پہلے تو میں آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں کی قیمتی زندگیوں کے اس طرح ختم کیے جانے کی شدت سے مذمت کرتا ہوں اور ان بد نصیب بچوں کے بد نصیب والدین سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ یقینا وقت سمیت کوئی بھی دوا یا مرہم اس درد کو کم نہیں کرسکتا۔ اس سے بڑھ کر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ریاست کی طرف سے جو ٹرک کی بتی ان بد نصیب والدین کو یہ کہہ کر دکھائی گئی کہ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کے بچوں نے ملک و قوم کے لیے بہادری و جوانمردی دکھاتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس پر پوری قوم کو آپ پر فخر ہے، کہہ کر اور اس سانحے کو گلوریفائی کرکے اپنی نااہلی چھپائی گئی ہے۔
آج سولہ 16 دسمبر ہے، اس دن کو میں پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہنا چاہتا تھا مگر چونکہ مثبت رہنے کا زمانہ ہے اس لیے میری مجال کہ میں اس دن کو سیاہ دن کہہ سکوں۔ تو میں اس دن کو اس تاریخ کو ایک خاص طور پر ہی دیکھتا ہوں۔ مجھے ان لوگوں سے بھی شدید شکایت ہے جوکہ یہ کہتے اور لکھتے پھرتے ہیں کہ آج پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا اور دوسرا کہ آج APS سکول میں جو معصوم بچے مارے گئے وہ بہت بڑا ظلم ہوا۔ یہ دن انہی دو بڑے واقعات کیلیے شہرت رکھتا ہے۔ دونوں واقعات میں جو کچھ بھی ہم نے پایا یعنی حاصل کیا وہ ذیل میں قارئین کی معلومات کیلیے لکھ رہا ہوں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو جو بھی ہم نے کھویا وہ ہم لکھ نہیں سکتے کیونکہ مثبت رہنے اور مثبت پاکستان اجاگر کرنے کا زمانہ ہے۔ خیر اس دن کی مناسبت سے ہماری achievements ملاحظہ فرمائیے۔ ۔ ۔
پہلا واقعہ
سقوطِ ڈھاکہ 16 دسمبر 1971
ہمارے اشرافیہ، خاکی حکمران اور افسران شاہی ان سب نے اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ پاکستان صرف مغربی پاکستان ہی ہے مشرقی پاکستان یعنی مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) تو پاکستان کے قیام کے وقت زبردستی ہمارے گلے باندھ دیا گیا تھا۔ بنگالی تو اس قابل ہی نہ تھے کہ وہ ہمارے ساتھ رہ سکیں۔ اور پاکستان کی ترقی کی راہ میں مشرقی پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ سمجھاگیا۔ اسی تناظر میں ہی تو ہمارے حکمرانوں نے شروع سے بنگالیوں کو نہ تو پاکستانی مانا نہ ہی انکو انکے جائز حقوق دیے۔ پاکستان کو اپنے مشرقی حصے یعنی مشرقی بنگال سے جان چھڑانے میں کامیابی سولہ دسمبر 1971 کو ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان ترقی کی راہ پر چل نکلا، اپنا آئین بن گیا اور جمہوریت کی طرف گامزن ہوا۔ ہماری اردو زبان بچ گئی، جو بیچاری آج بھی سرکاری ہونے کی امید میں سسک رہی ہے۔ ہمارے ہزاروں فوجیوں کی جان بچ گئی۔ اسلام آباد جیسا خوبصورت دارالحکومت مل گیا ورنہ ڈھاکہ ہمارا دارالخلافہ ہوتا۔ مکتی باہنی کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچے۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو ہمیں مچھلی اور چاول ہی کھا کر گذارا کرنا پڑتا۔ بےچارے کتنے پنجابیوں کو ظالم بنگالیوں نے دن دھاڑے مار ڈالا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو اصل میں پاکستان آزاد ہوا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم نے فورا سے بنگلہ دیش کے قیام کو مان لیا۔
دوسرا واقعہ
سانحہ APS پشاور 16 دسمبر 2014
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں پچھلے دو عشروں سے جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ سانحہ اے پی ایس سے پہلے تک دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے صرف سویلین و ملٹری فورسز ہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دنیا میں ہمارے امن کا پیغام دے رہی تھیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہے۔ اس بدقسمت سانحے کے بعد دنیا میں ہماری طرف سے یہ تاثر بھی گیا کہ ہمارے ننھے ننھے معصوم 150 سے زائد بچے جو شاید لفظ دہشت گردی لکھ بھی نہیں سکتے ہمارا ہراول دستہ ہیں۔ وہ ہمارے محافظ ہیں۔ اس سانحے کے بعد ہم نے ضربِ عضب آپریشن شروع کیا۔ اور ملک بھر سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس کا برملا اظہار کئی دفعہ سرکاری سطح پر کیا گیا۔ ضربِ عضب کی کامیابیوں پر پوری قوم خوش نظر آئی۔ اس دن کی یاد میں تقریبات پاکستانی جہاں جہاں بستے ہیں منائی جاتی ہیں اور دنیا کو یہ تاثر جاتا ہے کہ پاکستانی معصوم بچے سکول بھی پڑھنے جاتے ہیں تو وہاں بھی دہشت گردوں کے بچوں کو پڑھانے کا ارادہ رکھتے ہوئے ان سے بدلہ لینے کو تیار بیٹھے ہیں (مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے، مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے)۔
اپنے قارئین سے معذرت کے ساتھ یہ سب ایک ایسے پہلو کو اجاگر کرنے کیلیے اس انداز سے لکھا جو کہ میرا خاصا نہیں ہے۔ چونکہ میری نظر میں آج کے دن کے حوالے سے بے تحاشا تحریر، مضامین وغیرہ لکھے جاچکے ہیں اور ہمیشہ ہی لکھے جاتے رہیں گے مگر یہ زمانہ مثبت رہنے، مثبت دکھانے کا ہے (جیسا کہ حکم دیا گیا ہے) تو اس دن کو اس سے زیادہ مثبت دکھانے سے راقم قاصر ہے۔ مندرجہ بالا دونوں واقعات میں تاریخی پسِ منظر اور حقائق کیا ہیں میری نظر میں ہیں، ان حقائق کو کس کس کس نے اور کہاں کہاں مسخ کرنے، بدلنے کی کاوش کی ہیں وہ بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اور اس پر میں بہت واضح رائے رکھتا ہوں۔
اپنی تحریر کا اختتام اس دعا کے ساتھ کرونگا کہ مالک اس ملک پر اپنا خصوصی رحم فرما اور اس ملک کے دشمنوں کو خواہ وہ اندر بیٹھے ہیں یا باہر نیست و نابود کردے۔ ایک مرتبہ پھر یہ کہتا چلوں کہ اب تاریخ کے طالب علموں اور خود تاریخ سے معذرت کے ساتھ میں اس سے زیادہ اس دن کو مثبت طور پر اُجاگر نہیں کرسکتا۔
آخر میں فیض صاحب کا کلام موضوع کے اعتبار سے پیش خدمت ہے۔
"دار کہ رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اک روز گاتے رہے
پائلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اس صف میں تھے
راستے میں کھڑے ان کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاؤں میں رقص زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
رسن در گلو پا بجولاں ہمیں
اسی قافلے میں کشاں لے چلا"