انسان میں دو جذبےشائد کہ شیطانی ہیں۔ ایک غرور اور دوسرا ناشکری۔ اور یہ دونوں معاشرے میں فساد کے بڑے محرّک ہیں۔
بھارت میں جب برہمنوں کی آمد ہوئی تو انہوں نے یہاں کی حقیقی (مقامی) آبادی سے نہ جانے کس طرح بہلا پھسلا کر اپنے رابطے پیدا کیئے۔ پھر انکو اپنے معاشرے کی ضرورت کے مطابق اپنے نظام میں بانٹ لیا۔ اور گروپ بنا کر انکو مخصوص کام بھی بانٹ دیئے۔ کیونکہ یہ وسطی ایشیا سے آئے تھے۔ لِہٰذا تہذیب اور تمدّن سے آگاہ تھے۔ اب کاموں کے ساتھ ساتھ اسی مطابقت سے انکے گروپس کو الگ الگ نام دئے۔ اور آگے چلکر انہی ناموں کو ذات(جاتی) بنا دیا۔ ایشیا ء کا کمال یہ ہے کہ یہاں کام کرنا بڑی بے عزّتی کی بات ہے۔ جسکا کام جتنی محنت کا ہے اسکو اتنا کمتر سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہ کی بڑی خوبی یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ کسی محنت اور جسمانی مشقّت سے دور رہتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ چین کے بادشاہ اپنے ناخن بڑھا تے تھے اور اکثر کئی کئی انچ لمبے ہوتے تھے۔ تا کہ ہر کسی پر واضح ہو جائے کہ بادشاہ اگر کام کرتا تو اسکے ناخن ٹوٹ جا تے۔ حد یہ کہ کھانا بھی کوئی اور کھلاتا تھا۔ اسی طرح انسانی زندگی کے پرایئویٹ کام۔ علیٰ ھٰذالقیاس کوئی ملازم سرانجام دیتا تھا۔ اپنے یہاں برِّصغیر میں بھی آپنے اس کی جھلک اس طرح دیکھی ہوگی۔ کہ غریب کے پاس بے حد کام ہوتا ہے اور امیر کے پاس آرام ہی آرام۔ اسی پر ہمارے اسٹیٹس کا میعار ہے۔ کار کا دروازہ بھی کھولنا سیٹھ کے لیئے نا ممکن ہے۔ ڈرایئور ہی آ کر کھولے گا یہی بڑائی اور عزّت کی علامت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ انکو باتیں بنانے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔
محمد رفیع مرحوم نے گایا تھا۔ باتو ں کے ہم بادشاہ باتیں کریں مہان۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معاشرے کے زندہ رکھنے کے لیئےبے شمار کام بہت ضروری ہیں۔ لِہٰذا برہمن نے یہ راز پاجانے پر۔ لوگوں کو کام بانٹ دیئے۔ اس کیلئے چار بڑے( ورن)گروپ بنائے۔
۱۔ برہمن جو کوئی کام نہیں کریگا سب کا مال بٹورے گا۔ سب پر حکم چلائے گا موج میلہ کرے گا اور دوسری ذاتوں (جنکو اسنے نیچ کا نام دیا ہے) انکی عورتوں کو بھی اپنے تصرف میں رکھ سکتا ہے۔
۲۔ چھتری فوجی، جو اسٹیٹ کے لیئے حفاظت فراہم کرے گا۔
۳۔ ویش بنیا (بزنس مین)
۴۔ شودر یہ وہ طبقہ ہے۔ جواوپر کے تین طبقوں کی خدمت کیلئے پیدا کیئے گئے ہیں( برہمنوں نے اسی طرح سمجھایا ہے۔ ) اس طبقے کو انہوں نےنہ تو پڑھنے لکھنے کا حق دیا ہے، نہ انکی اپنی مرضی سے کسی دوسرے کام کے انتخاب کا حق۔ آج بھی مودی گورنمنٹ پڑھنے لکھنے میں رکاٹیں پیداکر رہی ہے
ایک تو انکو سخت ترین کام دیا دوسری طرف انکو ذلیل سمجھنا۔ مثال کےطور پر اگر وہ فضلہ اٹھانے کا کام کرتے ہیں تو دوسرے لوگوں کو انکا شکر گذار ہونا چاہئے کہ وہ اسقدر مشکل کام کر رہے ہیں۔ کام کرنے میں کیا توہین؟۔ کام چوری حرام ہے۔ اسی لیئے اردو زبان میں ان کو عزّت کی خاطر حلال خور کا نام بھی دیتے ہیں۔ یا مہتر کا نام دیتے ہیں۔ کہ یہ محترم ہیں، نہ کہ کمبَختوں نےانکے کام کو ذات بنا کر انکو ذلیل کیا۔ اسی طرح چمار وہ لوگ ہوتے جو چمڑے کا کاروبار کرتے ہیں انگریزی میں Taneries بڑا عزّت والا نام ہے۔ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے، اور بڑا زرمبادلہ لاتا ہے۔ کام میں کیا بے عزّتیِ؟
عنوان کے مطابق یہ سوچ غرور اور نا شکری ہے کہ نہیں؟
اسلام وہ طرز زندگی ہے جسمیں سب انسان برابر ہیں۔ کام، دولت، حْسن، کوئی بھی چیز عزّت کے قابل نہیں ہے عزّت صرف اسکی ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ ذات پات کی تقسیم ہی وہ نکتہ ہے جو بھارت کو تباہ کر رہا ہے
پورے بھارت میں ہر طرف احتجاج اور بغاوت ہے۔ مودی کہاں کہاں۔ نمٹٓے گا۔ جتنا یہ ظلم کر رہے ہیں اسی قدر لوگ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ آ رہے ہیں۔ بھارت میں امن کیسے آئے گا۔ جب اس دور جدید میں یہ عورت کو پاؤں کی جوتی بنانا چاہتے ہیں۔ جو آبادی کا پچاس فیصد ہے۔