرے حریف مرا، احترام کرتے ہیں
سخنوروں میں بھی چرچے مرے سخن کے ہیں