میں اٹک سونے کے رپورٹڈ ذخائر کے بلاکس کو دیکھنے اور چند تکنیکی معاملات کیلئے سندھو دریا (دریائے سندھ) کے کنارے پہنچا۔ گولڈ کے حوالے سے پھر چند گذارشات کرونگا۔
میرا وطیرہ رہا ہے کہ تین ہزار کلومیٹر سے بھی لمبے سندھو دریا کو جب بھی کہیں سے بھی کراس کرتا ہوں تو باقاعدہ قدیم روائیتی طریقہ سے ہاتھ جوڑ کر ہرنام (سلام) ضرور کرتا ہوں۔ اس بارے میں میری کئی تحاریر موجود ہیں جو میں سالہا سال سے لکھتا آرہا ہوں۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی جب موٹر وے ایم ون پر رکا اور سندھو کو سلام پیش کیا تو سندھو کے پوتر پانی میں ہلچل سی محسوس ہوئی۔ غور کرنے پر محسوس ہوا کہ سندھو راقم سے پوچھ رہا تھا کہ کون ہو جوان آئے روز ہمیں ہرنام کرتے ہو، جواباً عرض کی "سندھو دھرتی کا باسی ہوں، نام سید ذوہیب بخاری ہے"۔
لہروں میں ہلچل کم ہوئی، باریک سی آواز نے سماعتوں پر دستک دی "ہمم! عربی سادات اور سندھو دے باسی"۔۔
پھر جیسے کہ خاموشی سی ہوگئی میری بے چینی بڑھی، اسی اثناء میں یک دم سندھو دیوتا کی گرجدار آواز نے سماعتوں کو جھنجوڑ ڈالا، "کیوں میرے آگے پیچھے گھومتے رہتے ہو"۔۔
ڈرتے ڈرتے عرض کیا "میں اسی مٹی کا ہوں۔ یہیں پیدا ہوا، یہیں مرنا چاہتا ہوں۔ یہی میری پہچان ہے اسی سے جڑت ہے جس پر ہمیشہ میں نے فخر کیا ہے۔ مجھے یہاں کا باسی کہیئے "خاموشی رہی، وقت جیسے تھم گیا ہو۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ انتظار طویل ہوا تو جسارت کی "آپ کا دیوانہ ہوں، آپ کے درشن کرنے اکثر آتا رہتا ہوں"۔
پھر آواز آئی "آج کس لئے پدھارے"۔
عرض کیا "دیالو ہیں، اربوں انسانوں کو ہزاروں سال سے پال رہے ہیں، اس خطے میں زندگی کی رمق اور نباتات و حیوانات کی موجودگی کے واحد ضامن آپ ہیں۔ نوازتے رہیں ہیں۔ معلوم ہوا کہ آپ کے اندر سونا گولڈ موجود ہے، اس کی تلاش کیلئے آیا ہوں۔ آپ ہمیشہ سے اس پوری انسانی بستی (خطے) کی بقاء کے ضامن رہے ہیں۔ دیوتا ہیں تو سونا دین کرنے میں اتنی دقت اور مشقت کیوں۔ اگل دیجئے"۔
"سہل ہی تو ہے، کچھ سعی تو کرو، یہ تمہارا ہی تو ہے"۔
ایسے لگا سندھو دیوتا مسکرائے ہیں۔ ذرا سے توقف کے بعد پھر آواز آئی۔
"عربی سادات، سنو! تم سے ایک دل کی بات کرتا ہوں۔ کئی عشروں سے میں حالت کرب میں ہوں، اس مٹی کے سپوتوں نے مجھ پر بے انتہاء ظلم کئے۔ میں اب پوِتر نہیں رہا، میرے اندر سے سکون تم لوگوں نے ختم کردیا ہے، یہ خطہ جسے میں صدیوں سے سیراب کرتا آرہا ہوں، اس نے مجھے بدلے میں ناپاک کردیا ہے۔ میں نے اس مٹی کو سیراب کیا تھا اس میں احسان فراموشی کب اور کیوں آگئی، تمہیں کہے دیتا ہوں یہ پانی اب پانی نہیں میرے آنسو ہیں، رت ہے، جو مجھے بالآخر سرسوتی اور ہاکڑہ کی طرح ختم کردے گی۔ یہاں ریت ہی ریت رہ جائیگی۔ کچھ نہیں خواہش سوائے اس کے کہ محبتیں بانٹو، بڑھو اور خوب بڑھو۔ میری بقا تمہارے ایک ہونے میں ہے۔ نفرتیں ختم کرو، انسانیت کو فروغ دو، عصبیت ختم کرو۔۔ "
بات جاری رہی مگر میری سماعتوں میں مزید سننے کی سکت نہ تھی۔ بس غالب کا جملہ دماغ میں گردش کررہا تھا
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے