ہمارے اردو ادب کی روایت انتہائی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے عبارت ہے۔ اس زبان کے فروغ میں انھیں اخلاقی عوامل کے اہم عناصر کار فرما رہےہیں۔ جس سے قطعی انحراف و انصراف نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر اجمل صاحب (علیگ) ایک انتہائی مہذب اور خلیق انسان ہیں وہ اپنے پیش رووں میں اپنے اخلاقی قدروں کی پاسداری کی بنیاد پرانتہائی محترم گردانے جاتے ہیں، اور اردو ادب کی نئی نسل میں ادبی ذوق کی رجحان سازی کے عمل کو بڑے حسن و خوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے طبیعت کی ناسازی کے باوجود مجھ سے گفتگو کرنے میں ہمیشہ سبقت فرماتے رہے۔ انھوں نے مجھ جیسے کم مائیگی علم سے شرمندہ طالب علم سے بڑی فروتنی سے یہ فرمایا کہ میں سید فخر الدین بَلّے کے علمی باقیات اور ان کے ادبی آثار کے دستاویز کی تدوین کررہا ہوں، جسے میں کتابی شکل دینا چاہتا ہوں اور یہ کام مکمل ہوچکا ہے۔ کتاب اپنی اشاعت کی منتظر ہے۔ میری خواہش ہے کہ شاہد کمال تم اس کتاب پر اپنے تحریری تاثرات مجھے ارسال کرو۔ تاکہ میں اسے شامل اشاعت کرسکوں۔ لہذا، ان کے حکم کی بجاآواری کے لئےاپنی آمادگی کا اقرار تو کر لیا، لیکن اپنی ذاتی مصروفیت کی وجہ سے اس کی تکمیل میں تقریباً چھہ مہینے سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ لیکن پروفیسر اجمل صاحب نے میری تساہلی کو بڑے تحمل کے ساتھ برداشت کیااور اپنی کتاب کی اشاعت کو معرض التوا میں رکھا۔ جس کے لئے مجھے انتہائی شرمندگی کا احساس ہے، جس کا ازالہ اس تحریر سے قطعی ممکن نہیں۔
سید فخرا لدین بلّے کاحرف سے لفظ تک کا سفر عدم سے وجود کے منطقی جواز کا ایک ایسا اعلامیہ ہے، جس کے بغیر کسی تخلیق کار کے فنی مبادیات کی تکمیل کی مسافت قطی ممکن نہیں، اس کے لۓ ایک تخلیق کار کو بہت سے مراحل و مدارج سے گزرنا پڑتاہے۔ تب جاکر اس کے تخلیقی فن پاروں کو دوامیت کا درجہ استناد حاصل ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس شعر کی زندہ مثال سید فخرالدین بلّے کی شخصیت ہے۔ میں یہاں پر اُن کی تخلیقات پر انتقادانہ مباحث سے شعوری طور انصراف کرتے ہوۓ محض ان کی اجتماعی شخصیت پر محاکمہ کرنے کی کوشش ضرور کرونگا۔ اگر ہم سید فخر الدین بلّے کی مجموعی علمی و فنی صلاحیتوں پر گفتگو کریں تو کم ازکم مجھے اس بات کے اعتراف میں کویٔ مذایقہ نہیں کہ علمی حوالے سے وہ اپنے عہد کی ایک معتبر و مستند شخصیت تھے۔ یہ محض میری اپنی ذاتی راے نہیں بلکہ اس کا اعتراف ان کے عہد کی اہم شخصیات نے ہی نہیں بلکہ موجودہ عہد کے دانشوروں نے بھی کیا ہے۔ افتخار عارف کا یہ اقتباس۔
"فخرالدین بلّے ہمارےزمانے کی اُن یگانہ روزگار شخصیتوں میں سے تھے، جن کی ذات گرامی بے شمارکمالات کی جامع تھی، شاعر، ادیب محقق، نقاد، اسکالر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُن کی خدمات جلیلہ کا اعتراف کرنا زندہ قوموں کی روایت میںشامل ہوتا ہے، لازم آتا ہے کہ ہم سید فخر الدین بلّے کی علمی و ادبی خدمات کو یاد رکھیں،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
(سید فخرالدین بلےایک فرد ایک روایت)
"سید فخرالدین بلّے رنگوں کے بجاۓالفاظ سے تصویر بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ "
فراق گورکھپوری
سید فخر الدین بَلّے کی علمی بصیرت اوران کی ادبی وجاہت کا اعتراف بیشتر ناقدین اور دانشوروں نے بڑے کشادہ قلبی کے ساتھ کیا ہے۔ فخرا لدین بلّے تحقیق، تنقید، تالیف و تصنیف، صحافت، تصوف، شعر و ادب میں اپنی مثال آپ تھے۔ چونکہ جہان تصوف میں ان کے اجداد کا ایک اہم کارنامہ رہا ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ فخرالدین بلّے کا تصوف سےطبعی میلان وراثت میں ملا تھا۔ چونکہ اُن کا سلسلہ نسب برصغیر کی عظیم شخصیت، شیخ الاولیاحضرت خواجہ معین الدین چشتی سے ہےاور خواجہ معین الدین چشتی کے روحانی فیوض و انکشافات و ادراکات کی فیض رسانی کا دایٔرہ بہت وسیع ہے اور آج بھی ان کے وجود پُرفیض کی خوشبوہندوستان کی ہواؤں میں رچی بسی ہوئی ہے۔ جنھوں نے اپنی اخلاق رواداری اور روحانی فیوضات سے ہندوستان میں بسنے والے دیگر مذاہب و مسالک کے دلوں کو اس طرح مسخر کیا کہ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو ایک تسبیح کے دانے کی شکل میں پرو دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعدآج بھی ہندوستان کی تاریخ میں ان کا نام سورج کی طرح چمک رہا ہے۔ سید فخر الدین بلّے بھی اسے سلاسل کی ایک اہم کڑی ہیں۔ ان کی ولادت ہندوستان کے مشہور شہر میرٹھ میں 16؍اپریل 1930 میں ہوئی۔ باقاعدہ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی تقسیم ہندو پاک کے وقت انھوں نے اپنے آبائی وطن سے ترک سکونت اختیار کی اور یہاں سے ہجرت کے بعد اپنی مستقل سکونت کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا۔ ہجرت کی اس کربناک اذیت کو کیسے برداشت کیا اس کے بارے میں وہی بتا سکتا ہے جس نے ہجرت کی اذیت کو جھیلا ہے، اسلئے کہ ہجرت انسانی نفسیات کا ایک الم انگیز المیہ ہے۔ بلّے صاحب نے اس کربناک اذیت کا مقابلہ بڑی سخت اعصابی کے ساتھ کیااور خود کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچائے رکھااس سے ان کے حوصلہ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود خود کو علمی میدان سے دور نہیں رکھا، بلکہ اپنے علمی اعتماد کی بنیاد پر اس میدان میں بڑی استقامت کے ساتھ قدم جمائے رکھا، اور اپنے علمی کارنامے سے اپنی الگ شناخت قائم کی، انھوں نے تحقیق جیسے دماغ سوزکام میں ایک اہم کارنامہ انجام دیا، ان کے تحقیقی ماحصل کے طور پر دو اہم کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان کی پہلی تحقیقی کتاب تاجدار ولایت مولائے کاینات حضرت علی علیہ السلام کی سیرت و شخصیت سے متعلق ہے، جس میں ا نھوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سوانح اور ان کی سیرت و شخصیت سے متعلق ہے، جس میں انھوں نے سیر حاصل کی گفتگو فرمائی ہے۔ سید فخرالدین بَلّے کا یہ کام اس لئے اہم ہے۔ چونکہ ان تعلق عرفا و سلکا کے خاندان سے ہے، اور حضرت علی علیہ السلام عالم عرفانیات وجہان تصوف کے بلا فصل امام ہیں۔ جس پر تمام متصوفین کا اجماع ہے۔ اس لئے کہ ولایت کے تمام طرائق کا ملجا و ماوا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہی ذات گرامی قدر ہے۔ جس کا تذکرہ خود، سلطان المتصوفین خواجہ معین الدین چشتی نے اپنی کتاب ’’ملفوظات‘‘ میں کیا ہے۔ اُن کا یہ فارسی شعر ملاحظہ کریں۔
پس خوردہ سگان درِ دوست رزق من
حاشا اگر نگاہ کنم سو ۓ اغنیا
سید فخر الدین بَلّے اسی خاندان چشتیہ کے چشم و چراغ تھے، اس لئے محمدؐ و آل محمدؐ کی مودت سے ان کا دل و دماغ سرشار تھا اور خاص کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے انھیں خصوصی عقیدت تھی، اور یہی عقیدت ان کے خون میں تحلیل ہوکر ان کے پورے وجود میں گردش کررہی تھی، ان کے اندریہ کیف و انجذاب اور عرفانی وجدان کی کیفیت عشق علی سے ہی عبارت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے اپنی عقیدت و محبت کااظہار اپنے اشعار میں بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ اشعار ملاحظہ کریں۔
مرا سفینۂ ایماں ہے، ناخدا بھی علیؑ
مری نماز علی ہے مری دعا بھی علیؑ
وجود و واجد و موجود و ماجرا بھی علیؑ
شہود و شاہد و مشہود اشتہا بھی علیؑ
ہے قصد و قاصد و مقصود اقتضا بھی علیؑ
رضا و راضی، رضی اور مرتضیٰ بھی علیؑ
مرے لئے ہیں سبھی اجنبی علیؑ کے سوا
مرے لئے تو ہے تمہیدِ اقربا بھی علیؑ
ہے اُس کی ذات میں مرکوز عصمت تخلیق
ابو الائمہ بھی ہے زوج فاطمہ بھی علیؑ
ابوتراب و شرف یابِ آیۂ تطہیر
ہے راز دارِ حِرا و مباہلہ بھی علیؑ
وہی مسیح کا ایلی ہے، خضر کا رہبر
وہی ہے شیرِ خدا موسویؑ عصا بھی علیؑ
یہ منقبت بہت طویل ہے لہذا اس کے بعض اشعار سے گریز کیا جارہا ہے۔ ان اشعار سے انداز ہوتا ہے کہ سید فخر الدین بَلّےکو حضرت علی علیہ السلام سے کتنا روحانی تقرب حاصل تھا، ولائے امیر کائنات ان کی روح میں کس قدر، رچی بسی ہوئی تھی، ورنہ اتنے عارفانہ اشعار کی تخلیق قطعی ممکن نہیں۔ مودت علیؑ کی یہ روحانی میراث انھیں خواجہ معین الدین چشتی سے حاصل تھی۔
بالاختصاص خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہد میں حدیث ولایت کو مختلف زاویہ سے فروغ دیا، خاص کر قوالی اور سماع میں جناب رسول خدا صل اللہ علیہ والہ وسلم کے اس حدیث کو ضرور بیان کیا جاتا ہے، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں حاجیوں کے مجمع میں اپنے چچا زاد بھائی کے ہاتھوں کو پکڑ کر پالان شتر کے ممبر سےان کی ولایت کا اعلان کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ’’من کنت مولاہٗ فھذا علی مولا‘‘یہی وہ حدیث ولایت تھی جس کے بارے میں خواجہ معین الدین چشتی نے بر صغیر کے عظیم شاعر امیر خسرو سے یہ فرمائش کی تھی کہ اپنی شاعری کے ذریعہ اس حدیث ولایت کو ایک ایسے ترانے کی شکل دو جو، ہر موالیان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے ایک وظیفہ ولایت کی شکل میں ورد زباں رہے۔ امیر خسرو نے اپنے پیر و مرشد کی فرمائش کے مطابق اسے اپنی بے پناہ شاعرانہ صلاحیتوں سے قوالی کا ایک نصاب تیار کیا۔ جس کا نام’’ قول ترانہ ‘‘ رکھا گیا جو محفل سماع کا اہم جز قرار پایا، امیر خسرو کے انتقال کے سات سوسال کے بعد سید فخر الدین بَلّےنے اس حدیث ولایت کو اپنی روحانی بصیرت سے ایک نئی صوتی تصریح فرمائی اور ان کی تخلیقی رنگ کوپاکستان کے ملتان ریڈیو کی جانب سے اس کی کئ دھنیں بنوائی گئیں جسے بعد میں نشر کیا گیا۔ جسے لوگوں نے بہت پسند کیا اور، ملتان کے مشہور اردو اخبار ’’آفتاب‘‘ کی 28؍ ستمبر 1975 (21؍رمضان المبارک) کو مولائے کائنات کی شہادت کے روز اس کی خصوصی اشاعت بھی کی گئی۔ سید فخر الدین بَلّے کا ایک شعر پورے برصغیر میں مشہور ہوا جو صرف قوالی اور سماع کی محفلوں کی زینت ہی نہیں بلکہ پورے ایشیا میں منعقد ہونے والی محفل مقاصدہ کی نظامت کرنے والے بیشتر ناظمین مقاصدہ اس شعرکو آج تک پڑھتے ہیں۔ یہ شعر آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ بے مثال تھی شادی بتولؐ کی
بیٹا خدا کے گھر ہے، بیٹی رسولؐ کی
سید فخر الدین بلّےکی دوسری اہم تحقیقی کتاب’’ فنون لطیفہ اور اسلام‘‘ ہے یہ کتاب اپنی نوعیت کی بڑی منفرد کتاب ہے۔ جس میں اسلامی پیغامات کے اساسی موضوعات کو بڑے پُر لطف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا اسلوب نگارش بڑا دلچسپ ہے، اس میں مواعظ و پند و نصائح کو فنون لطیفہ کے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس کو پڑھنے سے لوگوں کو حظ محسوس ہونے کے ساتھ ان میں پوشیدہ اسلامی پیغامات کی معنوی افادیت بھی لوگوں پر واشگاف ہوتی ہے۔ فخر الدین بَلّے نے جس میدان میں قدم رکھا اس میں اپنا ایک الگ راستہ استوار کیا، وہ ایک اچھے صحافی بھی تھے، جن کے کالم پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اردو کے اخبارات و رسائل وجراید کی زینت بنتے رہے، اور انھوں نےبہت سے اخبارات و رسائل کی ادارت کے بھی فرائض انجام دئیے۔ جن کی تعداد خاصی ہے، ان میں سے کچھ رسائل و جرائد کا تذکرہ کرنا ضرور سمجھتا ہوں، علی گڑھ سے شائع ہونے والااہم رسالہ ’’جھلک‘‘ کے آپ بانی اور مدیر تھے۔ علی گڑھ سے شایع ہونے والاایک اورپندرہ روزہ ’’دی یونین‘‘ کے بھی ایڈیٹر تھے، روزنامہ ’’نوروز‘‘ (کراچی ) ان کی ادارت میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ شایع ہوتا رہا، جس میں اس وقت مشاہیر ادبا و شعرا کی تخلیقات کی اشاعت بڑے اہتمام سے فرماتے تھے، ’’لاہور افیرز‘‘ کی زمام ادارت انھیں کے ہاتھوں میں رہی، ہفت روزہ ’’استقلال ‘‘ لاہور کے ساتھ ماہنامہ ’’ویسٹ پاکستان‘‘ کے بھی مدیر آپ ہی تھے، جو اُس وقت لاہور سے بڑی پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ اسی طرح بہت سے رسالے اور اخبارات کی ادارت آپ نے فرمایٔ، اس سے ان کی علمی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اُن کی شاعری کا رنگ واؔہنگ اپنے معاصرین شعرا سے بالکل الگ تھا، وہ اپنی بات کو اشعار کے پیکر میں ڈھال کر اس کی ترسیل بڑے خوبصورت انداز میں کرتے۔ جو "از دل ریزد بردل خیزد" کی بہترین مثال ہیں۔ جب کہ ان کے معاصر شعرا و ادبا میں ایک سے بڑھ کر ایک عظیم شخصیات موجود تھیں، مثلاً جون ایلیا، علامہ نصیر اجتہادی، احمد ندیم قاسم، فیض احمد فیض، جگن ناتھ اؔزاد، اؔل احمد سرور، جوش ملیح اؔبادی، پروفیسر عنوان چشتی، اور انتظار حسین وغیرہ۔ جن کی موجودگی میں کسی تخلیق کار کو محض اپنے ہونے کااحساس دلانا ہی بڑی بات تھی۔ لیکن پروفیسر فخر الدین بھلّے نے نہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلایا بلکہ انھوں نے اپنی ادبی شخصیت کو ایک اعتبار بھی عطا کیا اور اس عہد کے دانشواروں نے ان کے ادبی شخصیت کا اعتراف بھی کیا۔ اپنی بات کی توثیق کے لئے یہ اقتباسات ملاحظہ کریں۔ جنھوں نے اُن کے علمی و ادبی کارنامے کو نہ صرف سراہا بلکہ اس کا اعتراف بھی کیا۔ علامہ نصیر اجتہادی فخر الدین بھلّے کی شاعری سے متعلق یہ تحریر فرماتے ہیں۔
’’اللہ اللہ کیا زبان و بیان ہے، ایمان کو تروتازہ کرنے کا سامان ہے، ہر شعر معانی کا جہان ہے۔ اس کا ہر مضمون شرح اؔیات قراؔن ہے۔ اور بلا شبہہ یہ کاوش معرفت کا دبستان ہے۔ ‘‘
ان کی شاعری سے متعلق شبنم رومانی کا یہ اقتباس بھی قابل توجہ ہے۔
’’سید فخر الدین بلے کی شخصیت کثیر الجہت اور ان کی شاعری کئی ادوار پر محیط ہے، نظموں میں بلا کا زور بیان ہے، منظر نگاری کے ساتھ ساتھ حسن فطرت کی خوبصورت مصوری بھی کی ہے۔ ان کی غزلوں کا کینویس بہت وسیع ہے،۔ ۔ ۔ ۔ سید فخر الدین بلے کا کلام ان کی وسیع العلمی، قادرالکلامی، ژرف نگاہی، نفاست پسندی، زبان و بیان پر استادانہ مہارت اور فکر و خیال کی بلندی کا اؔئینہ دار ہے۔ ‘‘
سید فخر الدین بلّے مجموعی طور پر اپنی تخلیقی کائینات کی ایک ایسی شخصیت تھے جنھوں نے حرف سے لفظ اور لفظ سے معنی تک کی مسافت کے نشب و فراز اور اس کے معنوی امکان کے سربستہ اسرار و رموز کے ادراک و انکشاف میں بڑی کامیابی کے ساتھ اپنا سفر طے کیا یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اپنی تخلیقی کائنات کے اندرون میں اپنے پورے وجود کے ساتھ زندہ و پائندہ ہیں، انشا اللہ ہر آنے والے زمانے کی ساتھ ان کی دریافت کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔ میں اپنی تحریر کا اختتام اپنے اس شعر پر کرنا چاہتا ہوں۔
تم ہمیں رائیگاں سمجھتے ہو
اک زمانے کی یادگار ہیں ہم