سندھ کے شہر ڈھرکی کے چھ ہندو خا ندانوں کے اٹھّاسی افراد بھارت کے شہر جیسلمیر کیلئے ویزا لے کر بھارت گئےاور اب واپس آنے پر آمادہ نہِیں ہیں۔ اور انکی شکائتوں کا ایک انبَار ہے۔ مَیں نے بہت سکون سے سنا۔ انکے بیانات مِیں ایسا کچھ غلط بھی نہیِں تھا۔ افسوس یہ ہوا کہ مسُلمانوں کے اس ملک مِیں غَیر مسُلموں کے ساتھ ایسا برا سلوک، مَگر جب مجھے خیَال ہوا کہ اسلامی ناموں کیساتھ نظر آنے والے لوگ کیا اسلام کو جانتے بھی ہیں۔ ان مِیں بیشتر نام نہاد مسلمان ہیں، اور ان میں سے اکثر ہندو تہذیب اور کلچر سے متاثر ہیں۔ Zee ٹی وی سے وہ شِکائت کر رہے تھے کہ ان کو پاکستان مِیں اپنے گلاسوں میں پانی نہیں پینے دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ ان بچّوں کو پڑھنے کا حق نہیں تھا۔ انکی عورتوں کو اغوا کر لیتے تھے۔ ہندو کہہ کر ذلّت آمیز رویہ اختیار کرتے تھے۔ اسکی شکائت تو ہماری پارلیمنٹ سے بھی ایک اقلیّتی ممبر نے کی۔ کامران شاہد کے پروگرام مِیں بھی اکثر نے شکائت کی۔ اب اگر زمینی حقیقت کی طرف آ ئیں۔ تو آپ کو یاد ہو گا کہ زرداری صاحب فرما رہے تھے بھلا نیب کی مجال جو مجھ کو بلائے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ مِیںِ اڑتالیسں سا ل حُکومت کرتے ہوئے ہو گئے۔ اور انہوں نے سندھ کو طبیعت سے لوٹا۔ اٹھارویں ترمیم بھی اسی لیئے لائے۔ کہ وفاق کو بھی لوٹ سکیں اور تمام اختیار انکے پاس آ گئے۔ اب سندھو دیش بنانے میں بچا کیا ہے۔ اسپر بھی دھمکی دے رہے ہیں کہ ہم الگ ہو جائیں گے۔ انکے نانا جان نے بھی قرارداد پھاڑ دی تھی۔ اور پھر اعلان کر دیا اُدھرتم اِدھر ہم، اور پاکستان کو دو لخت کر دیا۔
سندھ مِیں غریب مسلمان کی حَالت بھی سندھ کے ہندووں سے کم خراب نَہیں ہے۔ مِیں نے اپنےایک دوست سے پوچھا کہ تم اتنے بڑے گھیر کی شلوار کیوں پہنتے ہو، جواب آیا کہ وڈیرا نئے کپڑے نہیں پہننے دیتا تو ہم اسکے سائڈ بدل کر صاف حصّہ سامنے لے آ تے ہیں۔
سندھ مِیں سب کچھ وڈیرا ہے باقی کسی اور کو جینے کا حق نہیں ہے۔ جمہوریت کا کوئی وجود نہیں ہے، وڈیرا جسکو کہےگا ووٹ اسی کو پڑے گا۔ آپ سندھ میں جب چاہیں دیکھ لیں۔ کہ سندھ مِیںِ کیا ڈولپمنٹ ہوئی ہے۔ یہ لوگ سندھ کو اپنی جاگیر تو سمجھتے ہیں مگر ہوش مند آدمی اپنی جاگیر کو بھی قدر سے رکھتا ہے۔ مگر یہ رویہ تو ایسا ہےجیسے کوئی چور یا ڈاکو اپنے لوٹے مال کی زیادہ فکر نہیں کرتا۔
ہمیشہ یہ بڑے لوگ سرکاری مال کو اپنا سمجھتے رہے اور اسکو اپنے تصرّف مِیں لائے۔ جب داؤں لگا مال باہر بھجوادیا۔ ساری دنیا مِیں جائدادیں بنائیں۔
اس ملک مِیں کبھی گڈ گورننس نہِیں رہی۔ بڑاچور کبھی پکڑانہیں گیا۔ ہاؤس بلڈنگ کا قرض وصول کرنے کیلئے غریب کا مکان نیلام کر دیا۔ حکمرانوں نے بنک سے بڑے بڑے قرض معاف کرا لیئے۔
اب یہ کشمیر کے مسئلے مِیںِ اندرون سندھ مِیں مندروں کو آگ لگا کر، اور غریب اقلیّتون پر مظالم توڑ کر اقوامِ متحدہ مِیں ہمارا مقدمہ کمزور کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس کا سخت نوٹس لیں اور مجرموں کو قرارِ واقعی سزادی جائے۔ ورنہ ریاستِ مدینہ کا امیج خراب ہو جائے گا۔
عمران خان اگرچہ کہ اکیلے کھڑے ہیں مگر انکے کھوٹے سکوں کو بھی عقل کے ناخن لینے چاہیئے۔ کہ اللہ نہ کرے اگر پاکستان کو کچھ ہو گیا تو جس ذلّت کی موت ان کھوٹے سکّوں کا مقدّر ہو گی ابھی انکو اسکا اندازہ نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ توبہ کرلیں اور اس ملک کی حفاظت مِیں صف اوّل کے مجاہد بن جائیں۔ اور مجرموں کو کیفر کردار کو پہنچا دیں۔ اب وقت بالکل نہیں بچا ہے، ڈیل اور ڈھیل کا وقت ختم ہو گیا ہے۔
جو ہندو خاندان بھارت مِیں آہ وزاری کر رہے ہیں، کراچی کَہہ رہا ہے کہ غم نہ کرو ان سندھ کے مالکوں نے میرا حشر تم سے زیادہ برا کیا ہے۔ اور پھر بھی کہَہ رہے ہیں سندھ تقسیم نہیں ہو سکتا۔ ان کو یہ شعور نہیں ہے کہ انہوں نے سندھ کو پہلے ہی تقسیم کردیا ہے۔ اب کیا تقسیم کرو گے۔ ایک سندھ ہے دوسرا سندھ کی کچرا کنڈی۔
خان صاحب آپکے سامنے یہ چو مکھی لڑائی ہے۔ اس میں دشمن سے نمٹتے ہوئے اسکو ٹھکانے لگائے بغیر آپ یہ لڑائی جیت نہیں سکتے۔