اب سفید بالوں نے کنپٹیوں پر ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ برف کے ان گالوں نے چہرے پر چھائے سال ہا سال کے آلام کو ٹھنڈا ٹھار کر دیا۔ موسم خضاب شروع ہوچکا تھا لیکن مریم جیسی عورتوں کی زندگی میں کبھی کوئی رنگ نہیں چڑھتا۔
جوانی کا ذائقہ چکھا ہی تھا کہ اس کے ارمان سڑک پر کار کے اندر ہی کچلے گئے اور وہ سفید چادر اوڑھے کوکھ میں چار ماہ کا حمل لئے ماں کے گھر واپس آگئی تھی۔ ربع صدی گزر چکی لیکن وہ کچھ بھی بھول نہ پائی تھی۔ بڑی بھابھی نے اس کی ماں کو راضی کرلیا تھا کہ یہ حمل گرا دینا چاہیے کیونکہ بچے والی بیوہ کو کوئی بیاہنے نہیں آئے گا۔
اس کی زندگی مفادات اور جھوٹی انائیت کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔ خاندان میں کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔ سسرال والے قریبی رشتہ دارتھے۔ وہ کہتے تھے، "اب مریم ہماری بھی عزت ہے، ہماری مرضی کے بغیر بیاہی نہیں جا سکتی"۔ قدیم زمانے کے وحشی انسان کی طرح وہ اس پر اپنی مہر لگا چکے تھے۔
پھولوں کا موسم آتا تھا۔ پھل لگتے، پک کر بیج بن جاتے۔ بیج پودے اور پودے پھر پیڑ بن کر پھول دینا شروع کر دیتے لیکن اس کے دل کے آنگن میں کبھی بہار نہ آئی۔ وہ انہیں پودوں میں الجھی رہتی۔ حویلی کے پائیں باغ کو اس نے اپنی زندگی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ بہت سی مرغیاں، مختلف قسم کی بطخیں، طوطے، مینا، راج ہنس، مور، فاختائیں، خرگوش، بکریاں، بلیاں اور دوسرے جانور پال لئے۔ بگلے، کستوری، کئی طرح کی بلبلیں، ہد ہد، ابابیلیں اور دیگر اقسام کی چڑیاں خود بخود کھنچی چلی آتیں۔
نرم و نازک سے ہاتھوں کا گھونگا اپنے منہ پر رکھ کر جب وہ کک کک کی آوازیں نکالتی تو اونچے بوڑھے درختوں کی کھوہ میں چھپی خوراک ڈھونڈتے ہد ہد بھی اپنا کام بھول جاتے اور اس کے ساتھ آواز ملا کر گانا شرع کر دیتے۔ پھر باقی پرندے بھی اپنی صدا ان میں شامل کر لیتے۔ یہ آوازیں فضا میں تحلیل ہو کر پورے ماحول کو سحر زدہ کر دیتیں۔
اس کی زندگی کی کتاب کے پنوں پر صرف یہی خوشیاں لکھی ہوئی تھیں۔ پورے چاند کی روشنی جب پیپل کے چکنے پتّوں پر راس رچاتی تو وہ ساری ساری رات برآمدے میں بیٹھی پرندوں کے چہکنے کا انتظار کرتی رہتی۔ دن بھر وہ ان کے ساتھ دل بہلاتی رہتی اور جب سورج ڈھلتے ہی ٹہنیوں پر بالغ اور نابالغ پرندے رین بسیرا کرتے تو وہ پھر ایک اور رات جاگ کر گزارنے کو تیار ہو چکی ہوتی تھی۔
ہر روز چاند سے لے کر سورج تک کا سفر یوں ہی روکھا پھیکا گزرتا جا رہا تھا۔ اپنوں کی بے مروتی اور پرایوں کا نفور اس کی قسمت میں لکھا جا چکا تھا اور کوئی تھا نہیں جس سے وہ اپنے دل کی باتیں کرتی بس پودے، جانور اور خاندان کے بچے اس کے ساتھی تھے۔ لیکن بچے بھی ایک خاص عمر تک۔ وہ بیوہ کیا ہوئی لوگوں نے تو اسے اچھوت سمجھ لیا تھا۔ اس کی ہر حرکت اور کام میں کیڑے ڈھونڈے جاتے۔ اگر جانوروں سے پیار کرتی تو کانا پھوسی شروع ہو جاتی کہ ان کو جفتی کرتے ہوئے دیکھ کر جنسی حظ اٹھاتی ہے۔
ایک مرتبہ بلند فشار خون کی وجہ سے اس کی نکسیر پھوٹ پڑی تو عورتوں نے کہنا شروع کر دیا، "گرمی چڑھی ہوئی ہے"۔ اس کا اپنے بھتیجے سے بہت پیار تھا۔ پیدا ہوتے ہی اس نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ وہ بھی اکثر اسکے ساتھ ہی سوتا تھا۔ جب دس گیارہ سال کا ہوا تو مریم نے بھابھی کو بھائی کے ساتھ لڑتے ہوئے سن لیا کہ اب بیٹے کو وہ علیحدہ کمرے میں سلائے گی۔ بھائی نے پوچھا کہ کیوں؟ تو وہ کہنے لگی، "تمہیں پتا نہیں اب ہمارا بیٹا جوان ہو رہا ہے۔ وہ تمہاری اس بہن کے ساتھ نہیں سو سکتا"۔ ایسی باتیں سن کر اس پر کیا بیتتی، کوئی سوچتا ہی نہیں تھا۔ خدا کو چاہیے کہ جوان بیواؤں کے اجسام سے دل نکال دے۔ وہ اپنی یہ عطا اجرام کو بخش دے تو زیادہ بہترہے کیونکہ ان بے جان چاند سورج ستاروں میں جا کرشاید وہ دھڑکنا بھول جائے۔
زندگی جیسے تیسے گزر رہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو چھپا چھپا کر رکھتی تھی۔
بھابھی کا ایک بھائی امریکہ میں رہتا تھا۔ وہاں کسی امریکی لڑکی کے دامن سے ایسا وابستہ ہوا تھا کہ مڑ کر اپنے لوگوں کا منہ نہ دیکھا۔ اس کے دو بچے تھے۔ لڑکی تیرہ چودہ سال کی اور لڑکا دس سال کا۔ اب ان کی ماں سب کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ عمیر اب پاکستان میں شادی کرنا چاہتا تھا۔ بیٹے کو وہ ساتھ لایا تھا۔ وہ ایسی پختہ عمر کی خاتون تلاش کر رہا تھا جو اس کے خاندان کو سینت سنبھال کر رکھ سکے۔
عمیر بہت ہینڈسم، خوش گفتار اور باذوق انسان تھا۔ بھابھی نے مریم سے بات کی۔ اس کے لئے یہ حیران کن اور خوفزدہ کر دینے والی بات تھی۔ اس نے تو عرصہ ہوا شادی کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ شادی تو اس کے لئے ایک ہولناک خواب تھی۔ بیاہ کا خیال بدترین خوف کی طرح اس کے لاشعور میں تہہ در تہہ براجمان تھا۔ اس کی ہر حرکت کو ہمیشہ جنسی خواہش کے ساتھ جوڑ کر اس پر طعنہ زنی کی جاتی رہی تھی۔ اب وہ اپنے آپ کو کیسے راضی کرلیتی۔
لیکن رشتہ داروں کی طعن و تشنیع کے سیاہ عفریت اس کو ڈرا رہے تھے۔ اندیشوں کے باسک ناگ اس کے چاروں طرف پھنکار رہے تھے۔ وہ شش و پنج میں مبتلا تھی۔ انکار کی صورت میں باقی زندگی پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہونی تھی۔ ان حالات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے۔ اس نے بھائی اور بھابھی کے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
خاندان میں ایک جشن کا ساماں بندھ گیا۔ بھائی صاحب اور بھابھی جان بے حد خوش نظر آتے تھے۔ بھائی اس کے لئے کچھ خاص کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ شاید احساس جرم، بیگم کا دباؤ یا واقعی ہی دلی آسودگی؟
اگلے دو ہفتے کام ہی کام تھا۔
گھرکی مرمت، رنگ و روغن، زیورات اور کپڑے۔ مصروفیات ہی مصروفیات۔
پھر شادی کے دن آگئے۔ چار دن کا مسلسل ہنگامہ۔ ٹینٹ، قناتیں، مہمان، کھانے، ڈھولک کی تال پر بے سُرے گیت جن کا کوئی سر تھا نہ پیر۔ اس کو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ سارے ہنگامے، ساری چہل پہل، ساری دھوم دھام اس کے لئے بے معنی تھی۔
شادی کی رات بہت لمبی اور بھاری تھی۔ سر شام ہی مہمان آنا شروع ہو گئے۔ دیر تک سردی میں پنڈال میں بیٹھے رہے۔ رات ایک بجے تک رسمیں چلتی رہیں۔ کمرے میں آتے آتے بہت دیر ہوگئی۔ وہ دلہن بنی سرخ گلابوں کی سیج پر سمٹی سمٹائی بیٹھی تھی۔ عمیر تھکن سے چور بدن کو گھسیٹتا ہوا اس کے پاس آکر ڈھیر ہوگیا۔ اس نے اپنا سر مریم کی گود میں رکھ لیا اور کہنے لگا، "میں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میری بیٹی اس کے خلاف تھی۔ اسی لئے وہ میرے ساتھ نہیں آئی۔ اسے اپنی ماں سے سخت نفرت ہے۔ آج بھی اس کے مسلسل فون آ رہے ہیں"۔ فون ملا کربولا، "تم بھی اس سے بات کر لو۔ اس کے دل میں اپنے لئے محبت پیدا کرنا اب تمہارا کام ہے"۔ لیکن جب اس نے فون پکڑا تو وہ بند ہو چکا تھا۔ پھر بار بار ملانے کے باوجود وہ لائن پر نہ آئی۔
پانچ منٹ بعدوہ اس کی گود میں سر رکھے سو رہا تھا۔
اگلے دن بھی ایسے ہی تھے۔ عمیر زیادہ وقت بیٹے کے ساتھ گزارتا۔ رات دیر گئے بیوی کے پاس آتا۔ وہ سوچتا تھا کہ مشرقی عورتیں جنسی تعلقات میں دیر آشنا ہوتی ہیں اور ادھیڑ عمر میں تو عادات مزید پختہ ہو جاتی ہیں۔ عمیر اس کے ساتھ باتیں کرتا رہتا۔ وہ حرف مدعا بیان کرنے کی کوشش کرتا لیکن مریم کی رغبت حاصل نہ کرپاتا۔ وہ اس کا سر دباتی، مالش کرتی، مخروطی انگلیوں سے کنگھی کرکے جب وہ اس کے بالوں کے خم نکالتی تو اس کے ساتھ ہی عمیر کی رگ رگ سے کھنچ کر دم بھی نکل جاتا۔ عمیرکے ہاتھوں کی حرارت سے برفاب جسم بھی پگھل جاتے تھے لیکن مریم نہ جانے کس پتھر کی بنی ہوئی تھی کہ مجال ہے اس کے جسم میں کوئی تحریک پیدا ہوتی۔ وہ نربل نراس ہو کر سو جاتا۔
صبح اٹھ کر عمیر دیکھتا تو بستر کی چادر پر دوسری طرف کوئی سلوٹ بھی نہ پڑی ہوتی۔ وہ حیران تھا کہ اس کے بارے میں سنی ہوئی باتیں کیا ہوئیں؟ عمیر امریکی معاشرہ کا پروردہ تھا۔ اس کے دل میں انجانے خیالات منڈلانا شروع ہو گئے۔
پھر ایک رات عمیر کروٹ بدل کر سونے کا بہانا کرتا رہا۔ کافی دیر وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ہلکا ہلکا گنگنا بھی رہی تھی۔ آدھی رات کے بعد وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد عمیر بھی اٹھ گیا اور اس کو تلاش کرتے ہوئے پائیں باغ میں چلا گیا۔ وہ پودوں کے نیچے پڑے پرندوں اور جانوروں کے پنجروں کے درمیان گھوم رہی تھی۔ پھر وہ گنگناتی ہوئی حویلی کی طرف چل پڑی۔ واپس آ کر وہ اس کے بیٹے کے کمرے میں چلی گئی۔ کھڑکی کھلی تھی۔ اس نے پردے کو آہستہ سے ایک طرف ہٹا کر دیکھا تو مریم اس کے سوئے ہوئے بیٹے کو سینے سے لگائے مخروطی انگلیوں سے اس کے سر میں مساج کررہی تھی اور وہ ننھا منا گل گوتھنا سا بنا، مریم کی گرم آغوش میں سمٹا، نرم ہاتھوں کی تھپکیوں اور خواب آگیں لوری کے کیف میں مست نیند کے ہلکورے لے رہا تھا۔
اس کی دھیمی، مدھ بھری، دلنشین نغمگی میں لپٹی لوری پکار پکارکر بتا رہی تھی کہ پودوں، جانوروں، پرندوں، بچوں اور انسانوں، سب کے ساتھ اس کاصرف ایک ہی ناتا تھا۔
بے غرض مقدس ناتا۔
مقدس ماں مریم جیسا۔