1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. بچہ باپ کا نہ بھی ہو شکل تو اس ہی پر ہو گی

بچہ باپ کا نہ بھی ہو شکل تو اس ہی پر ہو گی

ماں بننے والی نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ سابقہ ساس سرہانے کھڑی تھی۔ وہ غصے سے بولتی جا رہی تھی۔ سابقہ خاوند اسے پکڑ کر باہر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔

"میں تم پر کیس کروں گی۔ تمہیں عدالت میں گھسیٹوں گی"۔

وہ بھی غصے میں تھا، بڑبڑا رہا تھا، "تم نے بچے کو مار دیا۔ جان بوجھ کر یہ حمل ضائع کیا ہے"۔

کوسنے والا تو ہر مرحلے پر ساتھ نبھانے کا دعویدار تھا۔ وعدے ایفا کرنے کی بجائے وہ طلاق دے کر چلا گیا۔

وہ بھی ایک ایسی ماں کو دیکھنا نہیں چاہتا ہوگا جو ماں بننا چاہتی تھی اور جس نے اپنا بچہ گرا دیا تھا۔

وہ تو اسے جانتا تھا۔ ماں بننے کی کتنی شدید خواہش تھی؟ اس عورت کو جو کئی سالوں سے عورتوں کو ماں بننے میں مدد فراہم کرتی رہی ہے۔

جو کئی سالوں سے اپنے بھانجے بھتیجوں کو سینے سے لگا کر سوچا کرتی تھی کہ کب اس کی گود ہری ہوگی۔

٭٭٭

دو سال تک وہ اس کے ساتھ ہی کام کرتا رہا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو جان پہچان کر شادی کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ مرد جس کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے بچہ گھوم جاتا تھا جس کی شکل بالکل باپ جیسی ہی ہوگی۔

سینکڑوں بچے اس نے ان کے باپوں کے حوالے کیے تھے جن کو دیکھتے ہی رشتہ دار جمع ہو جاتے اور کہنے لگتے کہ یہ تو بالکل ماں پر گیا ہے، ماں جیسے ہاتھ، ماں جیسی آنکھیں۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ ان کا منہ توڑ دے۔ وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہوبہو باپ جیسا ہے۔ ماں کی تو کوئی جھلک بھی نہیں۔

جس کا بچہ ہے شکل بھی تو اس جیسی ہی ہوتی ہے۔

نکاح کے وقت ماں اور باپ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہاں کی تھی، "ہاں! ہم نہ صرف ساتھ نبھائیں گے بلکہ مل کر اس دنیا کو سنواریں گے، اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے"۔

باپ اور ماں، جنہوں نے مل کر سوچا کہ زندگی سے لطف اندوز ہو لیں۔ منصوبے بنائے تھے۔ پوری دنیا گھومنے نکل پڑے۔ دو سال تک بھر پور زندگی گزاری۔

خواہش شدید ہوگئی تو پلاننگ کرلی۔ کئی مرتبہ دن اوپر گئے۔ ٹیسٹ نیگیٹو آتا تو آس کی ڈوری ٹوٹ جاتی لیکن کچھ ماہ بعد پھر امید کی کرن دکھائی دینے لگتی۔

ڈاکٹری عجیب شعبہ ہے! ہزاروں لوگوں کی مدد کرو، ان کے مسائل حل کرو اور اپنے مسئلے لے کر در بدر بھٹکتے رہو۔ ماں بننے کی خواہش میں شدت آتی گئی۔ چھ سال گزر گئے۔

ایک ماں جو خود بانجھ پن کا علاج کرتی تھی کئی ڈاکٹروں کے پاس گئی کہ وہ دوسری عورتوں کی طرح حاملہ کیوں نہیں ہو رہی؟ ان تمام عورتوں کی طرح جنہیں وہ اپنے مریض کہتی تھی، جو اس کے کلینک پر ہر روز بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ ایک ایسے ماں باپ جنہیں یہ بتایا گیا کہ ماں شاید کبھی بھی ماں نہ بن سکے۔ باپ نے حوصلہ دیا تھا کہ کوئی بات نہیں ہم کوشش جاری رکھیں گے۔

باپ بھی بچہ چاہتا تھا اور ماں بھی، چاہے صرف ایک ہی ہو۔

ماں باپ دونوں نے دو سال مزید انتظار کیا پھر فیصلہ کیا کہ وہ بچہ گود لے لیں گے۔ ہسپتال کے ساتھی بھی ان کو یہی سمجھا رہے تھے۔ ماں نے تلاش شروع کر دی۔ کئی مریض جو حمل ضائع کروانا چاہتے تھے، کئی جو بچہ چھوڑ جاتے تھے، وہ ان کا انتظار کرنے لگی۔ اب ماں زیادہ تر رات کی ڈیوٹی کرتی تھی کیونکہ خدا بھی پردہ رکھتا ہے اور ایسے بچے اکثر رات کو پیدا ہوتے ہیں۔

دونوں ڈپریشن کا شکار ہونے لگے، اکثر لڑتے تھے۔

جذبات کی شدت سے ماں کو بکھرتا دیکھ کر باپ ڈر جاتا اور کہنے لگتا کہ باپ نے تو حوصلہ نہیں ہارا ہے وہ تو پر امید ہے کہ ماں ضرور حاملہ ہوگی۔

ماں اور باپ کی قسمت ہی ایسی تھی ایک سال انتظار کیا اس سال کوئی ایسی ماں نہیں آئی جو بچہ چھوڑ دینا چاہتی تھی۔

پھر وہ رات آ گئی کہ ماں بہک گئی اور ہنس مکھ، خوبصورت، ساتھی ڈاکٹر کے فریب میں آ گئی۔

بہت بھاری رات تھی۔

ماں تو اسی رات، اسی کمرے کی میلے پلستر والی چھت دیکھ کر، اس کی ٹوٹی ہوئی دیواریں دیکھ کر، اس کے جانے کے ساتھ ہی، دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر ہی سوچنے لگی تھی کہ وہ اب ماں نہیں بننا چاہتی۔ اگلی صبح ماں پہلے ہسپتال میں ہی نہاتی رہی اور پھر گھر جا کر بھی جسم کو مل مل کر دھوتی رہی۔ اس کا رنگ روپ ایک دن میں ہی بکھر گیا تھا۔ اجڑی اجڑی تھی کمرے کی چھت، کمرے کی دیواروں کی طرح۔

ماں نہیں بننا چاہتی تھی، بننا بھی چاہتی تھی۔

ٹیسٹ پازیٹو آ گیا۔

ایک ہی مرتبہ سے؟ سارے ٹیسٹ بتاتے تھے، ڈاکٹرز بھی کہتے تھے کہ وہ دونوں ٹھیک ہیں۔ حمل نہ ہونا قدرتی امر ہے۔ اب وہ ماں بن رہی تھی کس کے بچے کی؟

پاؤں بھاری ہوئے تو ان کے نیچے باپ نے پلکیں بچھا دیں۔ وہ تو اسے بستر سے نیچے نہیں اترنے دیتا تھا۔ بھاگ بھاگ کر سارے کام کرتا۔ وہ باپ جو باپ نہیں بن سکا تھا باپ بن رہا تھا گرچہ شاید وہ اس بچے کا باپ نہ ہو۔ جس بچے کی پیدائش کا سوچ کر ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، خوشی کے آنسو، نا امیدی کے بعد امید کے آنسو۔

ایک ماں اور باپ جو ایک عام جوڑے سے زیادہ خوشیاں منا رہے تھے لیکن اندر ہی اندر ماں کا دل ڈوب جاتا تھا۔ وہ سوچتی کہ وہ اس باپ کی نہیں کسی اور باپ کے بچے کی ماں بن رہی ہے۔ اس ساتھی ڈاکٹر کی جو ہینڈسم تھا، پیارا تھا لیکن اسے بہت بدصورت لگتا تھا، اسے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔

بڑے بڑے ڈاکٹرز کے الفاظ بھی اس کے دماغ میں گونجتے تھے کہ وہ دونوں ٹھیک ہیں۔ یہ سوچ کر اس کی آنکھوں کے سامنے آس امید کی جھلکیاں تھرکنے لگتی تھیں۔ وہ ولدیت کا ٹیسٹ کروانا بھی چاہتی تھی اور نہیں بھی کہ دل بسمل کی حسرت ختم نہ ہو جائے: یہ آرزو بھی نہ مٹ جائے کہ اس کا خاوند ہی اس کے بچے کا باپ ہے۔

بس ماں تھی ناں! اس لیے مزید صبر نہ کر سکی اور باپ کو بھی اپنی کشمکش کا حصہ دار بنا لیا۔ باپ مثبت سوچ کا حامل، خاموش ہوگیا۔ پھر وہ خاموش ہی ہوتا چلا گیا۔ بچے کے استقبال کی تیاریاں کرتا تھا لیکن وہ گرمجوشی نہیں رہی تھی۔

ولدیت کا ٹیسٹ کروانا اب زیادہ ضروری ہوگیا تھا۔

ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ وہی تھی جس کا اسے تو پکا یقین تھا، "باپ، باپ نہیں تھا"۔

بچے کی خواہش، اس کی چاہت کی لو جو پہلے ہی مدھم تھی گل ہو کر زندگی کی تاریکی کو مزید گمبھیر بنا گئی۔

ماں، جو دن رات سال ہا سال تک دوسری ماؤں کو ماں بننے میں مدد کرتی رہی تھی، ماں نہیں بننا چاہتی تھی۔

وہ جانتی تھی کہ یہ سارا کام غیر قانونی ہے۔ ماں نے اپنے بچے کو آٹھویں ماہ میں ضائع کر دیا۔ بچہ جو زندہ پیدا ہوا لیکن ماں کا ظلم نہ سہ سکا وہ ظلم جسے باپ بھی برداشت نہ کر سکا اور نا امیدی کا پانی اس کی آنکھوں سے چھلک پڑا۔

ماں خوش تھی۔

وہ ماں جسے خاوند نے اس وقت طلاق دے دی جب وہ لیبر روم کی طرف جا رہی تھی۔ جب باپ کو ڈاکٹر نے بتایا کہ ماں نے بچے کو مارنے کے لیے، اس معصوم کو جو ابھی ماں کے پیٹ کے اندر تھا، ادویات لی ہیں۔ بچہ نہیں بچ سکے گا۔ اس فارم پر دستخط کرو پھر کام شروع ہوگا۔

" تم ایک ماہ مزید انتظار نہ کر سکیں"۔

ماں جانتی تھی کہ وہ نہیں کر سکتی تھی۔

نرس بچے کی لاش لے کر اندر آئی۔

"پہلی اور آخری بار اسے دیکھ لو"۔

ماں نے منہ پھیر لیا۔

کوکھ خالی ہوگئی تھی اور دل بھی

اس شدید خواہش سے۔

ماں اس بچے کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی جس کی وہ ماں نہیں بننا چاہتی تھی۔

"سوری! میں تمہاری ماں نہیں ہوں"۔

ساتھ ہی سابقہ خاوند اندر آ گیا۔

نرس سے بچے کو لے لیا۔ اسے دیکھنے لگا۔

"مجھ پر گیا ہے، ناک تو بالکل میرے جیسی ہے۔

میرا بچہ ہے تو شکل بھی مجھ پر ہی ہوگی"۔

(ماخوذ)