جنگ انسانی سماجیات کی تاریخ کا سب سے الم انگیز باب ہے۔ جس کا ہر ورق، حسرت و یاس، چیخ و پکار، آنسو، زخم، بے گھری، آگ، دھول، اور دھوئیں سے عبارت ہے۔ دنیاکا کو ئی انسان جنگ نہیں چاہتا، لیکن ہمارے انسانی سماج میں ہمیشہ سے کچھ ایسی طاقتیں موجود رہی ہیں۔ جنھیں انسانیت کے مسکراتے ہوئے چہرے اچھے نہیں لگتے۔ اس لئے کہ وہ اس زمین پر امن کو بحال نہیں رہنے دینا چاہتیں۔ لہذا سامراجی طاقتوں کا یہی ایک ہدف ہے کہ ساری دنیا پر جنگ مسلط کردی جائے۔ آج پورا، ایشیا انھیں سامراجی طاقتوں کے جدلیاتی نظریات کی زد میں ہے۔ ایشیا کا کوئی ملک اس آسیب سے محفوظ نہیں ہے۔ ہمارا گنگا جمنی ملک ہندوستان بھی اس وقت لسانی، ثقافتی، مسلکی اور مذہبی نظریات جیسی مختلف جنگوں سے اندرونی طور سے نبردآزما ہے۔ میں ہندوستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی پہلووں پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ چونکہ مجھے مشرقی اوسطیٰ کے موجودہ پس منظر پر گفتگو کرنی ہے۔ لیکن میں اپنے ملک سے متعلق یہ بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کی سیاست اپنے ’’پن گھٹ کی ڈگر‘‘ سے ہٹ کر دریائے نیل کے راستے پر چل پڑی ہے، اگر یہی روش رہی تو عنقریب اس کا حال بھی فرعون کے حواریوں جیسا ہی ہوگا۔ اس سے قطع نظر فی الحال سامراجیت کی پوری توجہ اس وقت مشرق اوسطیٰ پر ہے، وہ پے بہ پے، مسلمانوں کے خلاف اپنے تخریبی حربوں کا بھر پور استعمال کررہے ہیں۔ کیونکہ انھیں اس بات پر یقین ہے کہ مسلمانوں کا آپسی اتحاد واتفاق ان کے منصوبوں کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ان کے دیرنیہ خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے گا۔ لہذا ان کی ہرممکن کوشش یہی ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان مسلکی منافر ت کی ایسی خلیج پیدا کردی جائے کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں نظر آئیں۔ جس کی مثال تاریخ میں موجود ہے، وہ ترکی، میں خلافت عثمانیہ ہو یا انڈیا میں ’’ خلافت تحریک‘‘ ایسی اور نہ جانے کتنی مذہبی وسیاسی تحریکیں تھیں، جو اپنے عوامی مفادکے باوجود مسلمانوں کے عدم اتحاد کی وجہ سے اُن کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ لہذا اسوقت ضرورت ہے کہ مشرق اوسطیٰ میں ماضی قریب میں برپا ہونے والی جنگوں کا منطقی تجزیہ کیا جائے تو اس کی حقیقت کا ادارک ممکن ہے۔ ورنہ امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ساتھ کچھ نا م نہاد اسلامی ممالک کی غیر منطقی پالیسی کی وجہ سے جنگ کی جو آگ لگائی گئی تھی دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ جس کی زد میں صرف اور صرف مسلم ممالک ہیں اور نقصان صرف مسلمانوں کا ہے اس لئے کہ ان کی طاقت کا توازن رفتہ رفتہ مذہبی و مسلکی نظریات کی بنیاد پر مختلف حصوں میں منقسم ہوتے ہوئے دکھائی دے رہا۔ یہ ایک بھیانک صورت حال ہے۔ جس پر غور کیا جانا چاہئے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے ’’یروشلم کو لے کر اسرائیل کے حق میں دیا جانے والا متنازعہ بیان کی شدت ابھی کم نہ ہوئی تھی، کہ اب سامراجی طاقتیں سوشل میڈیا کے ذریعہ ایران اور سعودیہ عرب کے درمیان جنگ کی فضا کو ہموار کرنے کے لئے، دونوں طاقتوں کا موازنہ کرنا شروع کردیا ہے۔ چونکہ ریاض حکومت کی قیادت میں ’’یمن‘‘کے حوثیوں کے خلاف اکتالیس ممالک پر مشتمل عسکری اتحاد کی تشکیل اس نئی جنگ کا اصل پیش خیمہ ہے۔ چونکہ گزشتہ روز ’’حوثی نوجوانوں‘‘ کی جانب سے ’’برکان‘‘ بلیسٹک میزائیل سے ریاض میں واقع شاہی ’’یمامہ محل‘‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ چونکہ حوثیوں نے ریاض حکومت کی جانب سے ا ن کے اوپر جبریہ مسلط کی جانے والی جنگ کے ۱۰۰۰ ؍ دن پورے ہونے پر یہ حملہ کیا تھا۔ ’’بی بی سی ‘‘کے تجزیہ نگار’’روز ایلگزینڈر‘‘کے مطابق’’یہ میزائیل ہمسایہ ملک یمن کے باغی حوثیوں کی جانب سے داغا گیا تھا، لیکن سعودی عرب کو یقین ہے، کہ اس کا ریموٹ کنٹرول یمن سے دور ایران کے دارالحکومت تہران میں تھاایران متعدد دہائیوں سے سعودی عرب کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ‘‘
ریاض حکومت کی جانب سے لگائے جانے والے اس الزام کو ایران نے سختی سے مسترد کردیا ہے، اور اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے بے بنیاد الزام اس سے پہلے بھی ریاض حکومت کی طرف سے لگایا جاتا رہا ہے، جس کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ عجیب طرح کی نفسیاتی کشمکش ہے، جو دونوں ملکوںکے درمیان کافی عرصے سے پائی جارہی ہے۔ شاید مشرق اوسطیٰ میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے ریاض حکومت ایک نفسیاتی خوف کے احساس کاشکار ہوچکی ہے، ریاض حکومت کے اسی خوف وہراس کا فائدہ اٹھانے کے لئے امریکہ اور اسرائیل اپنی پوری کوشش میںمنہمک نظرآرہے ہیں۔ اسی سبب سے ریاض حکومت امریکہ اور اسرائیل کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد تسلیم کررہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی اقدام کرتے ہیں تو، ریاض حکومت خاموشی سے اس کی تائید کرتی ہے۔ جیسا کہ ابھی ’یروشلم‘کے حوالے ڈونالڈ ٹرمپ کے دئے جانے والے بیان کی دنیا کے تمام مسلمانوں نے مذمت کی اور اس کے خلاف احتجاج کیا لیکن، ریاض حکومت نے اپنا کوئی موقف واضح نہیں کیا، جس کی وجہ سے دنیاکے تمام مسلمانوں کے درمیان سعودی فرمانرواوں کے اس عمل کی کھل کر مذمت کی گئی۔
برطانیہ کے معروف تجزیہ نگار ’’مائیکل ٹائٹ‘‘ جو عرب معاملات کے ماہر اور مشیر ہیں انھوں نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ۔ ’’ایران تاریخی طور پرکافی اثر ورسوخ رکھنے والا ملک ہے، ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مذہب بھی ہے، ان کے مطابق سعودی عرب ایک سنی ملک ہے اور ایران ایک شیعہ اکثریت والا ملک ہے، دونوں ممالک دوسرے ممالک میں اپنے ساتھیوں کی حمایت کرتے ہیں لہذا سعودیہ اور ایران میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے، اور گزشتہ چند برسوں میں ایران سعودیہ پر اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے بھاری دکھائی پڑ رہا ہے، اور کئی عرب ممالک ایران کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے سعودی عرب الگ تھلگ سا دکھائی دے رہا۔ ‘‘
یہی وہ نکات ہیں جو مسلسل سامراجی طاقتوں سے وابستہ تجزیہ نگار اٹھاتے آرہے ہیں، اور سعودی عرب کو ایران کے اثر و رسوخ کا خوف دلاکر ان کا استحصال کررہے ہیں۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ ان تجزیہ نگاروں نے ایران اور ریاض حکومت کے درمیان کسی غیر متوقع جنگ کی پیشن گوئی بھی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، اور جس میں سعودی عرب کو اس بات کا یقین دلا رہے ہیں، کہ اگر سعودی عرب ایران کے خلاف کسی طرح کی جنگ کا اقدام کرتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل اس کے ساتھ ہے۔ یہی ان کی سیاسی و تخریبی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے کہ کسی طرح ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف کھل کر میدان جنگ میں اتر جائیں۔ اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو مسلمانوں کی دوبڑی طاقت آپس میں ہی متصادم ہوکر دم توڑ دیں گیں، جس کا براہ راست فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو ہوگا۔ لیکن دنیا کے دوسرے اہم اسلامی ممالک اس بات کی کوشش میں ہیں کہ کسی بھی صورت میں ایران اور سعودی حکومت کے درمیان آپسی رنجش میدان جنگ میں تبدیل نہ ہونے پائے، اس لئے کہ ان دونوں طاقتوں کے متصادم ہونے کی صورت میں مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان ہوگا، اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے، پاکستان فوج کے سربراہ جنرل باجواہ نے یہ بات بڑے واشگاف انداز میںکہتے ہوئے اس بات پر زورد یا کہ ہمارا ملک کسی بھی طرح سے ایران اور سعودی عرب کو میدان جنگ میں اترنے سے باز رکھے گا۔ یہ بات کہاں تک درست ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ سعودی عرب کو اپنے قوت بازو سے زیادہ امریکہ اور اسرئیل کی مدد پر بھروسہ ہے، جب کہ یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ کی صورت میں کبھی بھی کسی مسلمان ملک کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اگر ریاض حکومت نے جنگ جیسا کوئی اقدام کیا تو اس کا نتیجہ عراق کے سابق صدر صدام حسین جیسا ہی ہوگا۔ چونکہ ایران اپنی جنگی صلاحیت میں ناقابل یقین حد تک مہارت رکھتا ہے، جس کامظاہر ہ کئی مرتبہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کر چکا ہے۔ لہذا ریاض حکومت کو بڑی احتیاط سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، چونکہ موجودہ وقت میں سعودی عرب اپنی ناعاقبت اندیشی اور غیر سیاسی بصیرت کی وجہ سے مختلف محاذوں پر شکست سے دوچار ہورہا ہے، یہاں تک سعودی عرب اسوقت ایک بڑی خانہ جنگی کی طرف بہت تیزی سے پیش رفت کررہا ہے۔ میں اپنی بات کا اختتام ڈاکٹر پیام آعظمی کے اس شعر پر کرنا چاہتاہوں۔
جنگ چھڑتی ہے تو میداں میں عدو لڑتے ہیں
غیر تو غیر ہیں آپس میں لہو لڑتے ہیں