مرشد غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ
"کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
شہردیکھ کر دشت یاد آیا"
آج چھٹا دن ہے۔ گھر میں خود کو کرونا کے پیش نظر بند کررکھا ہے۔ ان چھ دنوں میں تین کتب پڑھ ڈالیں۔ اپنے بیٹے شازل اور بیٹی امل کے ساتھ خوب وقت گذار رہاہوں۔ میکانکی زندگی میں فیملی کو واجبی سا وقت ہی دے پارہا تھا۔ ان چھ دنوں میں بہت سے پرانے دوستوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ مزید یہ کہ دنیا بھر کے حالات موجودہ تناظر میں جاننے کا موقع زیادہ قریب سے ہورہا ہے۔
آج 26 مارچ ہے، صبح کا وقت ہے۔ آنکھ کھلی اور کمرے کی کھڑکی سے روز کی طرح باہر دیکھا تو بہت خوشگوار احساس ہوا۔ ہلکی ہلکی بارش اور خوبصورت موسم نے طبیعت کے اندر کا بور پن دور کردیا۔ اسی لمحے مجھے چند خیالوں نے آن گھیرا اور میں بالکونی میں ہی بیٹھ گیا ہوں۔
عالمی وباء کرونا نے جس طرح انسانوں پر حملہ کر کے انکو بے بس کیا۔ اس سے انسانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ہماری صدیوں سے جاری معمولات، عبادات سب کچھ چند دنوں میں بدل گیا ہے۔
مذہبی دکانداروں نے اپنی سے کوششیں کرکے دیکھ لیں (کچھ ہٹ دھرم ابھی بھی لگے ہوئے ہیں )۔ کلیسا، مسجد، مندر، گوردوارے، مزارات، مقدس مقدمات سب بند ہوچکے ہیں۔ ایک ہو کا عالم اس وقت پورے عالم میں ہے۔ ویٹیکن سٹی سے لے کر مکہ مدینہ تک، کربلا و نجف سے لے کر یروشلم تک سب منتظر ہیں کسی چمتکار (معجزے) کے۔
"یہ لیں چائے" اپنی نصف بہتر کی آواز سن کر چونک گیا۔ باہر کی طرف نظر ڈالی، بارش تھم چکی ہے، موسم ابھی بھی ابرآلود ہی ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں، چرند پرند حیران ہیں، آسمان نے ایسے نظارے نہ دیکھیں ہونگے۔ سڑکوں پر بے فکری سے گھومتے کتے یقینا حیران ہونگے کہ وہ انسان کہاں گئے جن کی وجہ سے سے یہ کرہ ارض ہم پر تنگ ہوچکا تھا۔ گرم گرم چائے کی چسکی لے کر ایک بار پھر خیالات کی اس دنیا میں کھو گیا۔
دنیا بھر میں گلی گلی محلے محلے میں موجود مذہب کے دکانداروں نے پچھلے ایک ماہ میں اپنی اپنی دکانداری چمکانے کی خوب کوششیں کرڈالیں، گاومتر سے لے کر اونٹ کے پیشاب تک اور اجتماعی عبادات سے لے کر ایمان کی طاقت کے اظہار کیلیے سادہ لوح عوام کو اکسانے تک، اپنی تقاریر میں چھپی اور اعلانیہ تفرقہ بازی تک، ٹوٹکے ٹونے تک، آڈیو اور ویڈیو پیغامات تک اور آن لائن علاج تک الغرض سب کچھ کرکے دیکھ لیا مگر یہ وبا بری طرح پھیل رہی ہے۔ ہم اس وبا کو کبھی حاجی بنا رہے ہیں تو کبھی زوار، کبھی یہودی سازش کہہ رہے ہیں تو کبھی مسیحی سازش۔ مغربی ممالک میں بھی ہم جیسی سوچ رکھنے والے بھی وافر تعداد میں ہیں، اوئے عقل کے اندھو، یہ بہت بے شرم اور بدتمیز وبا ہے۔ یہ نوکر مالک کا فرق نہیں جانتی، یہ مسلمان عیسائی نہیں پہچانتی، یہ رنگ نسل، طاقتور، کمزور، گورا، کالا کچھ نہیں دیکھتی۔ مگر ہمیں کوئی سبق نہیں سیکھنا۔
اب دوسری طرف دیکھئے۔ اس سات ارب کی انسانی دنیا میں انسان دوسو سے زائد ملکوں میں بٹا ہے۔ ان ممالک میں چند سپر پاورز کہلاتے ہیں۔ جنکو اپنی طاقت، ہتھیاروں اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر بہت غرور ہے۔ یہ دنیا میں اپنے آپ کو خدا جیسا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے نام پر اجارہ داری بنا رکھی ہے۔ بلالو اجلاس سلامتی کونسل کا، استعمال کر لو ویٹو پاور۔ طاقت سے اس انتہائی چھوٹے اور انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے وائرس کو شکست نہیں دے سکتے۔ کرہ ارض کی ہر شے تم پر ہنس رہی ہے، تم جو اپنی طاقت ہر اتراتے تھے کہاں گئی، جون نے بہت پہلے کہا تھا
"اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے"
ہاتھ تک ملا نہیں سکتے۔ اتنا بے بس کر ڈالا تمہیں۔
زندگی کے چھن جانے کے خوف نے سب کو ایک سوچ کی طرف لا کھڑا کیا ہے۔ ہماری بقا خطرے میں ہے۔ امریکہ یا برطانیہ خطرے میں نہیں، آسٹریلیا یا ہندستان خطرے میں نہیں، امریکی، برطانوی، آسٹریلوی، ہندستانی خطرے میں ہے۔ اس کرہ ارض کا ہر انسان خطرے میں ہے۔
خدارا یہ سب بکواسیات چھوڑدو، دنیا بھر میں معلوم اعدادوشمار کے مطابق بیس ہزار سے زائد انسان مرچکے ہیں۔ لاکھوں انسان اس مرض میں مبتلا ہیں۔ بس اس خالق کو یاد کرو، اور ایک کام کرو بس گھروں میں رہو، اب اس کرہ ارض پر سمجھ لو کوئی جغرافیائی تقسیم عملی طور پر موجود نہیں رہی۔ اب یہ زمین ہے اور ہم زمین زادے۔ سب لوگ گھروں میں رہو اور ذمہ دار انسانوں کی طرح احتیاط سے کام لو۔ اپنے رب کو یاد کرو۔
ہم انسان اس وبا کو اپنی عقل سے ہی شکست دے سکتے ہیں۔ عقل نے سائنس کو جنم دیا ہے۔ سائنس انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اور زمین پر ہماری بقا کی ضامن ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان اس وقت اس وائرس کے تریاق کیلئے تحقیقات میں مصروف ہیں۔ انہی تحقیقات نے یہ احتیاطی تدابیر بتلائی ہیں کہ گھروں میں رہو، اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھو، اس کو پھیلنے سے روکو۔
تحقیقات کے نتیجے میں کچھ جگہ پر تجربات بھی جاری ہیں۔ امید قوی ہے کہ جلد انشاءاللہ اس کا تریاق انسان بزور سائنس تلاش کرلے گا۔
(چائے ختم ہوچکی ہے اور ایک زمین زادہ اپنے منتشر خیالات کو قرطاس کے حوالے کرچکا ہے)