اس کائنات کے تاریخی دروںمیں جھانک کر دیکھئے تو انسانی تہذیب کے ایسے لاتعداد واقعات و باقیات بکھرے ہوئے دکھائی دیں گے، جو اپنی عظیم الشان روایت کے باوجود آج اپنی حقیقی شناخت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان پر گردش ایام کی اتنی دبیز پرتیں جم چکی ہیں کہ ان کی قطعی حقیقت کا بھی صحیح تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اب جس کی بازیافت بھی ممکن نہیں، وہ ایک ایسی داستان پارینہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ جس کی اثرانگیزیت دم توڑ چکی ہے۔ نہ تو اس کے اندر لوگوں کے ذہن وضمیر کو جھنجھوڑنے کی قوت ہے اور نہ اس کا تذکرہ لوگوں کے دلوں میں حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے بر خلاف چودہ سوسال کی ایک طویل مسافت طے کرنے کے باوجود کربلا کی تاریخ کا ہر باب آج بھی دجلہ و فرات کے گیسوؤں کی طرح تابدار نظر آتا ہے۔ نہ تو اس کی رفتار میں کمی واقع ہوئی اورنہ ہی اس کی چمک و دمک ماند ہوئی بلکہ ہرگزرتے ہوئے وقت کیےساتھ رفتہ رفتہ یہ کربلا تمام کرہ ارض و سماوات اور لوگوں کے دلوں کو مسلسل تسخیر کرتی ہوئی نظرآرہی ہے۔
اگرآپ واقعہ کربلاکا تجزیاتی انداز میں مطالعہ کریں تو اس کے معنوی اقدار کے تناظر میں زندگی کی بہت سی حقیقتوں کا انکشاف ممکن ہے۔ لیکن کچھ حقیقتیں ایسی ہیں، جو اس واقعہ کے فطری متون میں پوشیدہ ہیں۔ جن کا ادراک ایک متعین وقت کا متقاضی ہے۔ لیکن وقت کی بصیرتیں جب ان حقائق کے درمیان حائل حجابات کو چاک کریں گی، تو دنیا کی آنکھیں حیرت واستعجاب سے پھٹ جائیں گی اور جاء الحق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی قہرمان صدائیں ظالموں کے کلیجوں کوچیڑ کر رکھ دیں گی۔ اس لئے کہ خدا ئے لم یزل کا وعدہ ہے کہ’’وہ عنقریب ظالموں سے انتقام لینے والا ہے‘‘۔ ’’تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظا ر کرتے ہیں۔ ‘‘
کربلا کا المیہ دنیا کے تمام المیات سے اس لئے منفر د ہے، کہ اس المیہ کے تمام تر معنوی قدریں ہر عہد کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ دکھائی دئی دیتی ہیں۔ یہ عدل و مساوات اور انسانیت کی ایک ایسی لازوال مثال ہے، جو اقوام عالم کی تمام فرد کے لئے انظباط عمل کا ایک روشن اعالمیہ ہے۔ کربلا آج بھی متلاشیان حق اور سالکان راہ خدا کی لئے ایک منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس سے کوئی بھی مرد حق پرست اعراض نہیں کرسکتا۔ در اصل کربلا کی تما م روشن علامتیں امام حسین ؑ اور ان کے حق آشنا اور وفا پرست اعزا و اقربا کے پاکیزہ خون کی تاثیر ہے، جو لوگوں کے دل ودماغ میںنفوذ کرتی رہتی ہے۔ اور اس کی انجذابی کیفیت اپنے اندرپوری کائنات کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کربلا ایک ایسی ہمہ گیر آفاقی حقیقت ہے، جو اقوام عالم کے لئے ایک مرکز اتحاد ہے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر بلا تفریق مذہب و ملت تمام انسانوں کو مجتمع کیا جاسکتا ہے۔
اس آفاقی حقیقت کو کسی فرد واحد کا ذاتی نظریہ سمجھ کرمسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر مذہب و ملت کی سطح سے ذرا بلند ہو کر اس موضوع پر غوروفکر کیا جائے، تو کچھ مثبت نتائج کی طرف پیش رفت ممکن ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں دنیا کے کچھ عظیم مفکرین نے اپنے خیالات کا اظہار بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کیا ہے۔ آیئے ان مفکرین کے اقتباسات پر ہم اور آپ استخراج و استدراک کریں۔
یورپ کے مشہور مفکر تھامس کارلائل (Thoms، Carlyle (1795-1881 واقعہ کربلا کی بنیادی حقیقتوں پر اپنی کتاب(ہیروزاینڈ ہیروور شپ) میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعہ کربلا کسی قوم، کسی ایک ملک کی ملکیت نہیں بلکہ انسانیت کی متفقہ میراث ہے۔ اس کے ہیرو امام حسین نے اپنے ساتھیوں کی معیت میں ایک عظیم قومی مقصد کی تکمیل کی ہے۔ ان کے حادثہ (سانحہ) عظیم نے اسلامی تاریخ پر گہر اثر کیا اور اسلام کی تاریخ بدل دی، ان کے کارنامے سے یقینا سچے دین کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
ایک معروف دانشور بلیومارین جن کا تعلق جرمن سے تھا وہ تحریر کرتے ہیں۔
’’حسین سے پہلے بھی خدا کے پیارے بندوں پر ظلم ہوا ہے اور وہ شہید کئے گئے جیسے حضرت عیسیٰ اور حضر ت یحییٰ، مگر کسی میں یہ نہیں کہ کسی شخص نے دین کی ترویج کے لئے اپنی ذات اور اولاد کو شہادت کے لئے پیش کیا۔ ۔ ۔ ‘‘
معروف فلسفی اور دانشور جسے دنیا نطشے کے نام سے جانتی ہے ان کا یہ تحریری بیان ملاحظہ کریں۔
’’امام عالی مقام (امام حسینؑ) نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو کہ دنیا کی قوموں کے لئے ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
(ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد فروری ۲۰۰۷)
مشہور تاریخ داں ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب ’’ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر) میں یہ تحریر کیا۔
’’ حضرت امام حسین کا پردرد واقعہ اگردور دراز ملک میں رونما ہو اجو بے رحم او ر سنگدل کو بھی متاثر کردیتا ہے، اگر چہ کوئی کتنا ہی بے رحم ہو مگر امام حسین کا نام سنتے ہی اس کے دل میں ایک جوش ہمدردی پیدا ہوجائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
آرتھ این ونسٹن کی معروف تصنیف کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں۔
’’تاریخ عرب علی ؑ جیسا بہادر پیدا نہ کر سکی۔ ان کے چھوٹے بیٹے حسین نے عاشورہ محرم کے دن بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ ان کی بہادر کئی اعتبار سے علیؑ کی بہادری سے بڑھ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسین میں صبر و استقلال اور اخلاق کے اعلی کمالات موجود تھے، کربلا کے میدان میں گوشت کے ٹکڑوں کا ڈھیر لگا تھا جو اس بے مثل بہادر انسان اور نبی کریم کے نیک نیت نائب کا جسم تھا جس کی تعریف اور توصیف کو ہر عہد کے دانشور فخر سمجھتے ہیں، اقوام عالم کی تاریخ کبھی بھی ایسا بہادر پیش نہ کرسکی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔
تاریخ ادبیات ایران کے مصنف پروفیسر براؤن شہادت حسین کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں
’’حسین کا قتل مدینے کی تارجی اور مکہ کا محاصرہ ان تاریخی چیرہ دستیوں میں پہلی چیرہ دستی ایسی تھی کہ جس نے تمام دنیا کو لرزہ براندام کردیا اور ایک شخص بھی جس کے سینے میں جذبات ہیں اس درد ناک کہانی کو سن کر بے چین ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (ماہنامامہ’’پیام‘‘ اسلام آباد فروری۲۰۰۷ء )
ہندوستان میں بھی کچھ ایسے مفکرین گزرے ہیں جن کا تعلق اسلام سے نہیں تھا۔ لیکن انھیں کربلا کے واقعہ نے اتنا متاثر کیا کہ وہ اُسے ایک آدرش تصور کرتے ہوئے اپنی زندگی اور سماج میں ایک ایسا انقلاب پیدا کیا کہ دنیا انھیں آج احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، ربیندرناتھ ٹیگور، پروفیسر موراندرے، سروجنی نائیڈو وغیرہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہیں۔
مہاتما گاندھی ہندوستان کی آزادی کو کربلا کی انقلابی تحریک کا سرچشمہ تصور کرتے تھے۔
’’ میں نے کربلا کے ہیرو کی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا اور اس سے مجھے یقین ہوگیا کہ ہندوستان کی اگر نجات ہوسکتی ہے تو ہم کو حسین کے اصول پر عمل کرنا چاہئے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
رابیندر ناتھ ٹیگور امام حسین کی شہادت کو دنیاے انسانیت کا ایک عظیم کارنامہ تصور کرتے ہیں۔
’’میں نے حسین سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں دیکھا اور حسین کی شہادت سے زیادہ کسی شہید کی قربانی کا اثر نہیں ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
آل انڈیا کانگریس کی قد آور رہنما سروجنی نائیڈو جنھیں بلبل ہند کہا جاتا تھاوہ کربلا کے واقعہ سے اسقدر متاثر ہوئیں کی انھوں نے اما حسین کی شہادت پر انگریزی میں ایک مرثیہ تصنیف کر ڈالا اور اسی ضمن میں اس بات کا بھی اعتراف کیا۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے فخر ہے کہ ان لاکھوں انسانوں میں میرا نام بھی شامل ہے جو حضرات امام حسین ؑ کے عظیم کارنامے کی یاد نہایت ادب واحترام سے پوری دنیا میں منارہے ہیں، کربلا کا المیہ چودہ سو سال گزرجانے کے با وجود بھی اسی طرح تازہ اور اتنا ہی دل گداز ہے جتنا اس دن تھا جب اسلام کے عظیم ترین رہنما کو شہید کردیا گیا۔ ۔ ۔ ‘‘۔
جس کربلا نے دنیا کے مختلف مذاہب و مسالک اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو متاثر کیا، اس واقعہ سے اسلام سے تعلق رکھنے والے علما و مفکرین اور دانشوروں کا متاثر ہونا ایک فطری امر ہے۔ لہذا شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے علما و دانشور سے قطع نظر اہلسنت کے اکابر علما اور دانشوروں نے بھی کربلا اور مراسم عزا سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار بڑے جرات مندانہ انداز میں کیا ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر یہاں پر ان کے اقتباسات سے شعوری طور پر پرہیز کرتے ہوئے ان کتابوں کا حوالہ دنیا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ جن کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کتاب’’ الطالبین جلد دوم ص ۶۱۔ ۶۲، طبع مصرـ‘‘ مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ’’فتاوی عزیزیہ جلد اول ص ۱۰۴، مطبوعہ مجتبائی پریس دہلی، ۱۳۲۳ ھ ‘‘ حضرت مولانا سلامت علی خاں دہلوی ’’تبصرۃالایمان ص ۲۲۰، مطبوعہ کلکتہ‘‘ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ’’افاضات الیومیہ جلد ۴‘‘ حضرت مولانا عبدالواحد فرنگی محلی ’’رسالہ ازالۃ الاوہام‘‘ حضرت مولانا عبدالرحمن ’’انوارالرحمن تنویر الجنان ص ۳۵۹ مطبوعہ لکھنو، ۱۲۸۷ ھ ‘‘ حضرت مولانا محمد نعیم اللہ قادری گورکھپوری ’’ارشاد النعیم لدفع الئیم ص ۲۳ مطبوعہ لکھنو، ۱۳۱۴ ھ‘‘مولانا عبدالعزیز دہلوی ’’سرالشہادتین‘‘ وغیرہ۔
لیکن میں یہاں پر پروفیسر لطیف الزمان خاں کا ایک اقتباس ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان کے ایک شمارہ ’’سہ ماہی رثائی ادب ‘‘میں جنوری ۲۰۰۳ میں شائع ہوا تھا۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ۔
’’ میں انتہائی احترام سے عرض کروں گا کہ حسین دنیا میں پاے جانے والے ہر مسلمان کے ہیرو ہیں خواہ وہ قطب شمال میں رہتا ہو یا چین اور روس میں، میں تو یہ بھی کہوں گا کہ دنیا کا ہر انسان جس کا تعلق کسی مذہب و مسلک سے ہو وہ کافر ہو، خدا کے وجود سے بھی انکار کرتا ہو لیکن اگر وہ راہ حق کی تلاش میں ہے تو حسین اس کے بھی ہیرو ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘۔
اس حقیقت سے کیسے چشم پوشی کی جاسکتی ہے کہ کربلا اور اس کے متعلقات جو مراسم عزا کی شکل میں ادا کی جاتی ہیں۔ اس پر بیشتر علمائے اہلسنت کا اجماع ہے باالخصو ص علمائے فرنگی محل نے اس حوالے سے بڑے بیباک انداز اور چشم کشا اسلوب تحریر اختیار کرتے ہوئے مجلس وماتم اور تعزیہ داری کو باعث ثواب سمجھتے ہوئے، تمام مسلمانوںکو اس کی ترویج کے لئے دعوت بھی دی ہے۔ جیسا کہ ’’رسالہ ازالۃالاوہام‘‘ میں اس طرح تحریر کیا گیا ہے۔ (طوالت کی بنیاد پر اصل فارسی متن کے ترجمہ کی چندسطور پیش کی جارہی ہیں)
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانے کے علماء، صالحین نے تعزیہ داری کو شعائراسلام سمجھتے ہوئے اس کی ترویج وبقا کے لئے فتوی دیا ہے، پس اس زمانے کے علما، صالحین نے تعزیہ داری کرنے بارے میں جو فتوی دیا ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے اور تعزیہ داری کی ترویج ثواب واجرعظیم کا سبب ہے مولانا نظام الدین، مولانا عبدالعلی، مولوی مجیدالدین، مولوی انورالحق، مولوی نورالحق اور دوسرے علمائے فرنگی واطرف ہند جب تعزیہ کو دیکھتے تھے تو تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور دونوں ہاتھ تعزیہ کی طرف دراز کرکے نہایت خضوع وخشوع اور عجزو انکسار کے ساتھ فاتحہ پڑھتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔
اکابرین کی ان نظریات کی بنیاد پر پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی واقعہ کربلا اور اس کے عزائی تعلیقات اپنی مذہبی، مسلکی اور سماجی بنیادوں کے مروجہ مراسم کے اعتبار سے ادا کئے جاتے ہیں، اس کی اپنی معنوی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ کربلا پوری دنیا کے لئے قومی یکجہتی کی ایک بہترین مثال ہے۔ المیاتی رزمیات کے اعتبار سے بھی کربلا کا المیہ سب سے منفرد ہے۔ اس لئے کہ اس میں انسانیت کی تمام اخلاقی قدریں اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہیں، اور اس کا معنوی دائرہ کار اتنا وسیع ہے، کہ جس کی وسعت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ کربلا کا واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جو اقوام عالم کے درمیان قیام امن اور بقائے امن عالم کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے۔ جس کے ذریعہ دنیا کے مظلوم لوگوں کے حقوق کی بازیابی اور فساد و دہشت گردی کی شکار انسانیت کو ظلم و استبداد سے نجات دلانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لہذا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ واقعہ کربلا سے تحریک حاصل کی جائے اور عصر نو کے یزید و شمر سے کے مقابلے پر اپنی استقامت کا بھرپورمظاہر ہ کیا جائے۔ اس لئے کہ کربلا ہی ایک ایسی تحریک اور انقلاب ہے، جو ہر سماج کے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے معتوب و مطعون و مہجور و مقہور عوام کو ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے، ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ عہدانسان کی تہذیبی قدروں کے بحران کا عہد ہے۔ جہاں انسانیت کے معنی بدل چکے ہیں، استعماریت اور سامراجیت اپنے سینے پر ظلم وبربریت اورسفاکیت کا تمغہ لگا کر دندناتے ہوئے پھررہی ہے۔ آدمیت کی توہین اور انسانیت کی تذلیل پر بڑے فاتحانہ انداز میں تمسخر فرمارہی ہے۔ لیکن ان کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں ہے، اگر کوئی ان کے جاریحانہ اقدام کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ تو اُسے اس کے منطقی انجام تک پہونچا دیا جاتا ہے۔ ماضی کی طرح آج یزیدیت نے اپنی نئی شکل وصورت اور نئے نام و نشان کے ساتھ پوری دنیا پر دہشت گردی کی شکل میں حاوی ہوتی جارہی ہے۔ ساری دنیا حیران و پریشان ہے کہ اس دہشت گردی کو کیسے ختم کیا جائے، اور اسے کیسے ایڈینٹی فائی کیا جائے۔ اب تو دہشت گردی کے نام پر وہ ممالک بھی خود کو انسانیت کا علمبردار بتانے کی کوشش کررہے ہیں، جو خود دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں، اور ایک آواز پوری دنیا میں مسلسل اٹھ رہی ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، دہشت گردی صرف دہشت گردی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا نعرہ جس کے ذریعہ پوری دنیا کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ دہشت گردی کا اپنا ایک مذہب ہے۔ اس کا ایک رنگ ہے اس کی اپنی ایک شناخت ہے، اس کی ایک آواز اور اس کا اپنا ایک نظریہ ہے۔ جس کے تحت پوری دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ آپ نے ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی اجلاس میں ہمارے ملک ہندوستان کے وزیر آعظم نریندر مودوی جی کی تقریرسنی ہوگی، انھوں نے اپنی تقریر کے دوران ایک بات کہی کہ اب وقت آچکا ہے کہ ساری دنیا کو یہ بتایا جائےکہ کون لوگ دہشت گردی کے حمایت کرنے والے ہیں اور کون لوگ انسانیت کی حمایت کرنے والے ہیں، اور کون مذہب انسانیت کا داعی ہے۔ پوری دنیا میں موت کا تانڈو مچانے والی دہشت گردی کا سد باب کیسے کیا جائے۔ اس مسئلہ کو ساری دنیا کے سربراہان کو ملک کر حل کرنا چاہئے۔ اس تقریر سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی یہ دنیا دہشت گردی کے اساسی پہلو وں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس لئے کہ دہشت گردوں کے خاتمے سے دہشت گردی کا خاتمہ قطعی ممکن نہیں۔ بلکہ ہمارے سماج میں تیزی سے اپنے پاوں پھیلا رہے دہشت گردانہ نظریات کو روکنے کی سخت ضرور ت ہے۔ اس لئے کہ دنیا میں خو د کو سب سے زیادہ امن پسند قوم کہنے والے ’’بودھ دھرم‘‘ (مذہب) نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت اور سفاکیت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ دنیا میں برپا ہونے والی دہشت گردی کی ایک نئی شکل سامنے ابھر کر آئی ہے۔ دنیا کے تمام دانشوروں اور انٹلیکچول لوگوں کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ اس دہشت گردانہ نظریات کا سد باب اور کاونٹر کیسے کیا جائے۔ دنیا میں وہ کون سا نظریہ ہے جس کے ذریعہ اس دہشت گردی کو روکا جاسکتا ہے۔ میری اپنی ذاتی راے کے مطابق کربلا کی نظریاتی تحریک کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسی تحریک کا ابھی وجود نہیں ہوا ہے۔ جس کے فروغ کے ذریعہ اس ظلم و جنایت کو روکا جاسکا۔ لیکن کربلا ایک ایسی تحریک ضرورہے جس کے ذریعہ ظلم و سرکشی کے خلاف ایک ایسا انقلاب پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جس سےہمارے سماج و معاشرے میں انسانی اقدار کے بحران کا خاتمہ ممکن ہے۔ اگر یہ ساری دنیا امام حسین کے نظریہ حق و مساوات کے پیغام کو اپنا لیں تو اس زمین پر پھر سے انسانی قدروں کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کربلا ایک ایسا نکتہ ارتکاز فکر ہے جہاں پر دنیا کے ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو مجتمع کیا جاسکتا ہے۔ مجھے کسی شاعر کا ایک خوبصورت شعر یاد آرہا ہے جس پر میں اپنی بات کا اختتام کرنا چاہتا ہوں۔
در حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لئے