1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. سب ہیں مصروف کسی کو یہاں فرصت نہیں ہے

سب ہیں مصروف کسی کو یہاں فرصت نہیں ہے

سب ہیں مصروف کسی کو یہاں فرصت نہیں ہے
سب ضرورت ہے مگر کوئی ضرورت نہیں ہے

تجھ سے دشنام طرازوں کی حمایت کے لئے
اب میرے پاس کوئی حرفِ سہولت نہیں ہے

روز اک حشر بپا کرتے تھے جس کی خاطر
ہم یہ سنتے ہیں کہ وہ فتنہ قامت نہیں ہے

عکس رم سازیٔ وحشت سے اُسے ہے نسبت
اب تو آئینوں کو پہلی سی وہ حیرت نہیں ہے

کس لئے ترکِ تعلق پہ ندامت ہے تجھے
اے مری جان مجھے کوئی شکایت نہیں ہے

رقصِ آشوب عجب دیکھا ہے گلیوں میں تری
اے مرے شہر یہاں کوئی سلامت نہیں ہے

حکم ہے خانۂ وحشت کے مکینوں سے کہو
اب یہاں سانس بھی لینے کی اجازت نہیں ہے

خوں بہا مانگنے والوں کو ندامت ہے بہت
میرے قاتل کو مگر کوئی ندامت نہیں ہے

رمز و اسرار سے خالی نہیں ہوتے مرے شعر
یہ الگ بات کہ شاہدؔ کو وہ شہرت نہیں ہے