فکرِ ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی
کنجِ گل بھیج مری شاخِ ہنر پر کوئی
رنگ کچھ اور نچوڑیں گے لہو سے اپنے
پھر تراشیں گے ہم اک اور نیا پیکر کوئی
کیا ہوا اب کہ سفر میں یہ مجھے یاد نہیں
مجھ سے رویا تھا بہت دیر لپٹ کر کوئی
زخم، آنکھوں سے ٹپکتا ہے لہو کی صورت
یوں چلاتا ہے مرے سینے میں نشتر کوئی
بھیج کچھ تازہ کمک میرے مسافر کے لئے
پھر اترتا ہے مرے دشت میں لشکر کوئی
آستینوں میں ہَواؤں نے چھپایا ہوا ہے
ہم نے دیکھا ہے چمکتا ہوا خنجر کوئی
خود تعاقب میں مری گھات لگائے کب سے
چھپ کے بیٹھا ہے مرے جسم کے اندر کوئی
ایک ساحل کا تماشائی ہے بس میرا وجود
میری مٹی میں ہے پوشیدہ سمندر کوئی
اپنی فکروں سے لہو کرتے ہیں لفظوں میں کشید
شاہد ؔایسے نہیں ہوتا ہے سخنور کوئی