ہر چرچ، ہر میوزیم میں موجود مجسموں اور اکثر کرسچن گھروں میں موجود مصوری کے شاہکاروں میں خدا کا بیٹا کہہ لیں یا پرتوِ خدا، مقدس ماں کی گود میں لپٹا لپٹایا نظر آتا ہے۔ پرتگال کے اس میوزیم میں زیر نمائش یہ ایک ایسا مجسمہ ہے جس میں وہ پالن ہار دودھ پیتا نظر آ تا ہے۔ ماں اور بیٹے کا یہ مجسمہ تمام مذہبی استعارات کی طرح وہمی مورت سجھائی دیتا تھا جنہیں چھوا نہیں جا سکتا، وہ مجسمے جنہیں صرف پوجنے کے لیے خلق کیا جاتا ہے۔
ایسی مورتیں عشال نے مصر کے میوزیم میں پیدائش اور زرخیزی کی دیوی ایسس اور اس کے بیٹے ہورس دیوتا کی بھی دیکھی تھیں۔
وہ اس کے سامنے بیٹھی سوچ رہی تھی کہ پالن ہار کو بھی پالنا پڑتا ہے؟ جو اعجاز مسیحائی ہے اسے بھی ایک مسیحا کی ضرورت ہوتی ہے؟ اگر خدا کے بیٹے کو سہارے کی ضرورت ہے تو ایک ناتواں عورت کا بیٹا جو انتہائی کمزور ہوگا وہ اسے کیسے پالے گی؟
ابھی خود اس کے پاؤں کسی جگہ نہیں ٹکے، بچے کو زمین پر پاؤں جمانے میں کیسے مدد کر سکے گی؟ دن رات کی ڈیوٹی سے زیر تربیت ڈاکٹر کو کچھ فرصت ملتی ہے تو پٖڑھائی کا بوجھ سر پر سوار رہتا ہے۔
کیا بچہ ہی عورت کا مستقبل ہے؟ کیا بچہ پیدا کرنے کے لیے ایک بڑا ڈاکٹر بننے کا سپنا قربان کیا جا سکتا ہے؟ کیا بچہ اس کے لئے ایک مسئلہ نہیں ہوگا؟
جدید دنیا نے بہت سے نئے خیالات کو جنم دیا ہے۔ دکھ درد کو دور کرنے کے بہت سے علاج دریافت کر لیے ہیں جو انسان کی مشکلات کو کم کرکے ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ انسانی مصائب کا سب سے بڑا علاج دولت ہے۔ اگر کوئی بندہ علم و ہنر سیکھ لے تو دولت کمانا آسان ہو جاتا ہے۔ لوگ اسی لیے اپنی ابتدائی زندگی علم و ہنر سیکھنے کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور پھر اس سے دولت کما کر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیتے ہیں۔ دولت نے بہت سی نئی سہولیات اور آسائش سے انسان کو آشنا کروایا ہے۔ رنگ و نور سے بھری اس دنیا کو مزید جاذب نظر بنا دیا ہے، حسن کو ایک نیا روپ دیا ہے۔
دولت مند لوگ سرشام بن سنور کر کلب، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کا رخ کرتے ہیں۔ کھیلوں کے میدانوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔ تفریح گاہوں اور سیر گاہوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ کلب، ہوٹلز، کھیل کے میدان یہ سب مسائل کی علاج گاہیں ہیں۔ یہاں پر تنہائی، پریشانی اور دکھوں کا مداوا ہوتا ہے۔
دولت حسن کا سنگھار ہے۔ دولت سے یاد موافق ملتی ہے، چاہت کا مزا آتا ہے اور عشق سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس سارے کھیل میں انسان نئے مسائل میں الجھنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ اکیلا اور بہت چاہے تو ایک حسین کا ساتھ۔
بچہ علم، دولت اور آسائش کے راستے کی رکاوٹ ہے۔
اس کے پاس بچہ پیدا کرنے اور پالنے کا کوئی وقت نہیں تھا۔ اسے اپنے فیصلے پر فخر تھا کہ ان حالات میں بچہ پیدا نہیں کرے گی بلکہ اس کا تو خیال تھا کہ اس جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے کوئی سات آٹھ سال کا بچہ گود لے لے۔ یہ بات وہ کسی کو بتانا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے بچوں سے دور رہتی۔ کسی سے ان کے متعلق بات نہ کرتی۔ کوئی اپنے بچوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا تو سنی ان سنی کر دیتی۔
وہ مقدس ماں کے مجسمے کے پاس کھڑی سوچ رہی تھی کہ اسی وقت ایک آدمی مجسمے کے گرد گھومتا ہوا اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ وہ اسے پہلے بھی کئی بار دیکھ چکی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ مجسمے کو دیکھنے کے بہانے اس کی کمر اور پشت کو دیکھ رہا تھا۔ جب عشال نے ٹیڑھی نظروں سے اسے دیکھا تو اس نے اپنا نچلا ہونٹ چباتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔ اب وہ عشال کے پاؤں اور پنڈلیوں کو تاڑ رہا تھا۔
وہ بڑی جری، پر اعتماد و بے باک عورت تھی۔ اس کی جامہ زیبیاں، خوش ادائیاں مرد کی نگاہ التفات کو گھیر کر اپنی طرف لے آتیں۔ اسے دیکھ کر بندے بہک جاتے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ جوانوں کے خیال و خواب میں بسی حسین مورت کا مجسم ظہور ہے۔
مرد نے شاید اس کے چہرے کو پڑھ لیا تھا۔ سامنے آ کر اسے سلام کیا۔
اس سلام میں دندان آبدار کی جھلک شامل تھی۔ سلام کے بعد گرچہ اس نے پھر نظریں جھکا لیں لیکن عشال کو محسوس ہوا کہ اس کی ستائش بھری نظریں ابھی تک فربہ کولہوں اور گول ٹانگوں کا طواف کر رہی تھیں۔
عشال کو اس پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ مرد حضرات ہمیشہ جسم کے ان اعضا کو ہی کیوں تکتے ہیں جن میں زنانہ حسن پایا جاتا ہے۔
وہ مجسمے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا، "مقدس ماں اور بیٹے کا یہ مجسمہ سب سے انوکھا ہے"۔
"جی! "
"عورت ہر شکل میں ممتا روپی ہوتی ہے اور دودھ پلاتی عورت تو تقدیس اور پاکیزگی کا استعارہ ہے"۔
عشال نے مجسمے کی طرف دیکھا۔ نومولود مسیح پرسکون تھا۔ ماں کے دودھ کی دھاریں اس کی بھوک مٹا رہی تھیں۔ جب بھی وہ اپنے وارڈ میں کسی بچے کو ماں کا سینہ چچوڑتے دیکھتی تھی تو اس کے کنوارے سینے میں ہلچل مچ جاتی۔ کنواری ماں اور مسیح کو دیکھ کر اس کی وہی حالت ہوگئی۔ گھبراہٹ بڑھی تو وہ سینے کو چھو کر دیکھنے پر مجبور ہوگئی کہ تمناؤں سے لبریز بول لبنیوں سے کہیں عرق ابیض بہہ تو نہیں نکلا۔
وہ شرمندہ ہو کر مرد کو دیکھنے لگی۔ اس کے الفاظ بہت بھلے تھے لیکن نظریں اب بھی عشال کے جسم کا طواف کر رہی تھیں۔ گر چہ ان میں اوچھا پن نہیں تھا۔
پہلی بار عشال نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کا متناسب الاعضا اور مضبوط جسم جوانی کی رنگینیوں سے معمور پیکر نور لگ رہا تھا۔ اس کی نظریں چاروں طرف گھوم رہی تھیں جب بھی وہ اس کی طرف دیکھتا تو یوں محسوس ہوتا کہ ان آوارہ نظروں کو کچھ قرار ٓگیا ہے۔ وہ آنکھیں اٹھا کر دیکھتی تو نظریں جھکا لیتا۔
"تم اس مجسمے کو بہت غور سے دیکھ رہی ہو؟"
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کنواری ماں کا تبسم، اس کے چہرے کے گرد زرتار روشنی کا ہالہ اور بچے کا ماں سے لپٹنا دیکھ کر ممتا کی انجانی سی کیل اس کی کلیجے میں چبھ گئی تھی۔
"مقدس مریم اور مسیح کو دیکھ کر تم حیران ہو رہی ہو"۔
وہ پھر خاموش بیٹھی رہی۔
"معذرت خواہ ہوں! جب تم اسے دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہو تو اس کی طرف کیوں دیکھتی ہو؟"
عشال نے نظریں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا، "کیا ہم ایک دوسرے کا جانتے ہیں؟"
سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے نیا سوال کر دیا۔
"کیا ہم ایک دوسرے سے سوال ہی کرتے رہیں گے؟"
بہت چالاک آدمی تھا۔ کہنے لگا، "تمہیں پریشان دیکھا تو سوچا شاید میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں"۔
عشال کو اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن وہ کمبل بن رہا تھا۔
"تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں پریشان ہوں؟"
وہ کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔
"تمہیں اچھا نہیں لگا تو میں چلا جاتا ہوں"۔
عشال نے اس کی طرف غور سے دیکھا اس کی بدن بولی زبان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ جو کہہ رہا تھا اس پر عمل کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔
عشال کو خاموش پا کر اس نے بات بدلی۔
"یوں لگتا ہے جیسے یہ بچہ اسی پتھر کی ماں نے جنم دیا ہے"۔
وہ واپس مڑا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے پھر کہنے لگا۔
"تم بھی پتھر کی بنی ہوئی لگتی ہو۔ کیا تمہیں ماں اور بیٹے کو دیکھ کر کچھ محسوس ہوتا ہے؟"
عشال اس کو گھورنے لگی۔ وہ شرمندہ ہونے کی بجائے مسکرائے جا رہا تھا۔ اس کی شرارت بھری آنکھوں میں چلبلا پن ناچ رہا تھا۔ کلین شیو ہونٹوں اور گالوں پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں تو اس نے اپنے چہرے کو ہاتھ سے پونچھنا شروع کر دیا۔ آفٹر شیو لوشن کی مہک عشال کے نتھنوں میں گھس گئی۔ پہلی بار عشال نے اسے غور سے دیکھا۔
اس کا کھلتا ہوا کندنی رنگ ہال کی تیز روشنی میں سرخ بھبوکا دکھائی دے رہا تھا۔ سرخ و شاداب ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ سجی تھی۔ وہ تاڑ کے پیڑ کی طرح اس کے سامنے بالکل سیدھا کھڑا تھا۔ اس کے چہرے کو دیکھنے کے لیے گردن اوپر اٹھانی پڑتی تھی۔ کافوری سینے پر پلتے کالے سیاہ بال شرٹ سے باہر اچھل رہے تھے۔ وہ زیبائش و رعنائی کا پیکر مجسم تھا۔
اس نے عشال کو اپنا جائزہ لیتے دیکھا تو نظریں جھکا کر خاموش ہوگیا۔ عشال نے محسوس کیا کہ جھکی نظریں پھر اس کے پیٹ اور کولہوں پر جمی ہوئی تھیں۔
یہ ڈاکٹری بہت عجیب شعبہ ہے۔ لوگ انسان کو اس کی شکل و صورت سے جانتے ہیں اور ڈاکٹرز کی آنکھیں ان کا حلیہ دیکھتے ہی لباس کے اندر جا کر پیٹ و سینے میں داخل ہو کر اندرونی اعضا کو جانچنا شروع کر دیتی ہیں۔
عشال کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس کے بھاری کولہوں کو نہیں بلکہ ان کے اندر جھانک رہا ہے۔ اس کی نظریں پیڑو کے اندر گھس کر رحم اور بیضہ دانیوں کو دیکھ رہی تھیں۔
یہ سوچ کر اس کے پیٹ کے نچلے حصے میں ہلچل مچ گئی۔ ریڑھ کے نچلے حصے میں کنڈلی مار کر بیٹھی ناگن کے دل میں ہنگامہ جذبات پھوٹ پڑتا۔
عشال سوچ رہی تھی کہ جذبات کے رخ پر پڑی نقاب کو الٹ کر اسے اس ناگن کی اصل جھلک دکھا دے جس کے دل میں اک آتشیں خواہش لہو کی طرح دوڑ رہی تھی۔ خواہش جو ہر مہینے بند توڑ کر نکل پڑتی تھی۔
عشال اسے جی بھر کر دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سفید پینٹ اور گلابی شرٹ پہنے سامنے کھڑا تھا۔ اس کی کمر کے گرد چمڑے کی دھاری دار بیلٹ ایک ناگ کی طرح لپٹی ہوئی تھی۔ یہ ناگ پیٹ کے اندر مثانے کے نیچے موجود تھیلیوں میں اچھلتے کودتے جرثوموں کے خزانے کی حفاظت پر معمور تھا۔
عشال انہی خیالات میں الجھی ہوئی تھی کہ اس کے پیڑو کے اندر دونوں طرف یک دم درد شروع ہوگیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو دبا لیا۔ اس کی بیضہ دانیاں پھٹ گئی تھیں۔ وہ ساتھ پڑے بنچ پر بیٹھ کر پیٹ کے اندر ہونے والے ہنگامے کے بارے میں سوچنے لگی۔ چبھن بڑھتی جا رہی تھی۔
خیالات بھی عجیب ہوتے ہیں زبردستی دل میں گھس آتے ہیں تو پھر نکلتے ہی نہیں۔ بعض خیال تو بڑھتے بڑھتے حسرت بن جاتے ہیں اور پھر دعا کا روپ دھار کر روح کو دو زانو کر دیتے ہیں۔
درد کی شدت کم کرنے کے لیے اس نے اپنا سر گھٹنوں میں دبا لیا۔
کافی دیر خاموشی چھائی رہی۔
پھر وہ عشال سے مخاطب ہوا۔
"آؤ میرے ساتھ چلو! کسی ریسٹورنٹ میں کچھ دیر بیٹھتے ہیں"۔
پیڑو میں موجود جلن بڑھ گئی۔
پیڑو کی آنچ، پھر کیا سات پانچ۔
وہ اٹھی، مقدس ماں اور دودھ پیتے مسیح کو دیکھا: اس کا بازو تھام کر چل پڑی۔