کوئی رات اس پر اتنی بھاری نہیں تھی۔ کسی رات کا سکوت اتنا گہرا نہیں تھا۔ آج تو دنیا کی ہر چیز، ہر ذرہ اس خاموشی سے چھو کر ایک سکتے میں بدل گیا تھا جیسے بن چاند کی رات میں سمندر کی ہر موج سکوت آموز ہو جاتی ہے۔ یہ گہرا سکوت دنیا کے نشیب و فراز پر بھی طاری ہو چکا تھا۔
گہری تاریکی کو توڑتی ایک کافوری شمع کی ٹمٹماتی لو اس سکون مطلق کی ہیبت کو ایسے بڑھا رہی تھی کہ ہر شے سہمی ہوئی نظر آتی۔ پرہول کالی رات میں گیدڑ کے سر کا خود پہنے کاہن اعظم ساروخا، تحنیط کے دیوتا انپو، کی طرح کالی سیاہ چادر اوڑھے، ہاتھ میں سانٹا لیے بھاری قدموں سے حنوط گاہ میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ دیے کی ملجگی روشنی میں سنولائے ہوئے پتھر کی طرح لگ رہا تھا۔
وہ یہ کام کرتے بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس کا کام دیوتاؤں کے سامنے پیش ہونے کے لیے لوگوں کے جسم کو تیار کرنا تھا۔ سینکڑوں لوگوں کو اس نے زندگی بعد از موت کے لیے تیار کیا تھا۔ آج اس کے سامنے جو پاک و صاف جسم حنوط کے لیے تیار پڑا تھا کسی عام انسان کا نہیں اس کی اپنی منہ بولی ماں سلیخا، کا تھا۔ اس لاش کو ایبو کیمپ، میں کھجور کی خوشبودار شراب اور نیل کے پانی میں غسل دے کر میز پر لٹایا گیا تھا۔
ماں کو دیکھ کر کچھ دیر اس پر سکتہ طاری رہا۔ اس کی سانسیں تھم گئیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ دائم حسین و جوان فطرت کی دیوی اور کائنات کی ماں مت، کی طرح ابھی طلوع کی شہابی نیرنگیوں میں مچلتی کف بحر سے نہا کر نکلی ہے۔ وہ اپنی جبلت کے مطابق اس ہستی کی تلاش میں ہے جسے گود میں سمیٹ کر اپنے کلیجے کی حرارت سے سینچ سکے۔
ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ ماں اٹھ کر بیٹھ جائے گی اور اسے گلے سے لگا کر پیار کرے گی۔
آج بھی اس کے چہرے پر وہی ممتا کی عظمت جھلک رہی تھی۔ وہ حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اپنی ماں کو موت کے اندھیروں کے حوالے کر دے۔ صبح سے وہ دیوی کے سامنے سرنگوں دعا گو تھا۔
"اے نیفتھیس، اے اندھیروں کی ماں، اے موت کی دیوی، تو جو روحوں کی محافظ ہے، تو جو زمین کی کوکھ میں پلی اور آسمان کی گود میں پروان چڑھی ہے، اس زنجیر گراں خوابی کو توڑ دے، میری ماں مجھے واپس دے دے۔ "
خداؤں کی سب سے ناروا بات یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی نہیں کرتے۔ جس طرح وہ خود مدامی و لافانی ہوتے ہیں، ان کے کٹھور فیصلوں کو بھی مداومت کا درجہ حاصل ہے۔
انسانیت ٹرپتی رہے وہ سنگ دل، پتھر جسم کے مالک موم نہیں ہوتے۔
اس نے اپنی حقیقی ماں نہیں دیکھی تھی۔ باپ بادشاہوں کی وادی میں فرعون کا مقبرہ تیار کرنے کے لیے دریا کے پار رہتا تھا۔ کبھی کبھار چھٹی مل جاتی تو ملنے چلا آتا۔ سلیخا اس کے لیے سب کچھ تھی۔ بہنوں کی ساتھ اس کی گاڑھی چھنتی تھی لیکن سارا دن وہ اس کے گھر میں ہی کھیلتا رہتا۔ وہی اسے کھلاتی پلاتی۔ کھیلتے کھیلتے کبھی چوٹ لگ جاتی تو وہ اسے اٹھا کر اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیتی۔ ماں کا دل اس کے کانوں میں ایسی خوفناک آواز سے دھڑکتا جیسے نیل کی النداھیہ اپسرا اونچی آواز میں شور مچا رہی ہو۔ تیز دھڑکن سن کر سروخا اپنی تکلیف بھول جاتا۔ وہ خاموش ہو جاتا تو النداھیہ کی آواز بھی دھیرے دھیرے نرم اور دھیمی پڑ جاتی۔ دل اس کے کانوں میں ٹھہر کر خاموش ہو جاتا وہ مدہوش ہو کر سب دردیں بھول جاتا۔
ماں کسی اپسرا کی طرح کشیدہ قامت لچیلے انداز کی عورت تھی۔ اسی کی گود میں سروخا نے دیوتاؤں کہ کہانیاں سنیں۔ ان کی خوفناک وارداتیں پڑھیں لیکن اس کا دل ماں کے پیار کی وجہ سے مضبوط ہوتا گیا۔ اتنا مضبوط کہ کسی فرعون یا خدا کی ہیبت اسے ڈراتی نہیں تھی۔ شاہی خاندان کے تمام افراد کو اس نے ہی حنوط کیا تھا، اس فرعون کو بھی، جو دیوتاؤں کی اولاد تھا۔ جس کی رخصتی پر اراکین مملکت خوفزدہ ہو کر زمین بوس ہو گئے تھے، کاخ امرا کانپ اٹھے تھے وہ جس نے آسمانوں میں پہنچ کر سورج کی طشتری کے ساتھ ملاپ کرنا تھا، اس کا پیٹ چاک کرتے وقت بھی دہشت اس کی قریب نہیں پھٹکی تھی۔
لیکن آج کی رات اس کے لیے انتہائی مشکل اور تکلیف دہ تھی۔
رات گہری ہوئی تو گرم ہوا بھی ٹھنڈی ہوگئی بالکل اس کے جسم کی طرح۔ نیل سے آنے والی اس ٹھنڈی ہوا میں نرسلوں اور کنول کے پھولوں کی خوشگوار مہک شامل تھی۔ سروخا نے اپنے بال صاف کرکے نہا لیا تھا۔ پاک صاف ہو کر خود کو ذہنی طور پر تیار بھی کر لیا۔ ماں اب مردہ حالت میں اس کے سامنے پڑی تھی۔ انسان کو فانی ہونے کا نام دیوتاؤں نے اپنے سینے کی جلن کم کرنے کے لیے دیا ہے اصل بات یہ ہے کہ وہ بہائم کی طرح اپنی طبعی عمر پوری کرکے فنا ہونے کے لیے نہیں بنا وہ بھیس بدل کر ایک جنم سے دوسرے جنم میں منتقل ہوتا ہے۔ تناسخ اسے بھی لافانی بنا دیتا ہے۔ یہ سروخا کی مذہبی ذمہ داری تھی اور یہی اس کے پیار کا اظہار بھی کہ عارضی دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے والی زندگی کی طرف ماں کا سفر اچھا اور پر سکون بنا دے۔
ماں آج بھی اتنی ہی وجیہ تھی۔ وہ بال جن کی سیاہی افریقہ کی کالی گھٹاؤں کو شرماتی تھی گرچہ سفید ہو چکے تھے لیکن ان میں اب بھی نیل کے دریائی کنول کی مہک لہرا رہی تھی۔ ماں کے ہونٹ جن سے وہ اسے پکارتی تو خرطوم کے سرخ گلاب کی کرنیں پھوٹنا شروع ہو جاتیں، ٹھنڈے پڑ چکے تھے لیکن ان کی سفیدی سے ابھرتا نور سروخا کی آنکھوں کو روشنی بخش رہا تھا۔ کافوری شمع کی روشنی اس کے جھریوں بھرے پرسکون نورانی چہرے کو اور زیادہ منور کر رہی تھی۔ وہ اس جسم بیجاں کو، اس حسن خوابیدہ کو حسن ذی حیات سے زیادہ دلکش بنا دینا چاہتا تھا۔ ہزاروں سال گزرنے کے بعد اس کے چہرے کی شگفتگی ایسے برقرار رہنا چاہیے تھی جیسے وہ ابھی ابھی سوئی ہے۔
ساتھ کی میز پر پڑے تیز دھار نشتر، لوہے کی میخیں، چاقو اور دوسرے اوزار غول بیابانی کی طرح چمک رہے تھے۔
وہ بوتلیں بھی تھیں جن میں دیودار کی لکڑی کا تیل اور شراب تھی۔ اس کی سامگری میں صحرائی نمک کے ڈبے، کپڑے کی پٹیاں، مر کی خوشبو اور دوسرے عرقیات بھی موجود تھے۔ انسانی اعضا کو محفوظ کرنے کے لیے پتھر کے مختلف سائز کے مرتبان دوسری طرف قطار میں پڑے ہوئے تھے۔ ان مرتبانوں کے ڈھکن دیوتاؤں کے پرتو کی ضوفشانی سے دمک رہے تھے۔ گرچہ یہ سب ادویات و آلات اس کے استعمال میں رہتے تھے لیکن آج یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے تمام اوزار پہلی بار دیکھ رہا ہو۔
دکھی دل کے ساتھ اس نے ایک گہری سانس لی اور میز سے ایک تیز دھار چاقو اٹھا کر بائیں طرف سے پیٹ چاک کر دیا۔ اندر ہاتھ ڈال کر انتریاں، معدہ، جگر، پھیپھڑے سب باہر نکال کر نمک ملے نیل کے پانی سے دھوئے اور انہیں نمک اور تیل میں دبا دیا۔ خون اور ان اعضا کا پانی میز سے نیچے بہنے لگا تو ایک مرتبان نیچے رکھ کر اس میں جمع کرنا شروع کر دیا۔ ان میں نمک ملا کر انہیں بھی محفوظ کر لیا۔
سب سے پہلے دماغ کو ناک کے راستے باہر نکالنا تھا لیکن وہ بوڑھا ہو چکا تھا اور اس کے ہاتھوں میں کچھ لرزش پیدا ہوگئی تھی۔ ماں کے چہرے کی طرف دیکھ کر وہ مزید کانپنا شروع ہو گئے۔ اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی کہ وہ یہ کام کرے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ تھوڑی سی بھی غلطی ہو اور ماں کی خوبصورت ناک کو نقصان پہنچ جائے۔ یہ سوچ کر ہی اس کا دل کانپنا شروع ہوگیا تھا۔
ساروخا نے ماں کے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر دل کو تھام لیا۔ دل کو جسم کے اندر سے نکالا نہیں جاتا کیونکہ یہ جذبات اور عقل و شعور کا مرکز گردانا جاتا تھا اور یہ صفات آخرت کی زندگی میں کام آتی ہیں۔ وہ ماں کا دل حنوط کرنے سے پہلے اچھی طرح دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے وہ دن یاد تھے جب سروخا کی تکلیف دیکھ کر اس دل کی دھڑکن زور زور سے بجتی تھی اور اسے گود میں لے کر وہی دھڑکن خاموش ہو جاتی۔ آج اس کے ہاتھوں میں وہی دل اتنا خاموش تھا جیسے سروخا اس کی گود میں چپ ہو جاتا تھا۔
اس نے احتیاط سے دل کو حنوط کرنے والی خوشبویات اور نمکیات لگے کپڑے میں لپیٹ دیا۔ سینے کی خالی جھولی کو کھجور کی شراب سے دھویا۔ مر، دوسرے خوشبودار مصالحہ جات اور عرقیات سے اسے بھرا اور ماں کا پرسکون دل اس کے اصلی مالک کو سونپ کر پرسکون ہوگیا۔
پیٹ کے زخم کو انتہائی نفاست سے سی کر بند کیا۔ ماں کے دل کے ساتھ عقل و خرد، جذبات اور یادداشتیں بھی دفن ہوگئیں، اس کی اپنی یادداشتیں بھی۔ اب وہ مطمئن تھا کہ ماں کا دل اس وقت سے زیادہ پرسکون ہے جب وہ اسے اپنے سینے سے لگا کر پیار کیا کرتی تھی۔ آج وہ دل ایسے خاموش تھا جیسے بن چاند کی رات میں سمندر کی ہر موج خاموش ہو جاتی ہے۔ ساکت و صامت اور مطمئن۔
سارے جسم کو نمک میں دبا دیا۔ ماں کل ملا کر تقریباً ستر دن اس کی مہمان رہے گی۔ جس کے بعد وہ دوبارہ دریائے نیل کے متبرک پانی سے غسل دے کر اسے خوشبودار تیل کی مالش کرے گا جس سے جسم ہمیشہ ہمیشہ نرم رہے گا۔ موم لگی کپڑے کی پٹیوں میں لپیٹ کر ممی کی شکل میں محفوظ کرکے لکڑی کے تابوت میں بند کر دے گا۔
پھر صدیاں بیت جائیں گیں۔ وقت ایک نئی کروٹ لے گا۔ وقت جو دیوتاؤں کی رحمت اور برکت ہے، جو گزر بھی جاتا ہے اور ان کی طرح ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا بھی ہے۔ خداؤں کے نور کی طرح جاری و ساری ہے۔ نئے ڈھنگ اور نئے اطوار کے اس دور میں، آسمانوں کے اس پار، نیل کے دہانے کے گھنے نرسل اور خوشبودار ناگرموتھا کے تاحد نظر پھیلے ٹھنڈے کھیتوں جیسی جنت میں، جگنووں کی روشنی سے دمکتے مہندی کے پودوں سے، مہکتی چمکتی بہشت میں جب روح اور جسم کا دوبارہ ملاپ ہو تو تناسخ کے دیوتا بھی اپنی تخلیق کا نیا جنم دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔
یہ سوچ کر سروخا کی بے قراری کو قرار آ گیا۔