شاہدؔکمال
لکھنؤ انڈیا
اردو ادب مختلف تہذیب و ثقافت اور الگ الگ مذاہب و مسالک کی تہذیب مراسم سے استوار ایک ایسی زبان ہے۔ جس میں ہر طرح کی رنگ کی آمیزش پائی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کی دلپذیریت و محبوبیت کی وجہ سے اس کے بانکپن کا جادو لوگوں کےسر چڑھ کر بولتا ہے،اور وہ لوگ بھی اس زبان و ادب کے گرویدہ نظر آتے ہیں جو اس سے واقفیت نہیں رکھتے۔اس کی خاص وجہ اس زبان کے اندر پائی جانے والی محبت و اپنائیت کی کشش ہے۔
اردو زبان اپنی تمام ظاہری و باطنی خوبیوں کی وجہ سےاپنی مثال آپ ہے۔اس میں کسی طرح کا لسانی تعصب ، مذہبی و مسلکی اختلاف اور تنفرات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔آج یہ زبان بہت کم عرصہ میں دنیا کے ایک بڑے خطہ پر بسیط محسوس ہوتے ہوئے نظر آرہی ہے اور دیگر زبانوں کے مقابل اردوزبان بھی اپنے اندرون میں اپنے ذاتی تصرفاتی کے امکانی حقوق کا منطقی جواز رکھتی ہے۔ اس وسعت پذیز زبان کا ادبی اثاثہ مختلف اصناف سخن کی شکل میں اس کے اپنے دامن میںمحفوظ ہے۔اس کی یہی ریچنیس اس کے استحکامیت کا ایک سب سے بڑا راز ہے۔اردوزبان کے فروغ میں ہر مذہب و مسلک کے تخلیق کاروں کا ایک ناقابل فراموش تعاون رہا ہے، جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔اس کی یہی گنگاجمنی تہذیب دیگر زبانوں کے متعلق اپنا ایک الگ زوایہ انفراد رکھتی ہے،اورتخلیقی نکتہ نظر کے اعتبار سے اردوادب کا کینویس بہت وسیع ہے۔اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ حیات کی عکاسی بڑے خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔انسان کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جواس کے حیطہ تحریر سے باہر ہو۔جب ہم اردو ادب کے تدوین عمومی اعتبار سے کرتے ہیں تو اس زبان کے دواہم ادبی پہلو ہیں۔ پہلی قسم شعریات سے متعلق ہے ،اور دوسری منثورات سے ۔اردوشعریات کی مختلف اصناف ہیں اس سے متعلق اردو ادب کے دامن میںایک کثیر سرمایہ موجود ہے۔اور منثورات سے متعلق ہے بھی بہت سی اصناف سخن ہیں مثلاً تحقیق و تدوین ، تنقید، داستان ، کہانی ، ناول نگاری ، ناولٹ ، افسانے،افسانچے، یہاں تک کہ تجریدی اور مائکروفکشن جیسے جدید میدان میں بھی اردو زبان و ادب بڑی برق رفتاری کے ساتھ اپنی تخلیقی سفر طے کررہاہے۔یہ اردو زبان وادب کے لئے ایک اچھی بشارت ہے۔
اردوزبان و ادب کی ایک مقبول ترین صنف خاکہ نگاری بھی ہے۔لیکن یہاں پر اس صنف سخن کی جزئیات پر گفتگو کرنا میرا مقصود نہیں ہے۔لیکن خاکہ نگاری میں مزاح کا پہلو بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے،جسے پڑھنے کے بعد قاری اس کے مرموزات سے اپنے ادبی ذوق کے مطابق حظ حاصل کرتا ہے۔ اس لئے ہماری اردو شاعری میں سنجیدہ ادب کے ساتھ ظریفانہ لطافت سے بھر پور مزاحیہ افسانے یا خاکہ لوگوں کی پسندیدہ صنف سخن رہی ہے۔سید آباد اصغر نقوی کا مزاحیہ خاکہ ’’مظلوم بیوی‘‘ پر گفتگو کرنے سے پہلے مصنف کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔تاکہ میری بات تشنہ مفہوم نہ رہے۔سید آباد اصغر نقوی کا ایک ادبی کارنامہ مزاحیہ خاکہ نگاری’’مظلوم بیوی‘‘ کی شکل میں اسوقت میرےہاتھ میںموجودہے۔
سیدآباد اصغر نقوی کا آبائی وطن ہندوستان کی زرخیز بستی امروہہ سے ہے ۔لیکن تقسیم ملک کے بعد ان کے اجداد نے پاکستان کی سکونت کو ہندوستان کی رہائش پر فوقیت دی جس کی وجہ سے وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا مامن ومسکن قراردیا ،سید آباد اصغر نقوی کے والد مرحوم سیدآباد محمدنقوی زائرؔامرہوی بہت ہی نستعلیق شخصیت کے مالک تھے۔وہ اپنے وقت کے ایک بہترین شاعر اورپائے کے سوزخوان بھی تھے۔جس کی وجہ سےوہ عوام میں کافی مقبولیت رکھتے تھے۔مرحوم کا ایک شعری مجموعہ ’’میرا اثاثہ‘‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے ۔ جس کی اشاعت کے ان کے فرزند سعید سید آباد اصغر نقوی نے بڑے اہتمام سےکی جس کا ایک نسخہ مرحوم نےخود کراچی سے میرے لئے ہدیہ کے طورپرارسال کیاتھا جو میرے پاس موجودہے۔
سید آباد اصغرنقوی کو یہ ادبی ذوق وراثت میںاپنے والد مرحوم سے ملاہے۔خاص کر سوز خوانی کافن اپنے والدمرحوم سےہی پایاہے۔اور وہ آج بھی سوز خوانی کے اس فن کو ایک موروثی وراثت سمجھ کر برصغیر سے ہزاروں کلو میٹر دور ہیوسٹن امریکہ میں رہ کر بھی اس کی پرورش و پرداخت فرما رہے ہیں۔یہ ایک اچھی اور سعادت کی بات ہے۔
حالانکہ سیدآباد اصغر نقوی پاکستان سے ہجرت کرکے امریکہ جیسے ملک میں اپنی مستقل سکونت اختیار کر لی ہے۔ اس کے باوجود وہ اردوزبان و ادب سے کافی شغف رکھتے ہیں۔وہ اردو ادب کے بیشتر اصناف سخن میں خاصی دسترس رکھتے ہیں ۔لیکن ان کا اصل موضوع مزاح نگاری ہے،چونکہ ان کی طبیعت میں بذلہ سنجی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔اس لئے وہ ایک بہترین خاکہ نگار کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتےہیں ۔ ان کے مزاحیہ خاکوں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے خاکوں میں عصرحاضر کے مسائل اور انسانی اخلاقی اقدار کی بڑی ہنرمندی کے ساتھ بہترین عکاسی کرتے ہیں۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ بات سے بات نکالنے کے ہنر سے واقف ہیں ،یہ بات میں ا س لئے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں ۔چونکہ میرے ان سے بڑے قریبی مراسم ہیں وہ مجھے اپنے بیٹا جیسا مانتے ہیں ، وہ جب بھی امریکہ سے پاکستان تشریف لاتے ہیں توان کے منجملہ نظام الاوقات میں انڈیاکا بھی ایک سفر بھی شامل ہوتا ہےجس میں مجھ سے ملاقات کا بھی ایک باب شامل ہوتا ہے ۔یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے ۔سید آباد اصغر نقوی صاحب تین سال قبل جب انڈیا تشریف لائے تھے تو مری ان سے خاصی ملاقات رہی اورانھوںنے اپنا ایک مزاحیہ خاکہ کے مجموعہ’’مظلوم شوہر‘‘ کے نام سے مجھے ہدیہ کیا تھا۔اس بار جب19؍فروری 2017 کو امریکہ سے انڈیا تشریف لائے توانھوں مجھے فون پر اطلاع دی کی میں اسوقت لکھنؤ آچکاہوں اور تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، یہ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اورمیں ان کی خدمت میں حاضر ہوا،میری ان سے کافی دیر ملاقات رہی اور عالمی مسائل کے ساتھ دیگر موضوعات پربھی گفتگو ہوئی۔ جب میں نے ان سے رخصت کی اجازت چاہی تو انھوں نے مجھے اپنی نئی کتاب ’’مظلوم بیوی‘‘ ہدیہ کی ۔کتاب دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔یہ کتاب گزشتہ کتاب سے قدر مختلف ہے۔اس میں بھی مزاحیہ خاکے ہیں لیکن اس کتاب کا تحریر اسلوب نگارش بہت ہی نھترا ہوا ہے ۔اور اس میں کچھ شخصی خاکے بھی شامل ہیں ۔،یہ کتاب 144صفحات پر مشتمل ہے مصنف نے ا س کتاب میں حالات حاضرہ پر بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بڑے ظریفانہ انداز میں اپنے خیالات کو ضبط تحریر کیا ہے۔یہ کتاب مختلف عناوین سے عبارت ہے، اور اس کے ہر عنوان سے متعلق ضبط تحریر کئے جانے والے تمام موضوعات بہت ہی دلچسپ ہیں ،جسے پڑھنے کے بعد ان کی بلیغانہ بذلہ سنجی کا بھر پور احساس ہوتا ہے۔
یہ کتاب پانچ ابواب میں پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا سب سے اہم باب ’’رودادِ مظلومیت‘‘ کے نام سے ہے۔ جس میں مختلف عناوین سےمزاحیہ انداز میںخاکے ضبط تحریر کئے گئے ہیں ۔جس کوپڑھنے کے بعد ان کی علمی بصیر ت اور ذہنی صلاحیت کی بھرپورعکاسی ملتی ہے۔انھوں نے اپنے سماج اور معاشرے کی نفیساتی گرہوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سلجھانے کی ایک شعوری کوشش کی ہے ،اور وہ اس میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ سب سے بڑی بات ہےکہ انھوںنے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی ذات کو بھی اپنی ظریفانہ خدنگ نظر کا ہدف بنایاہے۔یہ ایک بڑی بات ہے اس لئے کہ کوئی شخص اپنی کمیوں کی نقاب کشائی نہیں کرتا ،لیکن انھوںنے بڑے بیاک انداز سے اپنے معاشرے کی منفقانہ رویہ کواجاگر کیا ہے۔تاکہ لوگوں کومعلوم ہوسکے کہ حقیقت میں انسان کی زندگی کی اصل تصویر کیا ہے اور اسے سماج کے سامنے کیسے پیش کرتا ہے۔
یہ کتاب سید آباد اصغر نقوی کی علمی وادبی معروضات کا ایک تخلیقی اعلامیہ ہے۔اس سے مصنف کی علمی بالغ نظری ، سماجی بیداری ، معاشرتی تہذیب اور انسانی رشتوں کی اخلاقی قدروںکا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔بعض مقامات پران کی تحریروںمیں اندرون ذات کا کرب بڑی حساسیت سے بھرپور اپنے پورے اجتماعی شعور کے ساتھ ظاہر ہوتے ہوئے محسوس ہوتاہے۔اس کا تذکرہ ڈاکٹر ہلال نقوی (کراچی) کے اس کتاب میں موجود مضمون کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے ۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’۔۔۔۔آباد اصغر نقوی۔۔۔۔مزاح لکھنے والے اہل قلم کے اس حلقے سے تعلق رکھتے ہیں ،جنہوں نے بردباری ،متانت اور سنجیدگی کو اپنی زندگی اور شخصیت میں آگے آگے رکھا ہے ،اور اس کی سب سے بڑی وجہ فن سوزخوانی سے ان کی وابستگی ہے ۔ایسے میں طنزو مزاح پر مشتمل یہ تحریر کسی خارجی دباؤ یعنی خو دکو مزاحیہ اداکار بنا لینے سے اپنا اثر قائم نہیں کرتے ،ان کے لفظوں کی کاٹ شعروںکا زوایہ اور خیال کی دھوپ چھاؤں ہمیں متاثر کرتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ہلال نقوی (کراچی) کا یہ اقتباس انکی سنجیدہ ، متانت سے بھرپور مزاحیہ تحریروں کے لئے ایک ثبوت واثق کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابھی ان کی فکرکی زمین بانجھ نہیں ہوئی ہے ۔ان کی کشت تخیل بہت زرخیز ہے اور ان کا قلم بارآوار بھی ہے۔ جس سے ابھی مزید نئی فصلوں کی کاشت کا امکان بہت ہی روشن اور واضح ہے۔ میں اپنی بات کااختتام علامہ اقبال کے اس شعرپرکرنا چاہتا ہوں ۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی