ایک نسل اور ایک دوسرے کے درمیان مواصلات کی کمی، خاص طور پر نوجوانوں اور ان کے والدین کے درمیان، ذائقہ، اقدار، نقطہ نظر، وغیرہ کے اختلافات کے بارے میں۔
ایک زمانے میں نام نہاد دانشوروں نے (ایک شخص ایک انتہائی تیار کردہ عقل رکھتا ہے) انتہائی عقل مندی کےاز خودمفروضے کی بنیاد پر نئی فکر کے نام پر جنریشن گیپ کا چورنبیچا۔ اور اس کی وجہ سے بلا وجہ والدین اور بچوں میں ایک اختلاف پیدا ہوا۔ جس نے معاشرے مِیں اجنبیت کے احساس کو بڑھایا۔ اور اولاد نے والدین کی اس دانش کو للکارہ جو محض تجربے کی بنیاد پر حاصل ہوئی تھی۔ اور اپنی منزلوں کی سمت کاغلط تعیّن کیا۔ مطالعہ سے حاصل شدہ علم دوسروں کے تجربات کا نچوڑ تو ہو سکتا ہے مگر ذاتی تجربے اور ذاتی مشاہدےکا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ لِہٰذا والدین کی دانش انکے بچّوں کیلئے انکے مخصوص ماحول مِیں زیادہ معتبر ہوگی۔
جنریشن گیپ کی دانش مغرب سے آئی تھی۔ انکے ہاں ماحول بدلا تو فکرودانش مِیں زمَین وآسمان کا فرق پڑ گیا۔ بچوں نے ماحولیاتی تبدیلی کا اثر اسطرح لیا کہ والدین کی طرز زندگی مِیں ٹیلیویژن کے اثرات بھی داخل ہو گئے۔ شب وروز کے سونے اور جاگنے کے معمولات بدل گئے۔ گھر کے تمام افراد ایک پیج پر ہوتے تھے۔ ٹی وی نے اس میں اختلاف کو جنم دیا۔ اسی تجربے نے جنریشن گیپ کو پیدا کیا۔ چونکہ ہماری زندگی سے اسلامی ڈسپلن) قوانین کے مطابق عمل کرنے کے لئے تربیت؛ ڈرل: نظم و ضبط۔ ) اسلئے مفقود ہو گیا کیونکہ ہم نے اپنے شب و روز کے ماحول کو نام نہاد جدیدیت کے بہانے تباہ کردیا۔ برسہا برس کی معمولات کو فرسودگی کا الزام دے کر یکسرمسترد کر دیا۔ خاندان کا مواصلاتی نظام غلط سگنلوں سے مشتبہ ہو گیا۔ روزانہ قرآن کی تلاوت (سمجھ کر) اور نماز بھی اس طرح کہ عرض کیاہے۔
(کیَا نَمازِ شاہ تھی ارکانِ ایمَانی کے سَاتھ۔ ۔ ۔ دل بھی جھک جَاتا تھَاَ ہر سَجدے مِیں پیشانی کے ساتھ)
ایسی صورتحال مِیں آپ اسے ایمانداری سے نظم کے فقدان کا نام دیں۔ جنریشن گیپ کو بھگتنا ہماری مجبوری نہیں تھی۔ شیشے کو پتھر مار کر توڑنے پر۔ بجَائے اسکے کہ ہم اس قصور پر شرمندہ ہوں۔ بلکہ اس محرومی کو قسمت کا لکھا مان کر قبول کرلیں۔ مغرب کی سوچ اسی طرح ہو سکتی ہے۔ مگر ہمارےہاں تو قصور مان کر شرمندگی کیساتھ توبہ کر لینا بھی بڑی عظمت کا کام ہے۔ آج کل موبائل بھی ہماری صفوں مِیں فساد کا ایک بڑا آلہ ہے۔
ہم میں اکثر مغرب کے بڑے دل دادہ ہیں۔ اور اسکی سوچ کو ترقّی کا سبب سمجھتے ہیں۔ اب تو دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ ہر اطّلاع دنیا کے کئی کئی چکّر لگالیتی ہے۔ مگر ہماری جہَالت کا یہ عالم ہے کہ ہم اللہ اور اسکی روشن کتاب کیلئے مشکوک رہتے ہیں مگر آج بھی9/11 کو سچ جانتے ہیں۔ بغداد کے تباہ کن ہتھیار ہمیں آج بھی ماننے پڑتے ہیں۔ کہاں عافیہ صدیقی اور کہاں امریکنوں پر حملہ۔ ہم نے سچ مان لیا ہے۔ طالبان نے اللہ کے نام پر امریکہ کو شکست دے دی ہے۔ امریکہ کے اعترافی بیان پر بھی ہمیں یقین نہیں آ رہا۔ مسلمانوں پر ہمیشہ سوئی بھی نہ بنانے کے قابل ہونے کا طعنہ دینے والےحَسن نثار کو آج بھی یقین نہیں ہے۔ کہ دنیا کاسب سے چھوٹا ایٹمی ہتھیار صرف پاکستان مِیں ہے۔ بڑے سے بڑا بھی ہے مگر چھوٹا بنانا بڑا کمال ہے۔ ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے۔ کہ واقعی نام نہاد دانشوری کیساتھ جینریشن کا گیپ یہی ہے۔
مغرب اور مشرق کا یہی فرق ہے جسے مغرب کبھی عبور نہیں کر سکا۔ اگرچہ مغرب کی ریشہ دوانیوں سےمشرق کو بہت نقصان ہوا۔ مگر حق تو حق ہے اسکو کوئی لگام نہ ڈال سکا۔ آخر مسلمان ہی اللہ کی مدد سے جیتنے والے ہوتے ہیں۔ مگر شرط وہی ہے کہ ہم اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑیں اور آپس میں اختلاف نہ کریں۔
آنے والے دنوں مِیں ہمیں زیادہ سے زیادہ اللہ رب العزّت کا ذکر کرنا چاہیئے۔ کہ شیطان کے شر سے صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے۔
ربّ اِنیِّلماَ َاَنزلتَا اِلَیہ مِن خَیر فِقیر۔