ہم جس انسانی سماج ومعاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ہماری تہذیب نے پتھروں کے عہد سے اپنی مسافت کا آغاز کیا۔ انسانوں کی لاکھوں سالہ تہذیب عہد بہ عہد اپنے تدریجی مراحل سے ہوتے ہوئے اپنے ارتقا کا سفر طے کرتی رہی۔ چونکہ انسان کی ذہنی نشو و نما میں اس تہذیب کا ایک فطری ارتباط و انسلاک بھی پایا جاتا ہے۔ لہذا جب ہماری سرکش طبیعت اپنی منھ زور خواہشوں کے ساتھ ہمکنے لگتی ہے تواس کی ضرب سے ہماری تہذیب کے آبگینوں کے پاش پاش ہوجانے کا خطرہ بڑہ جاتا ہے۔ لہذا انسان کے سینے میں پروان چڑھنے والی ان منھ زور اور سرکش خواہشوں کو مہار کرنے کے لئے ہمارے انسانی معاشرے کی اخلاقی قدریں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
لہذا ایک اچھے معاشرے اور تمدن یافتہ سماج کے بھرم کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ کہ انسان کے اعلی اخلاقی قدروں کو بحال کیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم خود کو تہذیب یافتہ تو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کی ا صل شکل و صورت کچھ اور ہی ہوگی۔ جانوروں کےطرز معاشرت انسانوں کی تہذیب میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن آج افسوس اس بات ہے کہ انسان خود اپنے ہاتھوں ہی اپنی تہذیب اور اس کی اخلاقی قدروں کو پوری طرح سے پائمال کرنے کی کوشش میں منہمک نظر آرہا ہے۔ دھیرے دھیرے ہمارے سماجی رشتوں کے مابین واقع سارے امتیازیات ختم ہوتے جارہے ہیں۔ اس مرد اساس معاشرے میں مساوات کا کھوکھلہ نعرہ بلند کرنے والے کچھ روشن خیال افراد نے یورپین کلچر کو ہماری مشرقی تہذیب پر ایک وبا کی صورت میں مسلط کرنے میں کسی طرح کے نشان امتیاز کو برقرار نہیں رکھا۔ شاید انھیں یہ نہیں پتہ کہ ہم جس معاشرے اور تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ مستقبل قریب میں ہماری آنے والی نسلوں میں ایک ایسی خلیج پیدا کردے گی، جس کی تلافی قطعی ممکن نہیں ہوگی۔ وہ تمام رشتہ اپنی حرمت و تقدس سے محروم ہوجائیں گے آج جو ہمارے معاشرے کی اصل شناخت کا ذریعہ ہیں۔
ہندوستان کی موجود حکومت کے اس اختلاجی رویہ نے ہندوستان کی گنگا جمنی معاشرت اور اس کے تہذیب و تمدن کی گردن پر اپنے پاؤں رکھ دیئے ہیں۔ جس کی وجہ سے سینے میں گھٹن کا شدید احساس تو ہورہا ہے۔ لیکن احتجاج کی آواز خاموش ہوچکی ہے۔ بڑھتا ہوا کرپشن، مسلکی تشدد، مذہبی منافرت، دنگا، فساد، بھوک، بے روزگاری، اس ملک کے سینے پر نظر آنے والا پرانا زخم ہے، لہذا قتدار میں آنے والی ہر پارٹی اس زخم کو بھرنے کے لئے بہت سے وعدے کرتی ہے۔ لیکن، اقتدار میں آنے کے بعد اسی زخم کو کرید کر مزید ہرا کردیتی ہے۔ لہذا اسے کسی خاص حکومت سے جوڑ کردیکھنا ناانصافی ہوگی۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ خطرناک صورت حال یہ ہے کہ ہماری تہذیب کا رخ ایک بار پھر جنگلوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس مردہ ہوچکی انسانیت کی میراث کے طور پر باقی ماندہ اثاثے کی صورت میں یہی ایک تہذیب تھی جس کا گلا گھونٹنے کے لئے استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کی گرفت روز بہ روز مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ کیا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس مادی ترقیات کے عہد میں اگر ہمارے انسانی معاشرے کی تہذیب ہی دم توڑ دے گی تو ہمارے پاس محض روشن خیالی کے اور کیا بچے گا۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ترقی کے نام پر صرف ایک حیوانیت زدہ معاشرے کی جنسی تہذیب کے علاوہ انھیں اور کیا دے پائیں گے۔
ہم اپنے ملک کی عدالت عظمیٰ کا احترام کرتے ہیں۔ اس کے ذریعہ نفاذ کئے جانے والے آئین سے ہمیں قانونی طور سے اختلاف کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ لیکن ا س ملک کے ایک معزز شہری ہونے کے ناطے اور ہمیں ملنے والی اظہار رائے کے حقوق کے مطابق یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں، کہ اس سے پہلے ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے ۷۷۳ یعنی (گے گلچر) کے خلاف بنائی گئی تعزیرات کو مسترد کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کے آئینی حقوق کو بحال کردیا یہ کہاں تک درست ہے؟؟؟ اس طرح کے غیر فطری حقوق کی بحالی کے لئے کیا دنیا کی سابقہ تہذیبوں میں رائج اس طرح کے غیر اخلاقی حقوق کے منطقی انجام کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں تھا۔ کم از کم اس طرح کا فیصلہ دینے سے پہلے انسانی معاشرہ اور اس کی تہذیب اور اس کے عبرتناک انجام سے عوام کو باخبر کرنا ضروری نہیں تھا۔ خیر ابھی اس فیصلے کو آئینی حقوق حاصل ہوئے ہی تھے۔ کہ ہماری عدالت عظمیٰ نے خواتین کے مساوات کی بات کرنے والی تنظیموں کے نام نہاد نعروں کو مزید تقویت دیتے ہوئے 164 سال پرانے اس آئین کو مسترد کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ آج سے ہندوستان کی باوقار اور عزت دار خواتین کو حکومت ہند کی جانب سے یہ اختیار دیا جاتا ہے۔ کہ وہ اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے، اپنی جنسی ناآسودگی کی آگ کو بجھانے کے لئے کسی بھی غیر مرد سے جسمانی تعلقات قائم کرنے کے لئے خود مختار ہیں۔ میں خواتین کی خود مختاری کا قطعی مخالف نہیں ہوں۔ لیکن اس قانون کے نفاذ سے ایک خطرہ ضرور درپیش ہے کہ اس طرح کے قوانین کے نفاذ سے ہمارے سماج کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا، لیکن اس خود مختاری کا پیش خیمہ ہمارے سماج میں ایک بڑے جرائم کے ارتکاب کو ضرور جنم دے گا۔ اس لئے کہ کوئی بھی مہذب سماج اس طرح کے اخلاق سوز عمل سے چشم پوشی نہیں اختیار کرسکتا۔ مستقبل قریب میں جس کا تاوان ہمارے آنے والی نسلوں سے وصول کیا جائے گا۔
لہذا جن ہاتھوں میں ملک کی زمام حکومت ہے، انھیں اس پر غور سے سوچنے کی ضرورت ہے، اور ہمارے معاشرے کے دانشور وں اور قانون کے ماہرین کو اس موضوع پر کھل کر بات کرنی چاہئے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش بھی کی جانے کی سخت ضرورت ہے کہ آیا اس کے تدراک کا کیا کوئی متبادل لائحہ عمل ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر نہیں ہے تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ مذہب سے کہیں زیادہ ضرورت ایک مہذب سوسائٹی خود اس بات کی متقاضی ہے کہ ہمارا معاشرہ کیسا ہونا چاہئے۔